یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی ؟

گزشتہ روز ہی خبر آئی کہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے اعلی عدلیہ اور فوج کو احتساب کے دائرے میں لانے سے متعلق شق کو مجوزہ قومی احتساب کمیشن کے قیام کے لیے زیرِ غور مسود قانون سے نکالنے پر اتفاق کیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرے میں لانے سے متعلق شق کو پاکستان پیپلز پارٹی نے واپس لے لیا ہے اور حزب مخالف کی دیگر جماعتوں، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھی اعلی عدلیہ اور فوج کو احتساب کے دائرہ کار میں لانے کی مخالفت کی ہے۔قبل ازیں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مجوزہ قومی احتساب کمیشن کے دائر اختیار کو ججوں اور جرنیلوں تک وسیع کرنے کے لیے زیر غور مسود قانون میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ مجوزہ احتساب کے قانون کے دائرہ کار میں عدلیہ اور مسلح افواج کو نہیں لایا جائے گا اور تمام جماعتوں نے اس نکتہ پر اتفاق کر لیا ہے۔نئے احتساب کمیشن کے قیام کے بعد نیب میں تمام زیرِالتوا انکوائریاں اور مقدمات دیگر عدالتوں میں منتقل کر دیے جائیں گے۔ کرپشن کے مقدمات احتساب کمیشن یا نئی عدالتوں کو منتقل ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی شروع کی جانے والی انکوائریاں ختم کی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ 1999 میں بنایا جانے والا نیب کا قانون کافی سخت تھا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ احتساب کا ایسا قانون بنانا چاہتے ہیں جس میں انصاف بھی ہو اور احتساب بھی۔

پالیسی سازی کے اختیارات کے حوالے سے ملک میں سیاسی و سرکاری کشمکش واضح انداز میں جاری ہے اور ایک بڑا موضوع بنی ہوئی ہے۔ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات ''ٹیسٹنگ'' بنیادوں پر چلتے معلوم ہو رہے ہیں،دوسری طرف ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ اور پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے حوالے سے ہندوستان کے کردار کے امور ہیں،ساتھ ہی چین کے ساتھ ''سی پیک'' منصوبے کے خلاف عالمی سازشوں کے'' تانے بانے''۔لیکن ملک کو درپیش خطرات کے باوجود ملک میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا وہ ماحول نظر نہیں آ رہا جو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ناگزیر ہے۔

ملک میں جمہوریت دکھانے کا فیشن آتا ہے تو ہر سیاسی جماعت ،ہر گروپ اور ہر سطح کے لیڈر جمہوریت سے اپنی لگاوٹ ہی ظاہر نہیں کرتے بلکہ خاندانی نسبت بھی قائم کر لیتے ہیں۔سرکاری اور سیاسی موسم غیر موافق ہو تو جمہوریت کو ملک کے لیے سیکورٹی رسک کی حیثیت میں دیکھنا ملک سے وفاداری کا تقاضہ ٹہرتا ہے۔پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے کے اس اقدام سے پاکستان کے مستقبل کا منظر واضح ہوتا ہے کہ ملکی حاکمیت کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔پارلیمنٹ کی بالا دستی کی جدوجہد کی دعویدار تمام پارلیمانی سیاسی جماعتیں اس تاریخ ساز اقدام پر '' تمغہ حسن کارکردگی برائے ملٹر ی ڈیموکریسی'' کی حقدار ہو گئی ہیں۔

ان دنوں میڈیا پہ تکرار کی جا رہی ہے کہ نواز شریف محاذ آرائی ختم کریں،پارٹی بچائیں اور ملکی معاملات کو اسی طرح آگے چلنے اور چلانے دیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محاذ آرائی نواز شریف نے پیدا نہیں کی بلکہ انہوں نے عوامی اقتدار کی بالادستی کے لئے ''سٹینڈ'' لیا ہے۔عوامی پارلیمنٹ کی بالادستی کے مخالفین محاذ آرائی کی صورتحال کی ذمہ دار ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر نواز شریف کو نکال دیا جائے تو مسلم لیگ بھی باقی جماعتوں ،گروپوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول ہے۔ملک میں حکومت،اداروں،میڈیا اور سیاسی گروپوں پہ اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط کنٹرول کے تناظر میں یہ واضح ہے کہ ہماری پارلیمانی سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کی کوشش میں مطلوبہ کردار کی ادائیگی سے معذور ہیں۔بلاشبہ اس وقت ملک کو نواز شریف کی صورت ہی وہ واحد قیادت میسر ہے جو عوامی پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے مبہم ہی سہی ،لیکن عوامی امید کا محور ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614346 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More