خود مختار فلسطین اور طلبہ تحریک

یہودیوں کے لیے قومی وطن تحریک کے راہنما ؤں میں ڈاکٹر وائز مین ایک اہم نام ہے جنہوں نے برطانوی لارڈ بالفور نے اس وقت اسرائیلی ریاست کے قیام کا حکم نامہ حاصل کیا ،جب فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی 5 فیصد نہ تھی،جب کہ اس موقع پر لارڈ بالفور نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ "ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صہیونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں،تاریخ میں اسے " اعلان بالفور "کے نام سے یاد کیا جاتا ہےاور یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزات (Documents of British Policy) کی جلد دوم میں ثبت ہیں۔جنگ عظیم دوم سے قبل اور بعد یہودی پوری دنیا سے ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہوئے اور عالمی طاغوت نے یہودی آبادی کاری کے ساتھ ساتھ ان کی مسلح تنظیمیں قائم کرکے جبر ،ظلم و تشدد کا راستہ اپنایا ،ارض مقدس کو یہودیوں کا "قومی وطن” کی بجائے "قومی ریاست” کا درجہ دینے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ،جس کے نتیجہ میں 1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا ،نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس کے خلاف31 ووٹ تھے اور دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا ،اس تقسیم کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو، اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا گیا،اور یوں 14 مئی 1948 کو فلسطین کے سینہ پر ایک ناجائز ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا ،تب سے اب تک عالمی سازشوں اور صہیونی مکاریوں کی وجہ سے اسرائیل مضبوط سے مضبوط تر ،اور عرب اور مسلم دنیا تقسیم در تقسیم کا شکار ہو کر کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے ،اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کہیں غداران ملت نے مسئلہ فلسطین کو نقصان پہنچایا تو کبھی آپس کے افتراق و انتشار نے فلسطین کاز کو نقصان پہنچایا ،شیخ احمد یاسین شہید نے حماس اور انتفاضہ تحریک کے ذریعہ جدوجہد آزادی میں فلسطین میں کلیدی کردار ادا کیا جب کہ فلسطینی جامعات کے طلباء نے اس تحریک میں مؤثر اور فیصلہ کن کردار ادا کرکے مسئلہ فلسطین کا عالمی فورم پر اجاگر کیا ،بلاشبہ انتفاضہ الاقصیٰ کے 17 سال کے بعد فلسطینی طلباء کی جانب سے ایک اور مضبوط قدم سامنے آیا ہےکہ دس لاکھ فلسطینی طلبہ نے خود مختار فلسطین کے لئے ایک مہم شروع کرکے اقوام متحدہ کے نام خط بھجوادیا ہے ۔ غیر ملکی میڈیاکے مطابقبتایا گیا ہے کہ آزادی فلسطین کے لیے 10 لاکھ فلسطینی طلبہ کی جانب سے تحریر کردہ ایک خط اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس کو ارسال کرنے کے لیے صدر محمود عباس کے سپرد کیا گیا ۔ فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی "وفا "کےمطابق ،صدر عباس نے اس خط کو قبول کر لیا ہے۔ صدر عباس نے کہا کہ یہ خط ہماری عوام کی آزادی و خود مختاری کی خواہش کا علمبردار ہے ۔یاد رہے کہ فلسطین کی وزارت تعلیم نے گزشتہ مہینے آزادی فلسطین کی کوششو ں کے تناظر میں اس مہم کے آغاز کی اجازت دی تھی ۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مندوب ریاض منصور نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ 20 ستمبر کو یکجا ہونے والے جنرل اسمبلی کے عام اجلاس میں منظوری کیلیے 16 قراردادیں تیار کی ہیں۔ سیکریٹری جنرل گوٹریس نے بھی فلسطینی وزیراعظم رامی ال حمد اللہ سے گزشتہ مہینے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ بھی دو ریاستی نظریئے کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ باہمی افہام و تفہیم سے حل ہو جائے۔ یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کی واپسی کے حق کی نا منظوری کے باعث 2014 سےالتوا کا شکار ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہونے والاموجودہ اجلاس مسلم ممالک کے حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ ایک طرف اقوام عالم نے روہنگیا مظلوم مسلمانوں کی داد رسی اور دوبارہ میانمار میں ان کی پہچان کے ساتھ آباد کاری کے حوالے سےانصاف کے تقاضوں کو پورا کروانا ہے تو وہیں مسئلہ فلسطین اورقبلہ اول کے تحفظ کے حوالے سے غیر معمولی فیصلوں اور عملدرآمد کی ذمہ داری بھی آن پڑی ہے ،جس سے عہدہ برآہ ہونا بہر صورت اقوام عالم اور مسلم دنیا کو ہونا پڑے گا۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 251441 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More