امریکی دھمکی کے خلاف قومی یکجہتی کے ثمرات اور تقاضے

قاضی رفیق عالم
گزشتہ ماہ امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کوکھلی دھمکیاں دیں اورپاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف خود کارروائی کرنے اور ان کی پناہ گاہیں ختم کرنے کاعندیہ ظاہر کیا اورکہاکہ ہم پاکستان کواربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن پاکستان نے دہشت گردوں کی مدد کرنانہ چھوڑی۔ٹرمپ نے پاکستان کی فوجی اوردوسری امدادکم کرنے اورپاکستان کانان نیٹواتحادی کادرجہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دی اور افغانستان میں مزید 3400 فوجی بھیجنے کابھی اعلان کیا۔امریکی صدرٹرمپ کی اس مجنونانہ دھمکی کاآرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے فوری 'بروقت اورایک آزاد وخودمختار واحدمسلم ایٹمی طاقت کے شایان شان جواب دیا۔انہوں نے امریکی امداد کوپاؤں کی ٹھوکر پررکھتے ہوئے کہاکہ ہمیں آپ کی کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں اگرہم نے کچھ نہیں کیاتو پھرکسی نے بھی کچھ نہیں کیا'اس لیے ہمیں امدادکی نہیں'ہماری قربانیوں پراعتماد کی ضرورت ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے دنیاکی کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ قربانیاں دیں۔اس جنگ میں ہمارے 73ہزار شہری شہید ہوئے جن میں 10 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ اس جنگ میں ہماری معیشت کو80ارب ڈالرکانقصان اٹھاناپڑا۔پاکستان نے ٹی ٹی پی اورجماع? الاحرار ایسے کئی دہشت گردگروپوں سے پاکستان کی سرزمین کو صاف کرتے ہوئے اپنے کئی قبائلی علاقے کھودئیے۔ان علاقوں کو دہشت گردوں سے کلیئر کروانے کے لیے لاکھوں قبائلیوں کو دربدر ہوناپڑاجبکہ دوسری طرف امریکہ جس امداد کے طعنے دے رہاہے'وہ توسرے سے کوئی امداد تھی ہی نہیں'وہ توان سروسز کامعاوضہ تھا جو پاکستان امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاجسٹک سپورٹ کے طورپر اپنے زمینی وفضائی راستے مہیاکرکے دیتارہا(اگرچہ یہ معاوضہ بھی مونگ پھلی کے برابر ہی تھااوروہ بھی پوری طرح نہیں دیاگیا جبکہ کروڑوں ڈالرابھی بھی واجب الادا ہیں۔حتّٰی کہ ہمیں نقدرقم دے کر بھی F-16کے پرزے تک نہیں دیئے جارہے۔اس سب کے باوجودبھی اگرکوئی کہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کیا تویہ گویا پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں۔آرمی چیف نے جب جواب میں امریکہ کوپاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کھری کھری سنائیں اور صاف کہا کہ پاکستان نے بہت ڈومورکرلیا'اب ہماری نہیں 'ڈومور کی باری آپ کی ہے تو اس جرأت کایہ نتیجہ نکلا کہ امریکی حکام اگلے دن ہی ٹرمپ کے بیان کی صفائیاں پیش کرنے لگے اور معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے لگے۔ پاکستان میں امریکی سفیر کویہ کہناپڑا کہ ٹرمپ نے اسلام آباد پرالزام نہیں لگایا۔ہم پاکستان کی قربانیاں تسلیم کرتے ہیں'پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرناچاہتے ہیں۔یوں امریکہ کویہ آئینہ نظرآگیا کہ جب ڈیڑھ لاکھ نیٹو فوج افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکی' اب محض10,8ہزار امریکی فوجیوں سے ایٹمی پاکستان کو کیسے ڈرایاجاسکتاہے۔

آرمی چیف کے بیان ہی سے حوصلہ پاکر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی جرأت ہوئی اورانہوں نے ہدایت کردی کہ کسی بھی امریکی ذمہ دار کے ساتھ اس کے صرف ہم منصب پاکستانی سے ملاقات ہوگی۔انہوں نےF-16 کے متبادل جہازاور دوسرااسلحہ بھی روس چین ودیگرممالک سے لینے کی دھمکی دی۔ چنددن بعداﷲ بھلاکرے ہمارے سیاسی زعماء کا' انہوں نے بھی پہلی بار ملک کی توہین کے خلاف قومی یکجہتی کا اظہار کیااور قومی اسمبلی و سینیٹ سے متفقہ قرارداد منظورکی کہ پاکستان نیٹوسپلائی بند کرے اور پاکستان کے راستے نیٹو کی فضائی ٹریفک بھی بند کر دی جائے۔ پوری قوم جب یوں ایک پیج پرکھڑی ہوئی توہمارے خانِ خاقان جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے امریکہ پہنچے تو امریکی نائب صدر مائیک پنس نے ملاقات میں پاکستان سے خیرسگالی کے امورکے علاوہ ڈومور کاکوئی مطالبہ کیانہ کوئی ذکر۔اسی طرح ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی پاکستان کے حوالے سے کوئی بات نہ کی۔قومی یکجہتی کی اسی قوت سے فائدہ اٹھاکر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جوپہلے گھر کی صفائی کی باتیں کرتے ہوئے گھر سے نکلے تھے' اب انہوں نے بھی یواین سے اپنے خطاب میں اس موضوع پر کوئی بات نہ کی بلکہ کشمیر کے مسئلے پرپاکستان کامؤقف ڈٹ کرپیش کیااور بھارت کی کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورپاکستان وبلوچستان میں اس کی دہشت گردیوں کو بھی خوب بے نقاب کیا۔ یہ سب امریکہ کو ایک بار''نہ'' کرنے کے ثمرات ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکمران شروع سے ہی یہ باوقار انداز اختیار کرتے توآج امریکہ اتنا نہ بگڑتا کہ ایک ایٹمی طاقت کو یوں کھلی دھمکیاں دینے پر اترآتا۔ ہم جتنا امریکہ کی ڈومور مانتے گئے'وہ اتناہی ہمارے سرپرچڑھتاگیا۔ تھوڑی سی ہم نے ''نہ'' کی اورامریکہ کے آگے سرجھکانے کی بجائے صرف اﷲ کی بارگاہ میں ہی سرجھکاناکافی سمجھا توسارامنظر ہی یکسر بدلناشروع ہوگیا۔سچ کہاتھااقبال نے:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اﷲ سے دعاہے کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو اب اس نئی پالیسی پر استقامت سے قائم رہنے کی توفیق دے۔حکومت کو چاہئے کہ اب وہ محسن ملت پروفیسرحافظ محمدسعید اور ان کے رفقاء کوبھی فی الفور رہاکرکے اپنی خودمختاری کا ثبوت دے کیونکہ انہیں بھی بھارتی و امریکی دباؤ پر نظربندکیاگیاہے۔ان کاجرم اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ کشمیر پربھارتی مظالم کے خلاف ڈٹ کر آواز بلند کرتے ہیں۔پاکستان میں ان کے خلاف کوئی مقدمہ بھی نہیں۔انہیں نظربند رکھ کر ہم اپنے دشمن بھارت کوسچااور پاکستان کو رسوا کررہے ہیں جو کسی طرح بھی ملک کی خدمت نہیں۔یہ ملک کو بھار ت کاغلام بنانے والی بات ہے۔ہرملک اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے چاہے وہ قصور وار ہی کیوں نہ ہوں' ہرحدتک جاتا ہے۔ بھارت اپنے اقبالی مجرم اور دہشت گرد کلبھوشن کو بچانے کے لیے پوری دنیا میں ہرحدتک جانے کے لیے سرگرم ہے توہم اپنے معززشہری جن کے خلاف نہ کوئی مقدمہ ہے 'نہ ثبوت 'ان کو آخر ہم امریکی و بھارتی دباؤ پر کیوں نظر بندرکھیں۔۔۔۔۔۔حکومت کو چاہیے کہ اب اس معاملے میں بھی اپنی آزادانہ پالیسی کاثبوت دے۔ اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے میں ہی قوموں کی عزت'بقا ء اور کامیابی ہے 'ورنہ دوسرا راستہ صرف دلدل ہے جس میں جتنا آگے بڑھیں گے'اتناہی اس میں دھنستے چلے جائیں گے۔
اﷲ ہم سب کو سوچنے' سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.