بد قسمتی

پاکستان کا شمار ان بد قسمت ممالک میں ہوتاہے۔جہاں اختیار اور اقتدار کے درمیان بڑی واضح خلیج موجود ہے۔عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ایک نظام ہے۔اور اصل میں معاملات کسی دوسرے نظام کے تابع ہیں۔اقتدار کے سنگھاسنوں پرکچھ اجلے چہروں کو بٹھا کر ان کے اختیار ات کو کچھ دوسرے لوگ استعمال کرتے ہیں۔پردے پیچھے چھپ کر یہ مکروہ چہروں کی سیاہیاں چھپاتے ہیں۔اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ نااہل اوربدنیت لوگ پراجمان ہیں۔یہ لوگ مسلسل ریاست کی ناکام کا سبب بن رہے ہیں۔نظام ریاست چلانے کے لیے اختیار بانٹنے لازمی ہوتے ہیں۔بظاہر ہر قسم کے ادار ے موجود ہیں۔مگر عملا ان کا کردار محض خانہ پری جیسا ہے۔اپنی اپنی حدود میں رہنے کی بجائے ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی روایت موجود ہے۔جو لوگ اداروں کے نگہبا ن اور منصفین قرار پاتے ہیں وہ بھی بجائے انصاف اور اصول کی بات کرنے کی بجائے اونچ نیچ کو مد نظر رکھ کر فیصلے سناتے ہیں۔حالات اس قدر خراب ہیں کہ سیدھے الٹے کاکوئی فرق نہیں رہا۔بڑے چھوٹے کی تمیز جاتی رہی۔جو ادارے بڑے قرار پائے۔ان پر وہ ادارے حاوی ہوچکے جو نسبتا ادنی قرار پائے تھے۔سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرکے پنجاب حکومت کو اورنچ ٹرین بنانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔لارجر پنچ نے قریبا آٹھ ماہ قبل اونچ ٹرین کیس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ا ب یہ فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔پنجاب حکومت کو پابند کردیا گیاہے کہ بعض امور کو مدنظر رکھا جائے۔اس سلسلے میں 31 شرائط سامنے آئیں۔تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے دو کمیٹیاں قائم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ایک کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس کی طر ف سے نامزد ریٹائرڈ جج ہوگا۔ٹرین کے چلنے کے بعد 10ہفتوں تک اس کی ارتعاش کا جائزہ لیا جائے گا۔سپریم کورٹ میں اورنج ٹرین سے متعلق فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی لارجر بنچ میں سے ایک جج نے اختلافی فیصلہ سنایا۔

عدالت کے اس فیصلے سے جانے کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار۔ممکن ہے شہباز شریف اس فیصلے کو حق سچ کی فتح قرار دیں۔کیوں کہ انہوں نے اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کو آڑے ہاتھ لیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کو انہوں نے دھرنا گروپ کی ناکامی قراردیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ خاں صاحب کچھ لوگوں کے ہاتھ استعمال ہوتے ہوئے ترقی کے بے شمار منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔قوم ان کے مذموم عزائم کو ناکام بنادے گی۔وزیر اعلی کی باتوں سے قطعی نظراس بات میں کوئی دور ائے نہیں کہ کچھ لوگ اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بالکل حق میں نہ تھے۔اس ضمن میں ہزاروں دلیلیں پیش کرتے دکھائی دیے۔ان کی دلیلوں کی بے دلیلی ہی ان کے بغض باطن کا ثبوت رہی ہے۔اس طرح کی اوٹ پٹانگ دلیلیں پیش کی گئیں کہ خدا کی پناہ۔ان کی بے وزن دلیلوں سے یہی تاثر ابھرتاتھاکہ گویا اس پوری دنیا میں اورنج ٹرین کا کوئی پہلا تجربہ ہونے جارہا ہے۔جو کسی ممکنہ تباہی کو جنم دے سکتاہے۔اس بات سے قطع نظرکہ دنیا بھر میں اس طرح کی ٹرینیں کامیابی سے چل رہی ہیں۔نہ ان کے ارتعاش سے کوئی بلڈنگیں متاثر ہوئیں۔نہ ایسی ٹرینیں زلزلوں سے متاثر ہوئیں۔ایسی ٹرینیں تو ارد گرد کے ماحول کو مزید خوش نما بنانے کا سبب بن گئی۔نہ کہ ان سے تاریخی مقامات کی خوبصورتی کو کچھ گہن لگا۔تحریک انصا ف کی قیادت کے لیے یہ فیصلہ لمحہ فکریہ ہے۔اگر شہباز شریف اس منصوبے کے آٹھ سال تک معطل رہنے کو عمرا ن خاں سے جوڑ رہے ہیں۔تو تبدیلی او رانقلاب کے داعیان کے لیے یہ کوئی اچھی بات نہیں۔عمران خاں کی انقلاب کی یہ تحریک کہیں انقلاب کی راہ میں تو رکاوٹ نہیں بنتی جارہی۔اگر سڑکیں۔موٹر ویز۔اورنج ٹرینیں۔اور میٹروکی تعمیر میں روڑے اٹکائے جائیں گے تو بھلا انقلاب کیوں کر شرمندہ تعبیر ہوگا۔خاں صاحب جس ولوے اور جوش سے رواں دواں ہیں۔وہ قابل ستائش ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ا ن کی سمت کیاہے۔کیا وہ منزل لاحاصل کی سعی تو نہیں کرہے۔ان کی اب تک کی سعی تو بالواسطہ طور پرملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہی بن پائی ہے۔اب جبکہ ملک میں دہشت گری۔لوڈشیڈنگ او رمعیشت کی بد حالی کے دیودم توڑ رہے ہیں۔تحریک انصاف کی پھرتیاں دیدنی ہیں۔کاش وہ یہ پھرتیاں تب دکھاتی جب۔ان مسائل کو پیدا کرنے والے حکمران تھے۔بد قسمتی سے تب خاں صاحب نے متحرک ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.