ملکی ادارے قابل محبت ہیں قابل نفرت نہیں

ہماری ملکی سیاست گزشتہ ادوار کی طرح موجودہ دور میں بھی سیاسی رسسہ کشی کا شکار نظر آتی ہے ہر سیاسی پارٹی کے سیاسی لوگ ایک دوسرے پر غیر سیاسی اورغیر جمہوری حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ایک دوسرے کو غیر پارلیمانی الفاظ سے بھرپور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ملک کے معزز اداروں کو بھی اپنی غلیظ اور گندی سیاسی سوچ کی بھینٹ چڑھا کر ان پر بھی تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں جس سے یہ پاکستان کی عزت کو خاک میں ملا کر رکھ دیتے ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کیلئے معزز اداروں کو بھر پور استعمال کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ ملک کے نہایت ہی معزز ادارے جن میں دفاعی ادارے اور ہماری عدلیہ بھی شامل ہے کی بھی بری طرح تذلیل کرنا یہ سیاسی لوگ اپنا فرض عیں سمجھتے ہیں۔کسی نے ان اداروں کا نام ایمپا ئر رکھ کر اور کسی نے ان کو’’ ان دیکھی طاقت ‘‘کے نام سے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ان دنوں میں حلقہ NA120میں ہونے والے حالیہ انتخاب میں ایسا ہی ہوتا ہوا معلوم ہوتاہے کسی نے ان اداروں کی حمایت میں اور کسی نے ان اداروں کی مخالفت میں ان کی عزت و تکریم کا جنازہ نکا لا۔جناب محترم عمران خاں صا حب نے فرمایا کہ عوام پاناما کیس کے فیصلے پر سپر یم کے حق میں ووٹ دیں اور یہ ثابت کریں کہ سپریم کورٹ نے درست فیصلہ دیا ہے عوام اس کے ساتھ ہیں ا ور اسکی بھر پور تائید کرتی ہے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ ن نے اس بات پر ووٹ لینے کی کوشش کی کہ منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے پیچھے کچھ نا دیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے اور نوازشریف کونا اہل کروانے میں ان قوتوں نے کام کیا اور نا جائز نا اہل کیا اور اب عوام ان اداروں کے خلاف ووٹ دے کر یہ ثابت کریں کہ عوام اس فیصلہ کو قبول نہیں کرتے اس فیصلہ پر عوام ان اداروں کے ساتھ نہیں ہیں اور عوام اس کی بھر پور تر دید کرتے ہیں۔ اور یہ فیصلہ حق و صداقت پر مبنی نہیں ہے۔ بھر حال بات کیسے بھی کی جائے ۔انداز مختلف ہیں لیکن مقصد ایک ہی ہے۔چا ہے یہ لوگ پاکستان کی مخالف بیرونی قوتوں کے آلہ کارکے طور پہ کام کر رہے ہیں یا پاکستان کے اندر موجود ایسی قوتوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں جو پاکستان کو ایک مضبوط اور ترقی یافتہ ملک نہیں دیکھ سکتے۔ پوری الیکشن مہم نے کہیں بھی عوامی مفادات کی بات نہیں ہوئی کسی نے نہ تو ترقیاتی کام کرانے کی مد میں ووٹ مانگا اور نہ ہی کسی نے عوامی مفادات اور ترقیاتی کام نہ ہونے کی نشان دہی کی ۔اگر کسی نے کہی بھی ہے تو ڈھکے چھپے انداز میں کہی ہو گی لیکن اس کو ایشو بنا کر ووٹ لینے پر زور نہیں دیا گیا۔ہاں البتہ دونوں بڑی پا رٹیاں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن ایک بات پر متفق نظر آئیں کہ یہ الیکشن نہیں بلکہ پانا ما لیکس پر ریفرنڈم ہے۔اور یہ بات ہر پاکستانی کے لئے بہت توجہ طلب ہے ملکی اداروں کو اس طرح کریش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے چاہے وہ پارلیمنٹ ہو یا ملک کے دیگر ادارے ۔ یہ نہ تو ملک کے مفاد میں ہے او ر نہ ایسا کرنے والوں کے مفاد میں ہے۔اداروں کی تذلیل ہونا کسی صورت میں بھی کسی کے حق میں نہیں ہے۔ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر ان اداروں کے کچھ لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکنے والی آگ ٹھنڈی ہو رہی ہو لیکن آنے والے وقت میں سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جیسا کہ ذوالقار علی بھٹو کے فیصلوں پر عدالتیں یا نوے کی دہائی میں ہونے والی سیاست پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے حالیہ بیانات ۔لیکن اس رسسہ کشی میں جو نقصانات اس ملک نے اور قوم نے اٹھائے ہیں اس کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں شائد نہ ملے۔ان لوگوں اور اداروں کی وجہ سے ہی گزشتہ کئی دہائیو ں سے ہمارے ملک و قوم کی ترقی اس شرع سے نہیں بڑھی جیسے ہونی چاہیے تھی۔آج بھی ملک کے اندر عوام اور اداروں کے درمیان نفرت پھیلانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے جو کہ ملک و قوم کے مفاد میں ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ملک کے صاحب اقتدار لوگ چاہے وہ اس وقت ہیں یا سابقہ دور میں رہ چکے ہیں انہوں نے اپنی جا ئیدادیں اور اپنی اولاد کو بیرونی ممالک میں آباد کر لیا ہے جس یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک ان لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں ہے اس ملک میں صرف ان لوگوں کی محکوم عوام ہی رہ سکتی ہے ۔آج کے دور کی اس محکوم سمجھے جانی والی عوام کو اپنے آپ کو اس محکومی کی زنجیروں سے آزاد کرنے کا آ ج بھی موقع ہے ۔عوام کو اپنے ذہن اور دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے اپنی آنے والی نسلوں کو ان بادشاہوں اور شہنشاہوں کی آنے والی نسلوں کی محکومیت سے بچانے کی ضرورت ہے ہمیں گزشتہ سات دہائیوں کو سمجھنے اور ان پر سوچنے کی ضرورت ہے ان سات دہا ئیوں پر توجہ کرنے سے ہمیں پتہ چل سکتا ہے کہ کس ادارے اور کس سیا سی پارٹی نے ملک اورقوم کو کامیابی اور کامرانی کی طرف لے کر گئی ہے اور کون سی پارٹی نے اس ملک کو تباہی اور بربادی تک پہچا یا ہے ۔اس وقت کون سے لوگ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے محکوم بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ہمیں اس کے لئے کسی دوسرے کی سوچ اور عمل پر چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔عوام کے پاس اختیار ہے اور موقع بھی ۔اداروں چاہیے کوئی بھی ہو ہمارے ادارے ہیں ان کی عزت ہمیں عزیز ہونی چاہیے۔اچھے اور برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ہر ادارے میں ہوتے ہیں ان کی نشان دہی ہونی ضروری ہے لیکن ان لوگوں کی وجہ سے کسی بھی ادارے کے خلاف نفرت پھیلانا کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ان اداروں کے مخلص لوگوں نے اپنے ادارے اور ملک کی خا طر بہت قربا نیاں دی ہوئی ہیں اور بھی دے رہے ہیں ۔ہمیں افراد کی بجا ئے اداروں عزیز رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان زندہ باد

Bakhat Bedar Gilani
About the Author: Bakhat Bedar Gilani Read More Articles by Bakhat Bedar Gilani: 6 Articles with 4184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.