سیاہی اور جوتے، قابلِ مذمت!

 خواجہ آصف ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے کہ دائیں طرف قریب ہی کھڑے ہوئے کسی مخالف نے ان کے چہرے پر سیاہی پھینک دی،سیاہی بھر پور انداز میں نشانے پر لگی۔ چونکہ کیمرے آن تھے، اس لئے سیاہی پھینکے جانے کا یہ منظر براہِ راست ریکارڈ ہوگیا۔ ٹی وی چینلز نے اس خبر کو فوری طور پر قوم کے سامنے لانے کا اہتمام کیا۔ خواجہ آصف نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’․․․کسی کو پیسے دے کر یہ کام کروایا گیا، ایسی حرکتوں سے مجھے کمزور نہیں کیا جاسکتا، سیالکوٹ کے لوگ مجھے پہلے بھی منتخب کرتے آئے ہیں، آئندہ بھی کریں گے․․․‘‘۔ پولیس نے سیاہی پھینکنے والے کو گرفتار کر لیا، تاہم خواجہ آصف نے یہ کہہ کر اسے چھوڑ دینے کا کہا کہ میری کسی سے دشمنی نہیں۔ اس سے قبل ایسا ہی واقعہ چند برس قبل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور سینئر وکیل احمد رضا قصوری کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔صرف یہی نہیں، گزشتہ دنوں بہاول پور میں میاں نواز شریف کے جلسہ کے لئے دیوقامت سائن بورڈ لگائے گئے تھے، کئی بورڈز پر میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی تصاویر کو مخالفین نے سیاہی پھینک کر خراب کردیا تھا۔ بات سیاہی پھینکنے تک ہی محدود نہیں، بہت سے واقعات ایسے بھی پیش آچکے ہیں، جن میں مخالفین نے کسی سیاسی رہنما پر جوتا پھینک دیا، ’جوتا پھینکی‘ کے واقعات عالمی سطح پر بھی پیش آرہے ہیں، پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔

خواجہ آصف پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں، اور آئی ٹی کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ ٹی وی پر چلنے والی بہت سی چیزیں براہِ راست نشر کی جا رہی ہوتی ہیں، اگر براہِ راست نہ بھی ہوں تو دنیا میں بہت سے مقامات پر انہیں دیکھا جاتا ہے۔ جب پاکستان کے وزیر خارجہ کے چہرے پر سیاہی پھینکی جائے گی تو دنیا میں اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ پاکستان کا کونسا امیج دنیا کے سامنے جائے گا؟ اور خاص طور پر بھارت اس معاملہ کو کس زاویے سے اچھالے گا، اس کس طرح مزے لے لے کر اپنے ناظرین کو یہ منظر دکھائے گا؟ دراصل ہمارے چینلز بھی بھارت یا دنیا کے کسی ملک میں ہونے والے ایسے واقعہ کو پُر لطف انداز میں دکھاتے ہیں، پس منظر میں گانے چلاتے ہیں، دلچسپ تبصرے کرتے ہیں، سیاہی یا جوتی کے منظر کو تسلسل کے ساتھ دکھاتے ہیں، بعض اوقات تو ایسے لگتا ہے کہ ایک ہی جوتی نہ جانے کتنی مرتبہ کسی کی طرف لپک رہی ہے؟ مزاحیہ طریقے سے تبصرہ ہوتا ہے، گویا ناظرین کے لئے تفریح کا سامان کیا جاتا ہے۔

یہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے، جس کی روک تھام کا بندوبست حکومت ، اپوزیشن اور عوام کا فرض ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ہی ایسے کاموں کی بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے سیاسی جلسوں پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جلسوں میں مخالفین پر کیچڑ اچھالنا، الزام و دشنام تراشی کرنا، غلط القابات سے پکارنا، مختلف نام رکھنا، پگڑیاں اچھالنا، للکارنا اور بھی نہ جانے کون کونسے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ رہنما تو رہنما ہوتا ہے، کارکن ان کے ہر عمل کو مثالی تصور کرتے ہیں، ان کے ہر فعل کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے قائدین کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ایک سیاسی لیڈر دوسرے کو دونمبر طریقے سے پکارے گا تو اس کا کارکن بھی ایسا ہی کرے گا۔ چونکہ سیاستدان یا لیڈر کسی دوسرے پر جوتا یا سیاہی پھینکنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا، چنانچہ یہ کام کارکن بطریقِ احسن نبھالیتے ہیں، خواہ وہ عملی طور پر سیاستدان پر یہ عمل کریں یا ان کی تصویر پر۔ سوشل میڈیا کو دیکھیں تو بعض اوقات گھِن آنے لگتی ہے، ایسی ایسی مغلظات اورمکروہ تبصرے ہوتے ہیں کہ بات شرم سے آگے بڑھ کر بلڈ پریشر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ سب کیا دھرا خود سیاستدانوں کا ہے، وہ اپنے کارکنوں کی تربیت کا اہتمام نہیں کرتے، انہیں ضرورت اور حدود سے آگے نکلنے سے نہیں روکتے، تاکہ زندگی آسان ہو سکے۔ مگر کیا کیجئے کہ جب خود سیاستدان بھی یہی کام کرتے ہوں، نہ وہ مخالفین کو رگڑا دینے کا کوئی موقع ضائع کرتے ہوں اور نہ ہی عدلیہ پر توہین آمیز تبصروں سے گریز کرتے ہوں، تو کارکن کیا کریں گے؟ خواجہ آصف سمیت بہت سے سیاستدان منفی تبصروں کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ حالات درست کرنے کا سلسلہ ’’اُوپر‘‘ سے شروع ہوگا تو بات بنے گی۔ خواجہ صاحب کا مذکورہ واقعہ میں ملوث شخص کو چھڑوا دینے کا عمل بھی قابلِ تحسین ہے۔ تاہم ایسے واقعات کا مستقل سدّ ِ باب ہونا چاہیے۔

 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428355 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.