جامعہ اور میڈیا پروپیگنڈہ

جامعہ اور میڈیا پروپیگنڈہ
ترقی کے اس دور میں میڈیا کا کردار معاشرے میں اہمیت کا حامل ہے․ میڈیا معاشرے میں مثبت سوچ کو بھی جنم دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مایوسی اور, فساد کو بھی فروغ دیتا ہے․ یہاں تک کہ اگر معاشرے میں کوئی برائی پیدا ہو رہی ہو تو اُسے بھی جڑھ سے ختم رکھنے کی بھی قوت رکھتا ہے․کسی انسان کو ایک ہی دن میں زمین سے آسمان پر پہنچا دیتا ہے , تو ایک ہی دن میں انسان کو آسمان سے زمین پربھی گِرا دیتا ہے․ یہاں تک کہ میڈیا تو انسان کے اوڑھنے, بچھونے سے لے کر انسان کی سوچ تک تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے․

ایک طرف میڈیا سے عوام کو کچھ فائدے حاصل ہو رہے ہیں تو دوسری طرف منفی نتائج بھی دیکھنے میں سامنے آ رہے ہیں․ میڈیا یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ عوام کی آواز ہے․ مگر افسوس کبھی یہ آواز اُٹھاتے اُٹھاتے یہ بھول جاتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ تنقید کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے․ گرشتہ ماہ پیش آنے والا واقعہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح میڈیا عوام کی آواز بن کر عوام کی ہی عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہے اور ان کے جزبات سے کھیلتا ہے․

رواں ماہ کراچی کی سرکاری جامعہ کی طالبہ نے پروفیسر پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا․ لیکن پروفیسر نے طالبہ کے لگائے گئے الزام کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ انہوں نے طالبہ کو ہرگز بلیک میل نہیں کیا اور یہ ان کے خلاف سازش کی گئی ہے․ بعد ازیں سندھ ہائی کورٹ نے نجی چینل کی خبر پر شعبہ پیٹرولیم انجینئرنگ کے پروفیسرکو عدالت میں طلب کر لیااور تمام نجی چینل کو واقعے سے متعلق خبر یا پروگرام نشر کرنے سے روک دیا․چونکہ میڈیا نے اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا․ اس سے متعلق پیکجز, پروگرام اور مختلف خبریں بھی نشر کیں ․ جبکہ نجی چینلز نے ریٹنگ کی دوڑ میں اپنی تمام حدود کو پار کر دیا․ حیران کُن بات تو یہ تھی کہ جب نجی چینل نے اس واقعے سے متعلق خبر دیتے ہوئے کہا کہ ’’ جامعہ مادرِ علمی یا استحصال کا اڈا؟‘‘جبکہ نجی چینل کے رپورٹر کے مطابق جامعہ کی دیگر طالبات نے بھی اساتذہ کے خلاف ہراساں کرنے کی شکایات درج کی․ لیکن میڈیا نے اس بات کو ضرورت سے زیادہ ہوا دی ,اوراس بات کو ثابت کرنے میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑی کہ جامعہ کے دیگر اساتذہ بھی طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث ہیں ․

دراصل ایسے واقعات تو نجی و سرکاری دونوں جامعات میں اکثر و بیشتر رونما ہوتے رہتے ہیں․مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایک شخص کے انفرادی عمل پر پوری جامعہ کے لئے ’’اڈے‘‘ جیسا فحاش لفظ استعمال کیا گیا․ یہ لفظ سنتے ہی جامعہ سے منسلک ہزاروں طلبہ و طالبات, تدریسی وغیر تدریسی عملے کے تقدس کو پامال کیا خصوصا دیگراساتذہ کی عزت ِ نفس کو مجروح کیااوراساتذہ کی تو ہین کرنا میڈیا کی جانب سے ایک شرمناک حرکت ہے ․ چونکہ استاد کا تو اسلام اور معاشرے میں بھی بہت بلند مقام ہے اور جس قوم نے استاد کی عزت کی وہ زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب ہو ئی او ر جس نے استاد کی عزت نہ کی وہ ذلت و رسوا ہوئی ․ حتا کہ معاشرے میں اچھے اور بُرے دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی ایک شخص کے انفرادی عمل پر معاشرے کے تمام لوگوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا․ اسی طرح میڈیا کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ جامعہ کے ایک پروفیسر کی غلطی کے باعث اس سے منسلک تمام لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے․ہالانکہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا سراسر غلط نہیں․ لیکن اس قدر تنقید کا نشانہ بنانا ناقابلِ قبول ہے․

چونکہ ہر شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ اس طرح کے واقعات اور میڈیا کی جانب سے تنقیدی ردِعمل طالبات کی تعلیم کو بُری طرح متاثر کر سکتا ہے اور آج بھی ہمارے معاشرے میں روایتی سوچ رکھنے والے والدین موجود ہیں․جو میڈیاکی جانب سے اس طرح کے تبصرے پر اپنی بیٹیوں کو گھر سے جامعہ جانے پر پابندی لگا سکتے ہیں․اور حصولِ علم کی خواہش مند طالبات یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتی کہ اُن کو علم کی طلب سے روکا جائے․ کیونکہ علم ہی وہ راستہ ہے جو انسان کو اُس کی منزل تک پہنچنے میں کارآمد ثابت ہو سکتا ہے․ طالبات اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہیں ․ اپنے مُلک کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں اور وہ اُس وقت ممکن ہے جس وقت اُ ن کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے․

چونکہ پاکستان میں تبدیلی کا بہترین ذریعہ صرف اور صرف میڈیا ہے․ اسی لئے میڈیا کوا قدامات لیتے ہوئے اپنے قاعدے قوانین اور اصول و ضوابط کا خاص خیال رکھنا چاہیے․ چونکہ میڈیا کا کام عوام کی آواز کو دُنیا تک پہنچانا ہے نہ کہ پروپیگنڈا پھیلانا․ میڈیا کو چاہیے کہ ضرورت سے زیادہ تنقید کے بجائے معاشرے کے اُن مسائل کا حل ڈھونڈے, جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں دکھائی دے سکیں․کیونکہ یہی میڈیا کی ذمہ داری اور اس کا فرض ہے․ تعلیمی اداروں کا اگر مثبت کردار دنیا کے سامنے دکھایاجائے، اور معاشرے کی بقاء کیلیئے صحت مند اقدامات کیئے جایئں تو مستقبل میں یہ قوم ضرور سرخرو ہوسکے گی․

Iqra Zia
About the Author: Iqra Zia Read More Articles by Iqra Zia: 9 Articles with 12476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.