قرار دادِ پاکستان کی وضاحت ۔۔۔۔۔قائد کی زبانی

بر صغیر پاک و ہند میں کئی صدیوں سے دو الگ الگ قومیں موجود تھیں، جن کی عبادت، ریاضت، افکار، اخلاق، رہن سہن، طور طریقے وغیرہ تقریباً ہر فعل جدا جدا تھا۔ نظریہ و افکار اور طور طریقو ں کے اختلاف کی وجہ سے دونوں قوموں کی راہیں جدا جدا تھیں۔ایک قوم مسلمان اور دوسری قوم ہندو تھی ۔

ہندوؤں کی اکثریت کی وجہ سے مسلمان ظلم و ستم کا شکار تھے۔ وہ اپنے اسلامی اصولوں پر آزادانہ عملدرآمد کرنے سے قاصر تھے۔اس ظلم کی انتہاء کی وجہ سے مسلمانوں میں الگ وطن حاصل کرنے کی خواہش بیدار ہوئی۔کافی عرصہ تک یہ خواہش خواب رہی۔ لیکن مسلمانوں کی ہمت و استقامت، مسلم رہنماؤں کی عظیم کاوشوں اور مسلمانوں کی جانوں کے نذرانوں نے بالآخر تاریخ کو ایساموڑ دیا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت مارچ ۱۹۴۰ء میں ’’قرارداد پاکستان ‘‘منظور ہوئی۔

حصولِ پاکستان کی تمام جدو جہد صرف اس لیے تھیں کہ مسلمان ایک علیٰحدہ وطن میں اسلامی اقدا ر کی پاسداری کرسکیں اور اسلامی تعلیمات پر بغیر کسی رکاوٹ اور خوف کے عمل پیرا ہوسکیں، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں جو دشواریاں ہندوستان میں رہتے ہوئے پیش آرہی تھیں ‘ اُن سے چھٹکاراحاصل کیا جاسکے۔ یہی وہ وجہ تھی جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کردیا تھا، یہی وہ وجہ تھی جس کی پاداش میں ہماری ماؤں اور بہنوں کی عزتوں کو تا ر تار کیا گیا تھا۔یہی وہ جہ تھی جس کے جرم میں معصوم بچوں کی گردنوں پر چھریاں چلائی گئی تھیں۔یہ سب قربانیاں محض اس لیے تھیں کہ مسلمان ایک اسلامی ریاست میں آزادانہ اسلام پر عمل پیرا ہوسکیں۔

۱۲ جنوری ۱۹۴۵ء کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کانفرنس پشاور سے قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک پیغام میں فرمایا: ’’پاکستان کا مطلب محض آزادی نہیں بلکہ ’’اسلامک آئیڈیولوجی ‘‘(یعنی اسلامی نظریہ) ہے جس کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘

ایک اور موقع پر قائدِ اعظم نے فرمایا تھا:’’مسلم اکثریت والے صوبوں کوآزادی دلانی چاہیے تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں۔‘‘

ایک مقام پرخطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم پاکستان کے حصول کے لیے جدو جہد اسلام ہی کی ترقی کے لیے کررہے ہیں۔‘‘

قائدِ اعظم نے اس عظیم مشن کی تکمیل کی راہ میں آنے والی ہر آندھی اور طوفان کا مقابلہ کیا ۔ رکاوٹ میں آنے والی ہر چٹان کو پاش پاش کیا۔ جگہ جگہ تقاریر کرکے امتِ مسلمہ کے جذبے بیدار کیے۔اُن میں اسلامی ریاست کے قیام کو ممکن بنانے کے لیے نئی روح پھونکی ۔ ان کی ناامیدوں کو امید میں بد لا۔ یہاں تک کہ قائدِ اعظم اپنے مشن میں اس قدر منہمک تھے کہ اُن کی تمنا یہ ہوگئی کہ مرتے وقت ان کا ایمان ، دل اور ضمیر اس بات کی گواہی دیں کہ جناح تم نے واقعتا دین اسلام کے دفاع کا حق ادا کردیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے اپنی تمنا کااظہار کرتے ہوئے کہا:’’میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل ، میرا اپنا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعتِ اسلام کا حق ادا کردیا۔‘‘

تاریخ چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ قائد اعظم کا مشن یہی تھا ۔وہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے آزاد ملک حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔تاریخ کے ورق الٹ الٹ کر دیکھیے کہ کتنے ایسے لوگ تھے جو ہندوستان میں بہت بڑے بڑے تاجر تھے، ان کا کاروبار بہت وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا تھا۔ معاشی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود تقسیم ہند کے وقت اپنے کاروبار و تجارت ایسے ہی چھوڑکر اپنے اہل و عیال کواور صرف ضرورت کا سامان ساتھ لے کرپاکستان آئے تھے۔

ذرا غور کیجیے!کیا ہمارے بزرگوں نے صرف اس لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں کہ وہ آزاد ملک حاصل کرنے کے بعد اپنے کاروبار چمکا سکیں؟کیا ہماری ماؤں بہنوں نے صرف اس لیے اپنی عزتوں کی حفاظت کرتے ہوئے دنیا کو خیر باد کہا تھا کہ وہ آزاد ملک میں برہنہ ہوکر اپنے جسموں کی نمائش کروائیں گی؟

ایک معمولی سی عقل رکھنے والے شخص کا جواب نفی میں ہوگا۔ ۔۔اور ہونا بھی یہی چاہیے۔۔۔۔ہمارے آباواجداد اور ماؤں بہنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ اس لیے پیش کیا تھا کہ وہ ملک حاصل کرنے کے بعد آزادانہ اپنی اسلامی اقدار کی پاسداری کرسکیں اور اسلامی تعلیمات پر پابندی سے بغیر کسی رکاوٹ اور خوف کے عمل پیرا ہوسکیں، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں جو دشواریاں ہندوستان میں رہتے ہوئے پیش آرہی تھیں ‘ اُن سے چھٹکاراحاصل کیا جاسکے۔قائدِ اعظم نے مسلمانوں میں یہی جذبہ بیدار کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:’’جب تک اسلامی خون ان (مسلمانوں ) کی رگوں میں دوڑ رہا ہے ان کو کسی چیز سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اغیار کی مدد کے بغیر ہی اپنے خداپر بھروسہ رکھنا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ ‘‘

آخر میں قراردادِ پاکستان کی وضاحت سے متعلق ایک واقعہ پیش خدمت ہے کہ ایک مرتبہ قائداعظم سفر میں تھے۔ تقریباً ۹ سال کا ایک بچہ ’’مسلم لیگ زندہ باد‘‘،’’ قائد اعظم زندہ باد ‘‘اور ’’لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘کے نعرے لگارہا تھا ۔ قائداعظم اس کے جذبے سے متاثر ہوئے ۔ اس بچہ کو بلوایا ۔قائداعظم نے اس سے پوچھا کہ تم نعرے لگاتے ہوکہ ـ’’پاکستان لے کے رہیں گے‘‘ مگر کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کس چیز کو کہتے ہیں؟ اس بچے نے جواب دیا کہ ’’مجھے اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ جہاں ہندو ہوں وہاں ہندوؤں کی حکومت ہو اور جہاں مسلمان ہوں وہاں مسلمانوں کی حکومت ہونی چاہیے۔ قائداعظم نے کہا: شاباش! لاہور قرارداد کی اس سے بہتر اور کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی ۔

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 75995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.