امریکی ڈومور کا جواب پاکستانی نومور

امریکی وزیرِ دفاع نے اسلام آباد میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف، وزیر دفاع خرم دستگیر، وزیرِ داخلہ احسن اقبال، وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ، آئی ایس آئی چیف نوید مختار اور امریکی سفیر برائے پاکستان ڈیوڈ ہیل بھی موجود تھے۔ ملاقات میں جیمز میٹس نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد طویل المدتی تعلقات کو آگے بڑھانا ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کے دوران امریکی وزیر دفاع نے واضح کیا کہ کئی ہائی پروفائل دوروں کے باوجود ان کے ملک نے پاکستانی رویہ میں کوئی پریکٹیکل تبدیلی نہیں دیکھی۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھاکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سے آگاہ ہیں۔ پاکستان امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان امن عمل میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان اپنی کوششوں کو دگنا کرے، کیونکہ افغانستان میں امن سے خطے میں استحکام آئے گا۔ امریکا نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی تعریف کی۔ امریکا نے واضح کیا دہشتگردی کے خلاف مشترکہ مقصد کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی طرف سے امریکی مہمان کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ دو طرفہ تعلقات کو محض سلامتی اور بطور خاص افغان صورتحال کی عینک سے نہ دیکھا جائے، پاکستان اپنے وسائل اور کیے گئے وعدوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہا ہے، لیکن اسے امریکا اور افغانستان، دونوں کی طرف سے عدم تعاون کا سامنا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے معاونین سے امریکی وزیر دفاع کی ملاقات کے بعض پہلوؤں سے آگاہ ذرایع کے مطابق اس ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل نوید مختار کی موجودگی بہت سودمند ثابت ہوئی۔ امریکی وزیر دفاع اور ان کے وفد نے اگرچہ پاک امریکا تعلقات پر بھی بات کی، لیکن افغانستان کی صورتحال اور پاکستان کا تعاون ہی ان کا مرکزی موضوع تھا، جس پر انہیں باور کرایا گیا کہ پاکستان اور امریکا چھ دہائیوں سے دوستانہ تعلقات کے حامل ہیں۔ ان دو طرفہ تعلقات کو افغان صورتحال کا یرغمال نہ بنایا جائے۔ پاکستان نے امریکی وزیر دفاع کو پاکستان افغان سرحد محفوظ بنانے کے اقدامات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں اور پوری قوم ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف یکسو اور متحد ہے۔ پاکستان اور امریکا میں وسیع البنیاد رابطوں سے تعلقات مضبوط بنانا ضروری ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات میں دوطرفہ اور خطے کی سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے کہا پاکستان نے مشکلات کے باوجود امن کے لیے اپنے حصے اور وسائل سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ آرمی چیف نے خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ آئی ایس پی آر نے کہا افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کیے جانے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ آرمی چیف نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کرنے اور افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر اظہار تشویش کیا۔ آرمی چیف نے کہا پاکستان کو امریکا سے ہم آہنگی کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ پاکستان نے اپنے محدود وسائل میں بہت کچھ کیا۔ افغان مہاجرین کی باوقار اور وقت پر واپسی جلد ہونی چاہیے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔ ہم نے پاکستان سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کردیں۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنا ضروری ہیں۔ پاکستان امریکا کے ساتھ باہمی تعلقات چاہتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس الگ سے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سے بھی ملے، اس موقع پر پاکستان کی عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈو مور کا امریکی مطالبہ یکسر مسترد کردیا اور کہا کہ پاکستان سے بڑھ کر کسی ملک نے قربانیاں نہیں دیں۔ امریکی سفارت خانے اور عسکری ذرائع کے مطابق جم میٹس نے کہا کہ وہ دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں، تاہم کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان امریکا اور دیگر شراکت داروں سے مل کر کام کرے اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان مزید کوششیں کرے، تاہم عسکری قیادت نے واضح الفاظ میں ڈو مور کا مطالبہ مسترد کردیا اور واضح کردیا کہ افغانستان مین قیام امن کے لیے پاکستان سے بڑھ کر کسی نے کچھ نہیں کیا، اب دنیا کو امن کے لیے ڈو مور کرنا ہوگا۔ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائیاں کر رہا ہے اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ امریکا زمینی حقائق سمجھے، جبکہ جنوبی ایشیاء کے لیے نئی امریکی پالیسی پر پاکستان کے تحفظات پر بھی بات ہوئی اور ڈرون حملوں پر بھی جم میٹس کو تحفظات سے آگاہ کر دیا گیا۔ انھیں بتایا گیا کہ ڈرون حملوں سے پاکستان کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے، جو قبول نہیں۔ آرمی چیف نے افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے افغان سر زمین استعمال کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ آرمی چیف نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے عزم کی عکاسی کرتے ہوئے کہا پاکستان نے مشکلات کے باوجود اپنی بساط سے بڑھ کر خطے میں امن کے لیے کردار ادا کیا، پاک سر زمین سے دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کر دی ہیں۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ سے لگتا ہے کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک میں تلخیاں باقی ہیں اور تعلقات میں گرم جوشی نہیں ہے۔ حالیہ مہینوں میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں پر پاکستانی بہت نالاں ہیں۔ پاکستان کی حکومت بھی ان امریکی دھمکیوں پر بہت ناراض ہے اور اس کا ایک مظاہر ہ امریکی وزیر دفاع کا استقبال ہے۔ امریکی وزیر دفاع کے استقبال کے لیے کوئی بڑا وزیر موجود نہیں تھا، بلکہ وزارتِ خارجہ اور دفاع کے حکام نے ان کا استقبال کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو امریکی دھمکیوں پر سخت تحفظات ہیں۔ امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے لیے باعزت راستہ چاہیے اور اس کے لیے صرف پاکستان ہی امریکا کی مدد کر سکتا ہے۔ امریکا پاکستان کو بالکل چھوڑنا نہیں چاہتا۔ ایک طرف سی آئی اے کا ڈائریکڑ پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے اور دوسری طرف جیمز میٹس مشترکہ گراونڈ تلاش کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ امریکا افغانستان میں بری طرح پھنس چکا ہے، جہاں اب وہ فوجی بھی طالبان کے ساتھ مل رہے ہیں، جن کو امریکا نے تربیت دی تھی۔ تو یہ صورتِ حال واشنگٹن کے لیے بڑی پریشان کن ہے۔ ایسے موقع پر امریکا اگر پاکستان کو مکمل طور پر دیوار سے لگاتا ہے، تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان اس وقت کمزور پوزیشن میں نہیں ہے۔ ماضی میں پاکستان صرف امریکی امداد پر انحصار کرتا تھا، لیکن اب خطیر چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے یہ انحصار کافی حد تک کم ہو سکتا ہے یا کم از کم اب پاکستان کے پاس زیادہ راستے ہیں، تو وہ امریکا کے بے جا مطالبات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی برائے جنوبی ایشیا پر پاکستان اپنا موقف واضح کر چکا ہے۔ امریکا کو سمجھنا ہو گا کہ محض اس کی شرائط پر پاکستان کو تعاون کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ افغانستان کے حوالہ سے جب امریکا اور پاکستان دونوں کے قومی مفادات کو ملحوظ رکھ کر بات کی جائے تو پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرسکے گا۔ اگر امریکا افغانستان کے سیاسی حل پر راضی ہوجائے تو دونوں ممالک امن کے لیے مشترکہ نکات تلاش کر سکتے ہیں، افغانستان میں امن کی کنجی پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ہمیشہ نشیب و فراز دکھائی دیے ہیں۔ بالادست امریکا نے جب چاہا پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، بلکہ پاکستان پر امریکی اثر اس حد تک بڑھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اس کے اثرات نمایاں رہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی نائن الیون کے بعد دوسری افغان جنگ کے دوران آئی۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یوٹرن آگیا تو افغان جنگجوعناصر نے پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا۔ پاکستان تاریخ ِ عالم کی بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا اور دْنیا میں اگر کسی مْلک نے یکسوئی کے ساتھ دہشت گردوں کے خاتمے کی کوششیں کی ہیں تو وہ صرف پاکستان ہے،اِس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان بھی ہمیں ہی اْٹھانا پڑا ہے، جس میں سب سے قیمتی نقصان تو جانوں کا ضیاع ہے۔ معیشت کو جو نقصان ہوا اس کا حجم بھی اتنا زیادہ ہے کہ کوئی عالمی امداد بھی اس کی تلافی کے لیے کافی نہیں ہو سکتی، لیکن اتنی زیادہ قربانیوں کے باوجود اگر پاکستان کے بارے میں بدگمانیاں موجود رہیں تو اِسے زیادتی ہی گردانا جائے گا۔ پاکستان نے اپنے ہزاروں نوجوانوں کی قربانیاں دے کر دہشت گردی کے خلاف بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے باوجودامریکی الزامات بڑھتے چلے گئے۔ گزشتہ روز بھی کیلیفورنیا میں ایک فورم سے خطاب میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے خبردار کیا کہ پاکستان پر یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک کے اندر دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے تباہ کرتا ہے تو اس سے ہمیں افغانستان میں بھی دہشتگردوں کو کنٹرول کرنے میں معاونت ملے گی، لیکن پاکستان ایسا کرنے میں ناکام ہوا تو ہم خود کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے سخت الفاظ میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے پاکستان نئی افغان پالیسی پر عمل کرے۔ انہوں نے مزید وضاحت دی کہ پاکستان نے واشنگٹن کی پیشکش کو مسترد کیا تو ٹرمپ انتظامیہ ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے دوسرے ذرایع استعمال کرے گی۔ امریکا کے لیے سب کچھ کرنے کے باوجود بھی امریکا کی طرف سے دھمکیاں ہی ملنی تھیں تو پاکستان کو بہت پہلے امریکا کی جنگ سے نکل جانا چاہیے تھا۔ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ جب اپنا مقصد پورا ہوا، مطالبات بڑھادیے۔ پاکستان امریکا کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دے لے، لیکن امریکا ہمیشہ اپنے مطالبات ہی بڑھاتا رہے گا اور مذاکرات کے ساتھ دھمکیاں بھی دے گا۔ امریکا کی جنگ سے نکلنا وقت کا تقاضا تھا، پاکستان امریکا کی جنگ سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان کے آرمی چیف نے پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ’’بہت ڈومور کرچکے، اب دنیا ڈو مور کرے‘‘۔ پاکستان نے اب امریکا کی جنگ سے نکلنے کا فیصلہ کرکے پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.