بلیو وہیل ۔۔۔ موت کا خوفناک کھیل؟

بلیو وہیل چیلنج ایک ایسا کھیل ہے جس کی جیت اس کے کھیلنے والے کو موت سے ہمکنار کردیتی ہے، 50چیلنجز پر مشتمل گیم کا آخری چیلنج خودکشی ہے۔ بلیو وہیل گیم کا آغاز 2015ء میں روس سے ہوا اور اب دنیا کے کئی ممالک تک پہنچ چکا ہے اور 130 افراد اسے کھیلنے کے بعد خودکشی کر چکے ہیں۔

اس گیم کو بنانے والے 22سالہ نفسیات کے طالب علم فلپس بڈیکن کو مئی میں گرفتار کیا گیا اور یہ گیم بنانے پر اسے تین سال قید کی سزا ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود یہ موت کا کھیل ابھی بھی جاری ہے اور لوگوں کی جان لے رہا ہے۔
 

image


فلپس بڈیکن کا کہنا ہے کہ ’’میرا اس گیم کو بنانے کا مقصد معاشرے سے نکمے اور ناکارہ لوگوں کو ختم کرنا تھا‘‘، اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ اسے اس بات کا اختیار کس نے دیا۔

خودکشی مایوسی اور ناامیدی کی علامت ہے، معاشرے میں امید کی روشنی بڑھانے کے بجائے ناامیدی کا اندھیرا پھیلانے کی کوشش کو کسی بھی سطح پر پذیرائی نہیں مل سکتی۔

بلیو وہیل گیم کا خوف پھیلتا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر اس سے دور رہنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اس گیم کی وجہ سے بھارت میں 5 افراد موت کو گلے لگا چکے ہیں، اس گیم سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی پوری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی ہر حرکات پر نظر رکھیں اور انہیں اس بارے میں آگاہ کریں ۔
 

image

بلیو وہیل چیلنج نے دنیا میں خوف پھیلا یا ہوا ہے، یہ بہت خطرناک گیم ہے، جس کے کھیلنے والوں کو مختلف ٹاسک دیئے جاتے ہیں، مثال کے طور پر صبح چار بجے سوکر اُٹھنا، ڈراؤنی فلمیں دیکھنا، اونچی عمارتوں پر چڑھنا اس طرح کے مختلف خطرناک ٹاسک کھیلنے والوں کو دیئے جاتے ہیں ۔

ان ٹاسکس کو پورا کرنا ضروری ہوتا تھا، اس کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ اس گیم کا حصہ بننے کے بعد اسے ختم کرنا مشکل ہوتا ہے، آخری ٹاسک میں خودکشی ہے، جسے پورا کرنا ہی کھیل کا خاتمہ ہے اور لوگ اسے انجام دینے کیلئے موت کو منہ لگا لیتے ہیں۔

یہ گیم دراصل وائرس کے طورپر کام کرتا ہے،اس گیم کی با قاعدہ کوئی ایپلیکیشن نہیں ہے، اس کو شروع کرتے ہی وائرس کھیلنے والوں کی ڈیوائس میں منتقل ہوجاتا ہے اور کھلاڑی کی تمام معلومات حاصل کر کے اسی انفارمیشن کی بنیاد پر آپریٹر مختلف ٹاسک پورا کرنے کو کہتا ہے۔

روس سے شروع ہونے والے گیم نے ان دنوں بھارت میں کافی خوف پھیلایا ہوا ہے۔

سائبر سیکورٹی ایکسپرٹ فاروق خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک انٹرنیٹ گیم ہے، جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں پنجے گاڑ رہا ہے جس کی وجہ سے خوف وہراس پھیل گیا ہے،اسے ہم نے خودکشی گیم کا نام دیا ہے۔
 

image

یہ کھیل نوجوانوں کو نفسیاتی، سماجی اور دیگر طریقوں سے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے، بچوں پر اس کا حملہ بڑی جلدی مؤثر ہوتا ہے، کیونکہ بچے پیسوں کے لالچ میں یا کسی اور دباؤ کے نتیجے میں ان ہدایات پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔

یہ گیم جس نے ایجاد کیا تھا اسے تو روس میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور اسے سزا بھی ہو گئی ہے، مگر اسے اب بھی مختلف افراد آپریٹ کر رہے ہیں۔

یہ گیم مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے لنک کے ذریعے لوگوں کو بھیجا جارہا اور پھر اس کے کھیلنے والے کے مصیبت کے دن شروع ہوجاتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی انٹرنیٹ کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس گیم یا ایسی کسی بھی غلط سمت میں انہیں جانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔

ہماری ویب والدین کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ “ وہ بچوں کے قریب آئیں٬ انہیں وقت دیں اور ان سے دوستی قائم کریں تاکہ دوری ختم ہوسکے اور وہ اپنی ہر بات والدین سے شئیر کرسکیں- بچوں کو تنہا ہرگز نہ بیٹھنے دیں اور انہیں ہر اچھی اور بری چیز کے بارے میں آگاہ کریں“-

(بشکریہ: فہد احمد)
YOU MAY ALSO LIKE:

It's described as a game, but the Blue Whale Challenge is far from a game. Young teens who accept the challenge are encouraged to complete a series of tasks which get more and more sinister and at the end of the game the player is urged to take their own life in order to "win."