اداروں سے محاذ آرائی کوئی نظریہ نہیں !

میاں صاحب نے ایبٹ آباد عوامی جلسے سے خطاب کے دوران با بانگ دہل کہا ہے کہ مائینس نواز شریف کہنے والے سن لیں کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے اور مائینس ون کا خواب دیکھنے والوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، الزامات لگانے والوں کو شرم آنی چاہیے۔۔ کہتے ہیں کہ : جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ۔۔یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں مگر یہاں تو لگتا ہے کہ مشیران و وزیران اور خوشامدیوں نے کوئی پرانا حساب چکتا کرنا ہے کہ دوبارہ میاں صاحب کو عوام میں لاکھڑا کیا ہے ۔اور ہمیشہ کی طرح وہی عدلیہ مخالف بیانات ، سیاسی ادوار کی مشکلات ، اداروں کی کرامات و ترجیحات اور بے سروپا وعدوں کی تکمیل کے امکانات نے نئی بحث چھیڑ دی ہے کیونکہ ایسی ڈھٹائی اور جارحانہ رویے کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی حالانکہ بشمول سعودی عرب تما م ممالک کے ایسے سربراہا ن جو کرپشن جیسے فعل میں قابل گرفت سمجھے جا رہے تھے وہ ازخود خاموشی سے ایک طرف ہوچکے اور مزید جگ ہنسائی سے بچنا ہی مناسب سمجھا ہے اور شریف خاندان کو انکے خیر خواہان بارہا، در پردہ اور کبھی اشاروں کنایوں سے سمجھا تے رہے کہ خوشامدی آپ کو اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو رہی ہے لہذا ان کو مزید موقع مت دیں کہ آپ کی ہوا مزید خراب ہومگر مقدر ہی مخالف ہو توپند و نصیحت کام نہیں آتی۔۔ اگر میاں صاحب کی پوری تقریر کو ایک سطرمیں بیان کیا جائے تو مدعا کچھ یوں تھا :
’’اور بہت مل جائیں گے ادب و آداب والے ۔۔ہم آوارہ ہیں تلخ ہی بولیں گے ‘‘اور اس پر’’نظریہ نواز شریف‘‘ کا شوشا ۔ تقریر لکھنے والا بھی ہمیشہ ہی کچھ ایسا لکھتا ہے جو قابل گرفت یا مزحکہ خیز ٹھہرتا ہے کہ اب سوشل ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ہر طرف ایک ہی سوال ہے کہ نظریہ نواز شریف کیا ہے ؟مبصرین کے مطابق تو یہ نظریہ مزاحمت ، خیانت ، آمریت ، منافقت اور حماقت کا انداز ہے اور جہاں تک بات ہے تقریر کی تو اس میں بھی دو پہلوہیں کہ میاں صاحب کے سیاسی ادوار گواہ ہیں کہ وہ دباؤ پر مستعفی ہو گئے تھے اور جیل جانے کے خوف سے ڈیل بھی کر چکے ہیں اس لیے ان کا جوش و خروش دکھاوا ہے اور اگر بات کریں کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے تو ایسے حالات کا سامنا شریف خاندان کو کبھی نہیں کرنا پڑا کیونکہ شریف خاندان در پردہ ڈیل میں ہی رہتا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ اس جارحانہ حکمت عملی کی وجہ کیا ہے تو وہ اس لیے ہے کہ میاں صاحب تصادم کی راہ اختیار کر کے جمہوریت کے ساغر کو توڑنا چاہ رہے ہیں کہ پرانے کھلاڑیوں کو نئے کھلاڑی کا کھیلنا ایک آنکھ نہیں بھاتا بدیں وجہ پاکستان کی سب سے بڑی آئینی عدالت اور اسٹیبلیشمنٹ کو ہد ف تنقید بنایا ہوا ہے اور نعرہ جمہوری انقلاب کا لگا رہے ہیں جبکہ آج اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت ہی قوم کا مقدر بن چکا ہے کہ آنکھ نہ دیدہ کاڑھے کشیدہ کے مصداق دعوے اور وعدے ہر سیاسی جماعت کے پاس ہیں اور ہر جماعت ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی بات کرتی ہے مگر گڈ گورننس کا خواب کبھی پورا نہیں ہوتا کہ عوام سسک رہے ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں ۔

نظریاتی تقریر سے قبل احتساب عدالت میں پیشی کے بعد بھی میاں صاحب نے کہا کہ ’’ مخالفین ملکی ترقی سے ناخوش ہیں ،سزا دی نہیں جا رہی ،دلوائی جا رہی ہے ، احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہو رہا ہے ۔وہ دوہرا عدالتی معیار ختم کریں گے ـ‘‘ ہم تو پہلے دن سے لکھ رہے ہیں کہ یہ سازش نہیں ہے بلکہ مکافات عمل ہے بلاشبہ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ سزا دی نہیں جا رہی دلوائی جا رہی ہے کیونکہ یہ سب تو دو جہانوں کا مالک کنٹرول کر رہا ہے کہ انسان میں اتنی اہلیت اور طاقت کہا ں ہے تاہم اﷲ نے ہر طاقتور کے لیے ایک طاقتور ترین پیدا کیا ہے مگر پھر بھی سب کٹھ پتلیاں ہیں ۔۔۔کیا نہیں ہیں ۔۔؟ایسے بے شمار واقعات روزو شب ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارا بہت ہی عزیز اور پیارا آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے توسبھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آخری سانسیں ہیں اور ہم بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہاتھ چھوٹ رہا ہے ۔ناطہ ٹوٹ رہا ہے مگر دولت یا طاقت کچھ بھی اسے بچا نہیں سکتا سوائے ایک موہوم سی امید کے جوکہ لبوں پہ آکر بے بسی بن کر آنکھوں سے رواں رہتی ہے مگر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوتے ہیں کیونکہ انسان اصل قادر مطلق کے سامنے بے بس ہے ۔تو اے خاک کے پتلے ! تم کس چیز کا غرور کرتے ہو؟ ایسے ہی سوالی آنکھیں اور ہاتھ آسمان کیطرف اٹھ گئے ہیں ۔آپ کو یاد تو ہوگا کہ جب پاناما کیس اپنے عروج پر تھا تو لیگی وزرا سمیت خوشامدیوں اور درباریوں نے سر عام کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہم نے معاملہ اﷲ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے اب وہی جو فیصلہ کرے گا ہمیں قبول ہوگا تو ہم نے بھی لکھ دیا تھا کہ
اسے کہو کہ ثبوت پختہ کرے
بات اب خدا تک جا پہنچی ہے

اور آپ کہہ رہے کہ نظر ثانی کا فیصلہ عوام کی عدالت میں لے آیا ہوں اب وہ فیصلہ کریں گے ۔کیا عدالتی نظام کو ختم کر دینا چاہیے ؟ کیا عدالتی نظام جو کہ پوری دنیا میں قائم ہے وہ سب غلط ہے ؟ جبکہ عدالتی نظام کی ابتدا خلفائے راشدین کے دور میں رکھی گئی تھی تاکہ عدل و انصاف قائم ہو سکے ۔اور معاشرہ امن و خوشحالی کا گہوارہ بن سکے ۔آپ کیوں بھلا چکے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کا زمانہ ایسا زریں عہد ہے کہ جو رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کے لیے روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے ۔مگر ۔۔افسوس! مسلسل اسلامی روایات سے روگردانی کر کے اسلامی ریاست کو بے ہنگم اور انتہا پسند معاشرہ بنا نے کی کوشش کی جا رہی ہے جوکہ لمحہ فکریہ ہے ۔آج آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا احتساب ذاتی عناد اور سازش کا شاخسانہ ہے اور عدالتی طریقہ کار منتخب وزیراعظم کے لیے مناسب نہیں ہے تو ہمیں یاد آگیا کہ
حضرت عمر ؓ اور حضرت ابی بن کعب ؓ کے درمیان کسی چیز کے متعلق آپس میں اختلاف تھا تو آپ ؓ نے فرمایا : آپ میرے اور اپنے درمیان ایک ثالث مقرر کر لیں ،چنانچہ دونوں نے حضرت زید بن ثابت ؓ کوثالث مقرر کر لیا ۔پھر دونوں ان کے پاس چل کر گئے اور کہا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کروا دیں تو حضرت ابی بن کعب ؓ نے اپنے بچھونے پر حضرت عمرؓ کے لیے جگہ چھوڑ دی اور کہا :اے امیرالمومنین ! یہاں آئیے ، حضرت عمرؓ بے شک امیر المومنین تھے مگر ایک سائل کی حیثیت سے آئے تھے توحضرت زید کے اس طرز عمل پر حضرت عمرؓ نے کہا :’’یہ پہلا ظلم ہے جو( تم نے اپنے فیصلے میں ظاہر کیا ہے )ایسی صورت میں میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا پسند کرونگا ۔‘‘

اس کے بعد آپ دونوں حضرت زید کے سامنے بیٹھ گئے ۔حضرت ابی بن کعبؓ نے اپنا دعوی بیان کیا مگر حضرت عمرؓ نے انکار کر دیا ۔قاعدہ کے مطابق حضرت ابی بن کعب ؓ پر گواہ اور حضرت عمرؓ پر قسم آتی تھی ۔مگر حضرت زید بن ثابتؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا : تم امیر المومنین کو قسم اٹھانے سے معاف رکھواور ان کے علاوہ میں کسی اور کے لیے ایسا مطالبہ ہر گز نہ کرتا ۔مگر حضرت عمرؓ نے ازخود قسم اٹھا لی ۔معاملہ حل ہو جانے کے بعد حضرت عمرؓ نے قسم کھائی کہ جب تک عمرزندہ ہے زیدکبھی عہدہ قضاء پر فائز نہیں ہوسکتا کیونکہ عمرؓ کے نزدیک تمام مسلمانوں کی عزت و آبرو برابر ہے ۔حضرت عمرؓ عدل و انصاف کرنے میں کسی سے رعایت نہ بخشتے تھے بلکہ قاضی کو پہلی تنبیہ یہ ہوتی کہ اگر تمہارے پاس میں بھی آجاؤں تو تم اس وقت تک اس منصب کے قابل نہیں ہو سکتے جب تک تمہارے نزدیک میں اورعام آدمی برابر نہیں ہوجاتے ۔شروع میں انتظامی اور عدالتی عہدے ایک ہی شخص کے ماتحت ہوتے تھے بعد ازا ں انصاف کا محکمہ الگ کر دیا گیا اور اس محکمہ کو قضاء کا محکمہ کہتے تھے اور یوں تمام ضلعوں میں عدالتیں قائم کی گئیں اور قاضی مقرر ہوئے اور نبی کریم ؐ نے جس کا آغاز کیا تھا اسی کام کو منظم کیا گیا مقدمات کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جاتا اور اگر کسی معاملے میں قرآن و سنت خاموش ہوں تو اجتہاد سے کام لیکر فیصلہ کیا جاتا اور یو ں دنیا پر واضح کیا گیا کہ عدل و انصاف کی معاشرے میں کتنی اہمیت ہے اور اس کے بغیر معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ نہیں بن سکتا ہے ۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں توحکومتی سطح پر عدل و انصاف کی فوری فراہمی نہ ہونے کیوجہ سے آج کمزور طبقہ مایوس ہے اور طا قتور نڈر ، ہٹ دھرم اور بے لگام ہو چکاہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل بحرانوں سے دوچار ہے ۔جو بہت زیادہ کمزور ہوتا ہے وہ انصاف نہ ملنے پر خود سوزی کی کوشش کرتا ہے ،طاقت ور دین، سیاست یا سوشل ورک کے نام پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور احتجاجی جلوس نکال کر دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ پریس کانفرنس میں حریفوں کو للکارتا ہے اور محاذ آرائی کو فروغ دیتا ہے جبکہ سفید پوش چپ چاپ مسیحا کا انتظار کرتا رہتا ہے الغرض بنیادی سطح پر ایک عجیب لاقانونیت ،انتشار اور افراتفری کا عالم ہے جوایک سوالیہ نشان ہے
 
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.