فکرِ حجازی سے مغرب کی اسیری تک: سعودی میں قمار خانے کے جرثومے

عام آدمی بھی یہ سمجھتا ہے کہ تاش کھیلنا(Baloot Championship)اور جوا کھیلنا بُرا ہے……یہ فعل اچھا نہیں……کارِ ثواب نہیں……اِسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا……اِسے اسلامی قدروں کے منافی سمجھا جاتا ہے……اِس میں ملوث شخص آئیڈیل نہیں ہوتا……اِس کو انجام دینے والا عقیدتوں کا محور نہیں ہوتا……محبتوں کا رشتہ ایسوں سے نہیں رکھا جاتا……بلکہ مہذب آدمی اِس میں مبتلا شخص سے نفرت کرتا ہے……اِسلامی فکر کا حامل ایسے کام سے بچتا بچاتا ہے……ائمہ اِس فعل سے بچنے کی تعلیم دیتے ہیں……ہمارے امام اِس برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں……علما ایسے فعل سے مسلمانوں کو روکتے ہیں……اسلامی نظامِ حکومت کا یہ حصہ نہیں……اسلامی تعلیمات اِسے ممنوع قرار دیتی ہیں……
حیرت انگیز سانحہ: 6اپریل 2018ء کی سہ پہر تھی……شوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوئی……کہ اسلامی مرکز……عقیدتوں کے محور حجازِ مقدس/ سعودی عرب میں……تاش/ قمار خانہ کا افتتاح ہوا……افتتاح بھی ایک امام نے کیا……جو محلے کی مسجد کا امام نہیں……حرم محترم کے سابق امام……مجھے یقیں کہ افتتاح کے وقت ان کا مقصد حکمرانِ مملکتِ سعودیہ کی رضا ہوگا……اگر اﷲ کی رضا ہوتا تو شاید وہ تاش کے پتوں کی بجائے افغان و شام کے بہتے خونِ مسلم کی فکر کرتے……لیکن یہاں تو جوئے کے مراکز کو استحکام عطا کرنا تھا……حجازی تہذیب کا ایک باب بند کرنا تھا…………مغربی تہذیب میں گُم ہونا تھا……معاً ذہن ٹرمپ کے اُس دورے کی طرف گیا……جب حجاز کی مقدس زمیں پر قیمتی تحائف سے ٹرمپ کا استقبال حکمرانِ مملکتِ سعودیہ نے کیا……پھر ٹرمپ کے جہاز نے اسرائیل کو پرواز کی……اور پھر اُس کے بعد عرب میں ایک نیا انقلاب آیا……جدیدیت کے نئے عہد کا آغاز ہوا……جس نے مغربیت کی یاد تازہ کر دی……اور حجازی تہذیب کو تہ و بالا کرنے کی عملی جرأت کی……

نسبتوں کی زمیں: حجاز ہماری تہذیب کی علامت ہے……ہماری روحوں کا رشتہ اس پاک زمیں سے جُڑا ہوا ہے……کیوں کہ وہاں کعبۃ اﷲ ہے……روضۂ رسول ﷺ ہے……خاتم الانبیاء ﷺ کا شہرِ مبارک ہے……جائے نزول ہے……ولادت گاہِ نبوی ہے……خطۂ حرم ہے……شعائر اﷲ ہیں……اﷲ کی نشانیاں ہیں……اسلام کا مسکن ہے……خیر و برکات کا محور ہے……منبع نور ہے……حج کے مقدس مقامات ہیں……ملتِ ابراہیمی کی عقیدتوں کی آماج گاہ ہے……قبلۂ مومن ہے……جادۂ مستقیم ہے……محورِ فکر و نظر ہے……مرکزِطاعتِ جبیں ہے……لیکن اِس وجہِ عظمت زمیں پر ایسے اقتدار کے حامل بستے ہیں، جنھیں وادیِ حجاز کے جلوے نہیں بھاتے……جنھیں کلیسا و دیر سے انسیت ہے……حرم میں ہیں اور حرم سے بیر ہے…… کعبہ کے متولی ہیں لیکن اُن کا دل سُوئے مغرب جھکتا ہے……اُن کی نگاہوں میں دانشِ فرنگ کے سُراب بسے ہیں……اِسی لیے کبھی ٹرمپ کے ہاتھ بکتے ہیں……کبھی برطانیہ کی زُلفوں کے اَسیر ہوتے ہیں……کبھی اسرائیل سے رشتۂ غلامی نبھاتے ہیں……پھر اِس غلامی کا یہ حق ادا کرتے ہیں کہ……فلسطین کی تباہی پر چُپ سادھتے ہیں……یمن کی تباہی کو آگے آتے ہیں……شام کی بربادی پر توثیق کرتے ہیں……لیبیا کی تاراجی میں خاموش حمایتی ہوتے……لبنان کی تاراجی پر چپی سادھتے……عراق کی تباہی کو جدہ میں امریکی فوج بساتے……حرم میں ہیں، لیکن حرم سے بیگانہ……اسیرِ فکرِ مغرب……لیکن جو اسیرِ حرم ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ ؂
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ہاں! عربوں کی تباہی کی وجہ یہی ہے……؂
جو ترے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں

مغرب کے جلوے:وہ درِ محبوب ﷺ سے پھرے……ایسے کہ اسلام کے ایک ایک اُصول سے دور ہوئے جاتے ہیں……اب وہاں مغرب کی پرچھائیاں ہیں……ہم ہندوستان میں حجاز کی تمنا کرتے ہیں……سوئے حرم کی آس لگاتے ہیں……وہ حرم میں شبِ فرانس و صبحِ لندن کے متمنی ہیں……اِسی لیے اب قمار و جوئے کے اڈے برے نہ رہے……بلکہ تمدنِ جدید کی طلب میں در بدر خوار پھرتے پھرتے……سنیما کی کھلی چھوٹ دے دی گئی……جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے……شاید آخرت کا تصور رُخصت ہوا……ہاں! اب وہاں شباب بھی کلبوں ہوٹلوں آفسوں میں بے پردہ ہو چکا ہے……اب وہاں جدیدیت کی رَو میں عریاں ملبوسات کے شوروم دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں……اب وہاں حسن بھی بے لگام ہوا چاہتا ہے……معاذاﷲ! اپنی تہذیب کے نشاں اپنے ہی ہاتھوں مٹائے جا رہے ہیں……

جلوۂ حجاز سے عداوت: کہنے کو حجازی ہیں……لیکن روح مغرب کی اسیر……اِسی لیے جسے محفوظ کرنا تھا……وہ ایک ایک کر کے مٹا دیے گئے…… جبل ابوقبیس کے نشاں متاثر ہیں……متبرک مقامات مٹائے جا رہے……جنت المعلیٰ میں اصحابِ رسول ﷺ کے نشاں معدوم ہیں……حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہ کی بارگاہ کا گنبد کب کا شہید کیا جا چکا……مکہ معظمہ کے کئی آثار کھرچ ڈالے گئے……مدینہ منورہ کے آثار چن چن کر مٹائے جا رہے……جنت البقیع میں کتبے ہٹا دیے گئے……گنبد شہید کیے گئے……اہلِ بیت کے نشاں مٹا دیے……صحابہ کی قبروں کو بے دردی سے شہید کیا……طائف میں آثار مٹائے……ابوا میں والدۂ رسول ﷺ کی قبر شہید کی……بنو سعد میں نبوی بچپن کے نقوشِ ارضی یک لخت مٹا دیے گئے ……اپنے آثار کے متلاشی اپنے نقوش سے محروم کر دیے گئے……اپنی تہذیب کو یوں بے نشاں ہوتے دیکھا گیا……شورش کاشمیری نے مشاہدہ لکھا تھا کہ:
’’سعودی حکومت نے عہدِ رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آثار،صحابۂ کرام کے مظاہر اور اہلِ بیت کے شواہداس طرح مٹا دیے ہیں کہ جو چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر محفوظ کرنی چاہیے تھیں وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر محو کردی گئی ہیں۔کہیں کوئی کتبہ یا نشان نہیں۔‘‘ [شب جائے کہ من بودم، مطبوعات چٹان لاہور،ص۲۲]

زوال کی ڈگر: حکومتوں کا معاملہ نشیب و فراز اور عروج و زوال کا رہا ہے……حجازی تہذیب کو تہ و بالا کرنے والے شایدزوال کے تصور سے آشنا نہیں……یاد رکھیں! مغرب کی اسیری کو ایک دن زوال آنا ہے……حجازی فضا میں مغربی آمیزش کرنے والے کب تک تاش و جوئے اور مراکزِ تعیش کو تقویت دیں گے!……آخر ان کے آرٹ و کلچر کے مغربی عزائم کی عمر کتنی ہے؟……ایک دن شام آنی ہے!……عثمانیوں کا دور سمٹ گیا……حالاں کہ ان کی رُوح حجازی تھی……جن کی رُوح مغربی ہے اُن سعودیوں کا دور سمٹ جائے تو کیا تعجب!……یہ زوال ہی تو ہے کہ زوال پذیر تہذیب کے قمار خانے میں پناہ لی جا رہی ہے……شاید امام حرم شیخ عادل کلبانی (سابق) نے اپنی جائے پناہ زوال کی وادیِ فرنگ میں تلاش کر لی……جبھی قرآن کی وادی میں قمار خانے بسائے جا رہے……اس کا افتتاح کر کے اپنی ذہنی تبدیلی کا ایڈریس فراہم کر رہے ہیں……افسوس کہ ایک طرف مسلم مملکتوں کی آبرو لُٹ رہی……اُن کے لہو سے ہولی کھیلی جا رہی……جن ملکوں نے انسانیت کو رُسوا کیا……تشدد کی بِنا رکھی……انھیں کی بگڑی تہذیب سے حجازیوں کی اخلاقی تباہی کا ساماں مہیا کیا جا رہا ہے……یہ سب کچھ آج کی بات نہیں……کل جو بیج بوئے گئے تھے، اسی کے نتائج آج رونما ہو رہے……اسلام کے دُشمنوں سے یاری کی داستاں ایک صدی پُرانی ہے……عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تھا……انھیں زوال آیا……اسی عہد میں صہیونیوں نے سعودیوں کو لا بسایا……حکومت دی……تخت و تاج دیا……بدلے میں وفاداری لی…… سعودی حکومت کے آغاز میں ہی ۱۹۲۵ء میں برطانوی مسٹر فلیپی کے آلِ سعود کے مشیرہونے میں بھی انگریز کے خفیہ اغراض ومقاصد تھے۔[مسئلۂ حجاز،صفحہ۳۰]……

بہر کیف حال کے جرائم اسلام کے مرکز سے منفی شبیہ پیش کررہے……یہی زوال کی دستک ہے……یہی اسلام دُشمنوں سے عہدِ وفاداری کا تازہ ثبوت ہے……جس کا انجام اچھا نہیں ہوگا……لیکن ان کا زوال نئے عہد کا پیش خیمہ ثابت ہوگا……اور خونِ صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہوگی……
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.