مقبوضہ کشمیر اور دفعہ۳۷۰

نائب وزیراعلیٰ نرمل سنگھ نے کہاہے کہ''بی جے پی ریاست جموں وکشمیر سے متعلق دفعہ۳۷۰ کی منسوخی کے موقف پر اٹل اوراسے ختم کرنابی جے پی کااسٹینڈہے۔ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے جموں وکشمیر سے متعلق جوبیان دیا،میں ذاتی طورپراس کی مکمل تائیداورحمایت کرتاہوں۔بھاجپانے پچھلے انتخابات میں۴۴نشستیں حاصل کرنے کاہدف رکھاتھامگراسے صرف۲۵نشستیں ہی مل سکیں۔اگر مطلوبہ سیٹیں حاصل کی ہوتیں توصورتحال مختلف ہوتی تاہم ریاست میں چونکہ ہماراپی ڈی پی کے ساتھ اتحادہے،اس لئے ہم وقتی طورپر دفعہ۳۷۰جیسے معاملات پرخاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں''۔ادھرمقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہاہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکلز۳۵ارے اور ۳۷۰کوختم کرنے سے گریزکیاجائے۔ان دونوں آرٹیکلزسے مقبوضہ کشمیرکو خصوصی حیثیت حاصل ہوتی ہے اوران کے خاتمے کے دعوے مودی سرکار نے اقتدارپرتسلط جماتے ہی شروع کر دیئے تھے۔ محبوبہ نے نریندرمودی سے اپنی ملاقات میں انہیں یادکرایاکہ پیپلزڈیموکریٹک(پی ڈی پی)نے ریاست میں بی جے پی کے ساتھ مل کرمخلوط حکومت اسی شرط پربنائی تھی کہ مودی یہ ضمانت دیں کہ کشمیرکو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے دونوں آرٹیکلز حسبِ سابق بحال وبرقراررہیں گی اوران میں کسی قسم کاردّوبدل نہیں کیاجائے گا ۔بعض حلقے اب آرٹیکلز۳۵اے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کامنصوبہ بنا رہے ہیں جس کے تحت ریاستی اسمبلی ''ریاست کے مستقل باشندوں''کی تعریف کاحق حاصل ہے۔آرٹیکل۳۷۰میں بھی کشمیرکوخصوصی حیثیت دی گئی ہے۔

بھارت میں جب سے بی جے پی برسراقتدارآئی ہے وہ مقبوضہ کشمیرمیں تحریک آزادیٔ کوختم کرنے کیلئے مختلف منصوبوں پرعمل پیراہے۔بی جے پی کے ایجنڈے میں کشمیرکی خصوصی حیثیت کاخاتمہ بھی ہے۔بی جے پی ہرقیمت پرچاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مقبوضہ کشمیرمیں کوئی ہندووزیراعلیٰ بنادیا جائے۔ریاستی انتخابات کے موقع پریہ کوشش کی گئی جسے مفتی سعید مرحوم نے کامیاب نہیں ہونے دیاجس پرنریندرمودی سیخ پاہوگئے اور انہوں نے ریاست میں گورنرراج نافذکر دیا۔وہ سمجھتے تھے کہ اس دوران جوڑ توڑ اور سازشوں کے ذریعے سے اپنامنصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچالیں گے لیکن''اے بسا آرزوکہ خاک شدہ''!گورنرراج کی مدت ختم ہونے کے بعدمودی کومفتی سعیدکووزیراعلیٰ کے طورپرطوہاً کرہاًقبول کرناپڑا۔ان کےانتقال کے بعدمودی اپنی سازش کامیاب بنانے کی تگ ودومیں مصروف رہے لیکن انہیں ناکامی کامنہ دیکھناپڑا،اب وہ ایجنڈے کے دوسرے حصے پر عمل پیراہیں جس کے تحت وہ کشمیرمیں مسلمان آبادی کی اکثریت ختم کرکے اسے اقلیت میں تبدیل کرناچاہتے ہیں۔اس مقصدکیلئے باہرسے غیر ریاستی باشندوں کوریاست میں آبادکیاجارہا ہے۔

مبصرین کاکہناہے کہ جب نریندرمودی اسرائیل کے دورے پرگئے تھے غالباًاس موقع پرپٹی صہیونی اکابرنے انہیں پڑھائی جنہوں نے فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ تسلط جماکران علاقوں میں یہودی بستیاں بساناشروع کیں جہاں اس وقت فلسطینی باشندے آبادہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس کے خلاف قرارداد منظورکی جاچکی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کے باعث یہودی بستیوں میں آبادکاری کاکام جاری رکھا ہواہے۔مقبوضہ کشمیرمیں بھی پورے بھارت سے ہندوؤں کولا کر آباد کیا جا رہا ہے۔ہندوؤں کیلئے وادیٔ میں سرکاری کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔واضح رہے کہ ریاست میں کوئی غیر ریاستی باشندہ جائیدادنہیں خریدسکتا چناچہ ہندوؤں کیلئے حکومت خودکالونیاں بناکرانہیں آبادکر رہی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ان کالونیوں میں بھی سابق بھارتی فوجی آبادکیے جا رہے ہیں جس کابڑامقصدریاستی باشندوں کونئے آبادکارفوجیوں سے خوفزدہ رکھنا ہے۔

کشمیرکوخصوصی حیثیت دینے والے دونوں آرٹیکلزآئین سے نکالنے کاکام بھی اس مقصدکے تحت کیاجارہاہے۔مودی اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی اس عزم کااظہارکرتے رہے ہیں کہ وہ اقتدارمیں آکرکشمیرکی خصوصی اہمیت ختم کردیں گے۔کشمیرمیں تحریک حریت اب جس مقام پرپہنچ چکی ہے اسے ناجائزقابض آٹھ لاکھ بھارتی فوج اپنے تمامترظلم وجبر کے باوجودسمجھتے ہیں،ناکام ہوگئی ہے توبی جے پی نے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ایجنڈے پرکام شروع کردیا جس کاواضح طورپریہ مطلب ہے کہ پورے ملک سے ہندوؤں کو کشمیرمیں آبادکرکے مسلمان آبادی کواقلیت میں تبدیل کردی جائے۔بھارت کی ہرحکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ کشمیراس کااٹوٹ انگ ہے مگریہ کہتے ہوئے بھول جاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر خودپنڈت نہرواقوام متحدہ میں لیکرگئے تھے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب قبائلی مجاہدین کشمیری علاقے بزورشمشیرفتح کرتے ہوئے سرینگرکی جانب پیش قدمی کررہے تھے اوراگرجنگ بندی نہ ہوتی توایک دو روزہی میں اس پربھی قبضے کاامکان پیداہوگیاتھا۔

پنڈت نہرونے اقوام متحدہ میں وعدہ کیاکہ کشمیرمیں رائے شماری کرائی جائے گی،ان کے اس وعدے پراعتبارکرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیرمیں جنگ بندی کرا دی۔کشمیرکاجوحصہ آج کل جموں وکشمیرکی آزاد حکومت کے تحت ہے،یہ اسی جنگ میں آزادکرایاگیاتھا۔بھارتی حکومت نے جنگ بندی پرعملدرآمدکے آغازپرہی اپنی افواج بھارتی فضائیہ کے طیاروں کے ذریعے سے پہنچاناشروع کردی تھیں اورجب بھارت نے اپنی فوجی پوزیشن مستحکم کر لی تونہرونے ریاست میں رائے شماری کاوعدہ نت نئی تاویلات میں الجھاکررکھ دیااوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اقوام عالم کے سامنے عالمی ادارے کے روبروکیاگیاوعدہ فراموش کردیابلکہ جموں وکشمیرکااپناجزولاینفک قرار دینے کی رٹ لگانا شروع کردی۔

اس وقت دنیاامن کوترس رہی ہے۔ جہاں جہاں بھی فلیش پوائنٹس ہیں انہیں ختم کرنے کی سبیل تلاش کر رہی ہے اورکشمیرکاعلاقہ اس حوالے سے غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین تنازع کی اصل وجہ ہے۔ پاکستان کی طرف سے ہردور میں کوشش کی گئی کہ یہ تنازع مذاکرات کے باوجودیہ مسئلہ تاحال حل طلب ہی چلاآرہاہے، اب بھارت مذاکرات کیلئے بھی تیارنہیں اور کشمیریوں کی تحریک آزادیٔ کچلنے میں صریح ناکامی کے بعداب اس نے آخری حربے کے طورپریہ فیصلہ کرلیاہے کہ کشمیرکی خصوصی اہمیت ختم کردی جائے اورآبادی کاتناسب بدل کرہندوؤں کو مسلمانوں کی بجائے اکثریت قراردے دیا جائے۔سابق فوجیوں کی آبادکاری کاواضح مقصدیہی ہے کہ پوری ریاست کو فوجی چھاؤنی کی شکل دے دی جائے اورکشمیرکی تحریک آزادیٔ بزورقوت دبا دی جائے۔

مودی اس سے پہلے اترپردیش(یوپی)جیسی ریاست میں میں ایک انتہاء پسندہندو جوگی کووزیراعلیٰ بنواچکاہے جومسلمانوں کوانتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اورماضی میں مودی ہی کی طرح انہیں ملک چھوڑنے یاہندودھرم اختیار کرنے کی دہمکیاں بھی دیتارہاہے۔اب وہ کشمیرمیں بھی شب وروز ہندو راج کی راہیں ہموارکرنے کی ناکام کوششوں میں لگاہوا ہے ۔منصوبہ یہ ہے کہ ایک این جی اوکے ذریعے سپریم کورٹ میں خصوصی اہمیت ختم کرانے کی درخواست دائرکی جائے گی اوراس کی پذیرائی کے بعدریاست میں غیرکشمیریوں کو مستقل طورپرآبادکردیاجائے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت سلامتی کونسل کی رکنیت کا امیدواربھی ہے اورامریکابہادر کی پشت پناہی پراسے حاصل کرنے کیلئے کوشاں بھی ہے لیکن بھارت یہ بھول رہا ہے کہ امریکابہادربھارت سے اس کی جوگراں قیمت وصول کرناچاہتاہے،اس سے بھارت کااپناوجود صرف تاریخ کی کتابوں میں پڑھنے کوملے گا۔امریکا کی پچھلی نصف صدی کی تاریخ پرنظردوڑائیں تویہ واضح نظرآئے گاکہ امریکانے ہمیشہ اپنے مقاصدکے حصول کے بعداپنے دوستوں کی قربانی دینے میں ذرابھی تاخیرنہیں کی۔ امریکا اس خطے میں اپنے اقتدارکے سورج کوغروب ہوتادیکھ کراب بھارت کواستعمال کرنے کافیصلہ کر چکاہے چاہے اس کیلئے بھارت کئی حصوں میں تقسیم ہی کیوں نہ ہوجائے۔ان حالات میں پاکستان کوخطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظرروس اور چین کے علاوہ اپنے دوسرے پڑوسیوں کے ساتھ اپنے اتحادکی کوششوں کوتیز تر کرنے کے علاوہ دیگر اقوام عالم سے رابطہ کرکے انہیں دنیاکے عالمی امن کے لئے متحرک کرنے میں اپناکرداراداکرے ۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 317002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.