خصوصی طیارہ؟

 اگر وزیر خزانہ خصوصی طیارے کے ذریعے دو شنبہ کا سیر سپاٹا کر آئے، تو کیا ہوا؟ آخر وہ پاکستان کے قومی خزانے کے وزیرہیں، جہاں اربوں روپے کے ذخائر موجود ہیں، ان کی منظوری اور مرضی سے ہی تمام محکمہ جات اور اداروں کو رقم فراہم کی جاتی ہے، کھربوں روپے کے استعمال کے وہ مجاز ہیں، نگہبان ہیں، امین ہیں، اگر اتنے اختیارات کے ہوتے ہوئے وہ وزیراعظم کا خصوصی طیارہ استعمال نہیں کرسکتے ، تو آگ لگے ایسے اختیارات کو، انہیں اتنا تو استحقاق ملنا چاہیے۔ اسی طرح اگر وزیرخارجہ (جو کہ میاں نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے کسی اور کو یہ وزارت نصیب نہیں ہوئی تھی) ہونے کے ناطے خصوصی طیارے پر سعودی عرب وغیرہ کا چکر لگا آتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ ایک معاصر نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر خارجہ اپنے آبائی شہر میں تھے، جہاں خصوصی طیارے کی طلبی ہوئی، وہیں پر خصوصی ڈیسک قائم کیا گیا، وی آئی پی لاؤنج بنا، سکیورٹی کا اہتمام ہوا، ایف آئی اے حکام تعینات ہوئے۔ چونکہ موصوف کے ساتھ وفد بھی ہمرکاب تھا، ان کے لئے نور خان ائیر بیس پر یہی ماحول بنایا گیا، سب کچھ عارضی تعیناتیوں کے ذریعے ممکن بنایا گیا۔ ممکن ہے کل کلاں کسی اور وزیر کے بارے میں بھی یہ انکشاف سامنے آجائے کہ اس نے بھی اپنے فرائض منصبی نبھانے کے لئے خصوصی طیارے کا استعمال کیا ہے۔

اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں ایک ہی وقت میں بہت سے کام کرنا ہوتے ہیں (یہ ضروری نہیں کہ ان کا کوئی آؤٹ پُٹ بھی ہو)۔ان کا لمحہ لمحہ حد درجہ قیمتی ہوتا ہے۔ اس لئے اگر اہم وزراء خصوصی طیارہ وغیرہ استعمال کرلیتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم کا خصوصی طیارہ بھی عموماً فارغ ہی ہوتا ہے ، کیونکہ سُناہے انہوں نے سادگی کی مثال قائم کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ اب طیارہ فارغ ہی کھڑا رہے، یہ بھی قرینِ انصاف نہیں۔ تیسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم بھی شاید اپنے وزیروں پر قدغن نہیں لگاتے، کہ اگر انہیں ایسا موقعہ ملا ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں کس کی مجال تھی جو خصوصی طیارے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا، یا ان کی اجازت سے بھی اس کے استعمال کے بارے میں سوچ بھی سکتا۔ مگر اب وزیراعظم کو دیگر وزراء اپنا پرانا ساتھی ہی جانتے ہیں، بلکہ بعض تو انہیں اپنا جونیئر تصور کرتے ہیں، (جن وزراء نے خصوصی طیارہ استعمال کیا ہے، یہ دونوں بھی اسی فہرست میں شامل ہیں)۔ شاید وزیراعظم اتنی ہمت بھی نہیں رکھتے کہ انہیں خصوصی طیارے وغیرہ کے استعمال سے روک سکیں۔ حکومت میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے نجی طیارے خرید سکتے ہیں، مگر جب سرکاری خرچ پر عیاشی کے امکانات ہوں تو پھر اتنے بڑے خرچ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جس میں طیارے کے ساتھ ساتھ پٹرول بھی مفت یعنی سرکاری۔

پاکستان میں بدقسمتی سے صرف دعوے ہی رہ گئے ہیں، عمل کرنے والے موجود نہیں۔ ان دعووں میں ایک دعویٰ اخلاص کا بھی ہے، ہمارے سیاستدان اور حکمران اپنے اخلاص کے خود ہی داعی ہیں، قوم کو باور کرواتے ہیں کہ ہم ہی ہیں تو جمہوریت ہے، ہم سے ہی دیانتداری ہے، ہمارے دم سے ہی ترقی ہے، حتیٰ کہ ہم ہیں تو سب کچھ ہے، ہم نہیں ہونگے تو سب کچھ خطرے میں ہوگا۔ موجودہ حکمرانوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ کرپشن ایک دھیلے کی ثابت نہیں ہوسکتی، یہ الگ کہانی ہے کہ ہر محکمے اور ہر ادارے سے کرپشن کی خبریں روزانہ ہی سامنے آتی ہیں، رشوت ستانی اور کمیشن مافیا کا سلسلہ مستقل جاری ہے، معطلیاں، سکینڈل اور کرپشن کیسز وغیرہ روزانہ سامنے آتے رہتے ہیں، اور دعوے بھی روزانہ کی بنیاد پر جاری رہتے ہیں۔ بہت ہی بے دردی ، اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ لوٹ مار اور عیاشیاں ہورہی ہیں۔ ایک تصور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت اگر خود کو کرپشن سے پاک قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عیاشیوں اور بے پناہ مراعات کو کرپشن قرار ہی نہیں دیتے، ہر عیاشی کو اپنا استحقاق تصور کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال سابق وزیراعظم کی پیشیوں وغیرہ پر پروٹوکول کی کہانی ہے، چالیس گاڑیوں کے قافلے کے بغیر ان کی نقل وحرکت ممکن نہیں ہوتی، تاہم وزیر اطلاعات کی اطلاع کے مطابق مخالفین پروٹوکول اورسکیورٹی کے فرق سے ناآشنا ہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428592 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.