یہ ڈو مور کیا بلا ہے - میرا ستائیس مارچ ٢٠٠٩ کا کالم

آج سے قریباً ڈیڑھ دوس سال پہلے میں نے “یہ ڈو مور کیا بلا ہے بھائی - پتہ نہیں امریکہ جانے“ کے نام سے ایک کالم لکھا تھا جس کو موجودہ حالات پر موضوع ہونے کے سبب دوبارہ شائع کر رہا ہوں

یہ ڈو مور کیا بلا ہے بھائی - پتہ نہیں امریکہ جانے
(M. Furqan Khan, Karachi)


آج بروز جمعہ ستائیس مارچ دو ہزار نو کو امریکی صدر باراک حسین اوباما نے نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جسے دوسرے الفاظ میں پہلے کہتا رہا ہے کہ Do More Do More Do More

“وہ دہشت گرد جنہوں نے11/9 کو پلان کیا اور سپورٹ کیا وہ پاکستان اور افغانستان میں موجود ہیں“ انہوں نے مزید کہا کہ “القائدہ اور دوسرے جنگجو شدت پسندوں نے11/9 کے بعد سے ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کیا ہے۔ اور یہ کہ کئی پاکستانی سولجرز اور پولیس کے لوگوں کو بھی قتل کیا ہے۔“ باراک اوباما نے محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام لے کر کہا کہ ان دہشت گردوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا۔ وہ دہشت گرد بلڈنگیں دھماکوں سے اڑا رہے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھگا رہے ہیں اور مملکت کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔ اور یہ کہ القائدہ اور اسکے شدت پسند حامی ایک ایسے کینسر کی طرح ہیں جو پاکستان کی ریاست کو اندر ہی اندر ختم کر رہا ہے۔“ (اتنا خیال تو ہمیں اپنا نہیں ہے جتنا امریکہ کو ہے واہ واہ بھی واہ!)

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی کانگریس ایک بل پاس کرے گی جس کے تحت ہر سال اور پانچ سال تک پاکستانی عوام کو ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر براہ راست (پاکستانی حکومت کو نہیں بلکہ اپنے منتخب اداروں یعنی این جی اوز کے زریعے) مدد فراہم کرنے کے لیے دیے جائیں گے اور انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کو بلینک چیک نہیں دے سکتے۔ پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ القائدہ اور اسکے شدت پسند حامیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہے۔ اور مزید ایک منتخب صدر فرماتے ہیں کہ چاہے حالات کچھ بھی ہوں ہم ایکشن لینگے جب کبھی ہمیں خفیہ زرائع سے پتہ چلا High Level Target کے بارے میں اور پھر مزید بھیک کے سکے ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکہ کہے گا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو کہ پاکستان کی مدد کریں“

تو میرے دوستوں، بھائیوں، سجنوں اور وغیرہ وغیرہ۔

آج (امریکی پالیسی میں جان اور وزن ڈالتے ہوئے ) خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں آج جمعہ کی نماز کے دوران دھماکہ ہوا اور آخری خبریں آنے تک ستر سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے تھے۔ تو امریکی پالیسی اپنے پہلے ہی دن اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ پاکستان از دی سینٹر آف ایول۔(Pakistan Is The Center And Cause Of Evil)

اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے زلت دے یہ تو ہو گئی ہمارے ایمان کی بات

بات وہیں آگئی جہاں سے چلی تھی۔ پرویز مشرف کا حشر خراب کیوں ہوا ہے۔ وقت کا ایسا شخص جس کے اشارے پر ملک نو دس سال بلا شرکت غیرے چلتا رہا۔ اور وہ طاقت ور ترین شخص جو مجبور کیا گیا - کس کام کے لیے ڈو مور (یعنی اور کرو، اور کرو) کے لیے اور جب اس شخص نے امریکہ اور مغرب کو آنکھیں دکھائیں کہ کیا ڈو مور ڈو مور، ہمیں ثبوت دو اور ہمیں معلومات فراہم کرو کاروائی ہم خود کرلیں گے اور جب مشرف نے امریکہ کو یہ بتانا شروع کیا کہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے تو امریکہ بہادر اور اسکے حواریوں نے اپنے پتے پھیلائے جس کے نتیجے میں ملک و قوم جیسے جاگ سی گئی اور پوری قوم، پوری سول سوسائٹی اور سارے (پرنٹ و الیکٹرونک) میڈیا کو اچانک پتہ چلا کہ مشرف تو ایک گالی ہے اس ملک کے لیے اور اس کو لٹکانے اور اس کو عبرت کا نشان بنانے کی باتیں چل پڑیں اور ان باتوں کی آڑ میں آٹا مشرف دور کے پچیس روپے سے تجاوز کرتے ہوئے چالیس اور چینی تیس روپے سے تجاوز کرتے ہوئے چھیالیس روپے کی ہو گئی ہے۔ بجلی، گیس کے ریٹ آسمانوں کو چھونے لگے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی ڈو مور پر امریکہ کو آنکھیں دکھانے والے کی آنکھیں اور طاقت کا امریکہ بہادر نے جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اور جو لوگ برسہا برس خاموش رہے اور اکیلے میں اپنے سائے سے بھی بات کرنے اور بیان دینے اور میڈیا کے سامنے آنے سے سے گھبراتے رہے (ملک میں یا ملک سے باہر) وہ اب شیروں کی طرح دھاڑتے پھر رہے ہیں تو میرے بھائی یہ طاقت اگر آپ کو عوام کی لگتی ہے تو لگتی رہے میں تو خدا لگتی کہوں گا کہ جس کی ڈور امریکہ کے ہاتھ میں آجاتی ہے وہ ناچنا شروع کر دیتا ہے اور جس کی ڈور امریکہ سائڈ میں رکھ دے اس کا کھیل رک جاتا ہے۔

تو آصف زرداری صاحب کیا عوام کی طاقت کے آگے مجبور ہیں نہیں میرے بھائی ہمارے محترم صدر کو ان زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے پاس حکمرانی کتنی محدود ہوتی ہے۔ اب اگر آصف علی زرداری صاحب اپنے تمام تر خلوص کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں تو بھی امریکی مفادات کے تحت ان کو ڈو مور کی ہدایات پہنچ چکی ہیں اور جس نئی پالیسی کا اعلان صدر اوباما نے کیا ہے کیا ان سے پاکستان کا کوئی اچھا مفاد وابستہ ہے۔ آصف علی زرداری صاحب کو گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا اور باہر سے اچھی طرح باخبر کر دیا گیا ہے اور انکو یہ باور کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے کہ واشنگٹن نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھنے لگا ہے۔ یعنی زرداری صاحب وہ کرنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں جن سے انکار کی صورت میں امریکہ وہ کام اپنے کسی اگلے منتخب پاکستانی حکمران سے لے لے گا چاہے وہ نواز شریف صاحب ہوں یا زرداری صاحب۔

اب زرداری صاحب بھی کیا کریں، ففٹی ایٹ ٹو بی سے شائد وہ چند دنوں میں دستبردار ہوجائیں اور امریکی اشاروں کو سمجھتے ہوئے وہ شرکت اقتدار کے لیے نواز شریف صاحب کا ساتھ قبول کرلیں وہی نواز شریف صاحب جنہوں نے ہاتھ لہرا لہرا کر اور نام لے لے کر کہا تھا “ کہ اب آصف زرداری صاحب سے کوئی بات نہیں ہوگی وہ ہمارے ساتھ ہاتھ کر چکے ہیں اور وہ ہمیں کئی مرتبہ دھوکہ دے چکے ہیں وغیرہ وغیرہ“ ویسے آصف علی زرداری صاحب کے لیے اچھا ہی ہوا کہ انہیں کھرے اور کھوٹے کا پتا چل گیا کہ کون بھائی بنانے میں کتنا تیز ہے اور زلیل و رسوا کرنے میں کتنی جلدی دکھاتا ہے۔ اور جو برے وقت میں ہی دوسرے کیمپ سجا بیٹھے ان پر بھروسہ تو زرداری صاحب کو اب بھی کرنا پڑے گا چاہے وہ پاکستان کے مفاد میں ہو یا نو ہو مگر امریکی مفادات کے ضرور حق میں ہوتا۔

آصف علی زرداری صاحب بھی کیا کریں، اگر اشارے ملنے لگے تو عدلیہ بھی این آر او کو دیکھنے پر مجبور ہو گی۔

ادھر سے بج نکلے تو بلوچستان میں جو امریکی مفادات کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے جس میں ہندوستان بھی پورے زور شور سے شرکت کے لیے بے چین ہے اس سے بھی نکلنے کے لیے آصف علی زرداری صاحب کو بڑی طاقت اور ہمت و عزم کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ ہماری دعائیں ہمارے منتخب صدر کے ساتھ ہیں۔

آج زرداری صاحب کو یقیناً لگ رہا ہو گا کہ صدر مملکت کی مسند کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہار ہے۔ قوم اسی پراعتماد آصف علی زرداری کو دیکھنا چاہتی ہے جیسے پراعتماد وہ انتخابات کے فوراً بعد نظر آتے تھے۔ کاش صدر مملکت تک ہماری یہ التجا پہنچ جائے کہ زرداری صاحب آپ کے گرد جو سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں ان سے تو آپ کو خود ہی نمٹنا ہو گا۔ آپ کی مدد کے لیے ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظم نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ “میری جیب میں بھی کچھ کھوٹے سکے ہیں“ انہوں نے کھوٹے سکے کن کن حضرات کو کہا تھا ان کا تو وہ اور ماہرین جانیں مگر آپ اپنے کھوٹے سکوں سے زرا بچ کر رہیے گا کیونکہ اتنی قیمت آپ شائد اپنے کھوٹے سکوں کو نہ دے سکیں جتنی کوئی اور دے جائے گا۔

اللہ ہمارے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر کی حفاظت فرمائے کیا پتہ کب کیسے اور کیوں امریکی مفادات کے آگے اللہ ہمیں وقت سے محفوظ فرمائے۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر رہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

اٹھنے نہیں ہیں ہاتھ اس دعا کے بعد۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495000 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.