بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ

بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی گردان ہی نہیں کرتی رہتی بلکہ خود ہی بہت سارے دہشت گردی کے ڈرامے رچا کر الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا ممبئی حملے کے ڈرامے کی کمزور کہانی۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر آر وی ایس مانی نے یہ انکشاف کیا تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے حکومت نے خود کرائے تھے۔ ایک حلف نامے میں آر وی ایس مانی نے تفتیشی ٹیم کے افسر کے حوالے سے بتایا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کروائے گئے دونوں حملوں کا مقصد دہشت گردی کے قوانین میں سخت ترامیم کے لئے ماحول سازگار کرنا تھا۔ 2001 میں نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والا حملہ ملک میں رائج بدنام زمانہ قانون پوٹا جب کہ 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملے یو اے پی اے قانون میں ترامیم کرکے اسے مزید سخت بنانے کے لیے کرائے گئے تھے۔اس انکشاف کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ انڈیا نے ہمیشہ پاکستان پر الزام تراشی کی۔ممبئی حملوں میں زندہ پکڑے جانے والے اجمل قصاب کو انڈیا نے عجلت میں پھانسی کیوں دی؟حالانکہ جب پاکستانی وکیلوں کا وفد جرح کے لئے انڈیا گیا تھا تو انڈیا نے اجمل قصاب سے جرح کرنے والوں سے بھی جرح نہیں کرنے دی تھی۔

بھارت کی انسانی حقوق کی معروف کارکن اور ممتاز مصنفہ ارون دھتی رائے نے 13دسمبر 2001کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بارے میں ایک کتاب کے تعارفی نوٹ میں حکومت سے اس حملے سے متعلق 13 سوالات پوچھے ہیں۔ پہلے سوال میں کہا ہے کہ اس حملے سے 4 ماہ قبل حکومت اور پولیس نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوسکتا ہے۔ 12 دسمبر 2001کو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے باضابطہ طور پر ایک اجلاس طلب کیا تھا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوسکتا ہے اور 13دسمبر کو یہ حملہ ہوگیا۔ سخت سکیورٹی حصار کے بیچ کس طرح ایک کار جس میں بم نصب تھا، پارلیمنٹ کمپلیکس کے اندر داخل ہوئی اور دھماکے سے پھٹ گئی؟ حملے کے چند دنوں بعد دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے یہ کہا تھا کہ یہ مشترکہ طور پر لشکر طیبہ اور جیش محمد نامی جنگجو تنظیموں کی کارروائی ہے۔ ارون دھتی رائے کے مطابق دلی پولیس نے دعوی کیا تھا کہ محمد نامی شخص جو IC-814 ہوائی جہاز کو اغوا کرنے میں بھی ملوث تھا، اس حملے میں ملوث ہے جسے بعد میں سی بی آئی نے بری کر دیا تھا۔ پولیس نے ان ثبوتوں کو مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ عدالت میں بطور ثبوت کیوں پیش نہیں کی گئی اور عوام کو بھی یہ ریکارڈنگ کیوں نہیں دکھائی گئی۔ بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ پر حملے کی آج تک سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی، جس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔بھارتی پولیس نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان اور جہادی تنظیموں پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر دیا اور بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ میں اس حوالے سے بحث بھی نہیں ہونے دی۔ آج تک بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ حملے میں ملوث ان پانچ حملہ آوروں کے نام نہیں بتائے۔ ان سوالات کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس کیوں ملتوی کردیا گیا۔

چند دن بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہیں اورحکومت نے 5 لاکھ بھارتی فوجیوں کو پاکستان بھارت سرحد پر تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ بھارتی فوجیوں کو 13دسمبر سے قبل ہی تعینات کر دیا گیا تھا؟ پارلیمنٹ پر حملے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا افضل گورو سابق عسکریت پسند تھا جس سے بھارتی فوجیوں خاص طور پر ٹاسک فورس کا باقاعدہ رابطہ تھا۔ سکیورٹی فورسز اس حقیقت کی کیسے وضاحت کریں گی کہ انکی زیر نگرانی ایک شخص اتنی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کیسے کر سکتا ہے۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں اتنی بڑی کارروائی کیلئے ایک ایسے شخص پر کیسے اعتماد کرسکتی ہیں جو بھارتی سپیشل ٹاسک فورس سے رابطے میں ہو۔ بھارتی پولیس کے کمشنر ایس ایم شنگری نے حملے کے چھ دن بعد ہلاک ہونیوالے ایک حملہ آور کی شناخت محمد یاسین فتح محمد عرف ابوحمزہ کے طور پر کی اور اس کا تعلق لشکر طیبہ سے بتایا گیا تھا۔ جبکہ یاسین کو نومبر 2000میں ممبئی میں گرفتار کر کے اسے کشمیر پولیس کے حوالے کر دیا گیاتھا۔ اگر وہ پولیس کی حراست میں تھا تو وہ حملے کے دوران کیسے ہلاک ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد ی کا مرکز پاکستان نہیں بھارت ہے جہاں مسلمانوں کے علاوہ سکھ، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندو بھی ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ خود اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے تربیتی کیمپ موجود ہیں جہاں مسلمانوں پر حملوں کے لئے ہندووں کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ بھارت اس طرح کا جھوٹا پروپیگنڈہ اور بے بنیاد الزام تراشی کرکے اپنا دہشت گردی والا مذموم چہرہ چھپانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارت جانے والے تحقیقاتی کمیشن نے بھی پاکستان واپسی پر واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ انڈیا کے الزامات میں سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس، مالیگاؤں اور مکہ مسجد دھماکوں سمیت دہشت گردی کی تمام وارداتوں میں خود ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث رہی ہیں۔ یہ سب باتیں حقائق منظر عام پر آنے کے بعد انڈیا کس منہ سے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرتا ہے۔ستیش ورما کے انکشاف سے بھارت سے یکطرفہ دوستی کی پینگیں بڑھانے اور پاکستانی دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر پر خاموشی اختیار کر کے اپنی ہی دریاؤں سے پیدا کردہ بجلی خریدنے کی کوششیں کرنے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔بھارت چانکیائی سیاست پر عمل پیرا ہے۔وہ دنیا کو دکھانے کیلئے پاکستان سے دوستی کا ڈھونگ رچا رہا ہے لیکن دوسری طرف انڈیا میں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔مسلم بستیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل اور مساجدومدارس کو شہید کیا جارہا ہے۔ بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کے سلسلہ میں پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں بے پناہ پروپیگنڈہ کیا اور پاکستانی حکمرانوں پر دباو ڈال کر مذہبی رہنماؤں کو جیلوں میں قید کروا دیا جو ابھی تک سزائیں بھگت رہے ہیں لیکن اب ساری باتیں کھل کر دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بھارت خود اپنے ملک میں تخریب کاری اور دہشت گردی کرواتا ہے اور پھر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتاہے۔ حکمرانوں کو کسی قسم کے دباؤکا شکار ہونے کی بجائے ملکی خودمختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینی چاہئی۔

2004میں بھارتی انٹیلی جنس بیورو اور گجرات پولیس نے ملی بھگت کر کے ممبئی کی طالبہ عشرت جہاں سمیت چار مسلمانوں کو قتل کر کے لشکر طیبہ کے جنگجو قرار دے دیا تھا اور دعوی کیا تھا کہ یہ بھارتی گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی کو قتل کرنے کے ارادے سے جا رہے تھے۔ کہ مقابلے میں مارے گئے لیکن 9 برس بعد ثابت ہوا کہ عشرت جہاں بے گناہ تھی اور سے جعلی مقابلے میں نشانہ بنایا گیا یہ کیس بھارتی عدالت میں زیر سماعت ہے ایسا ہی ایک اور معامہ سمجھوتہ ایکسپریس کے باغ کا تھا جس کا الزام لشکر طیبہ پر عائد ہو لیکن بھارتی فوج کا حاضر سروس افسر ملوث نکلا تحقیقات ہو تو بہت سے ایسے معاملات سامنے آئیں گے۔

کشمیرسے نیپال تک پھیلے بھارت میں آزادی کی سینکڑوں تحریکیں سرگرم عمل ہیں بھارت کے ریاستی تضادات نچلی ذات کے ہندوں دلت اقوام اور مسلمانوں و دیگر اقلیتوں سے نامناسب سلوک نے وہاں احساسی محرومی بڑھا دیا اس کے ردعمل میں احتجاج کو پاکستان کے کھاتے میں ڈا ل کر بھارتی حکومت اور ایجنسیاں درحقیقت برصغیر بلکہ جنوبی ایشیا میں تھانے داری کا منصب ہتھیانا چاہتی ہیں تاکہ دنیا کے موجودہ کیا قطبی نظام کی طرح اس علاقے میں بھی اسے کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ نکسل باغیوں مانواز کمیونسٹوں کشمیری حریت پسندوں نے بھارتی حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے اس کا سبب بھارتی حکومت کی متشددانہ پالیسیاں ہیں اگر وہ ان میں تبدیلی لائے مکالمے کا آغاز کرے اور ان کے مطالبات تسلیم کرے تو اسے احساس ہو کہ ظالم اور سازش پڑوسی نہیں وہ خود ہے کشمیر پر قبضے جونا گڑھ اور حیدرآبد دکن پرپولیس ایکشن پاکستان کے دریائی پانی پر قبضے سمیت کتنے مظالم ہیں جو اس طرفسے ہوئیاور اب بھی جاری ہیں حرف آخر یہ کہ اجمل قصاب افضل گورو اور عشرت جہاں کے مقدمات کو عالمی عدالت انصاف میں چلانے کا مطالبہ کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔

Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 39208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.