میانمار ۔۔۔۔۔۔انسانیت کا ماتم کدہ

میانمار سابقہ برما کی سرحدیں بنگلہ دیش ،بھارت ،چین ،لاؤس اور تھائی لینڈسے ملتی ہیں،5 کروڑ 60 لاکھ سے زائد آبادی میں 4 فیصد یعنی 22 لاکھ مسلمان سب سے بڑی مظلوم اقلیت ہیں اس حقیقت کو اقوام متحدہ نے بھی اپنی ایک قرارداد میں بجا طور پر تسلیم کیا ہے کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے مظلوم برما کے مسلمان ہیں،جن پر نام نہاد گوتم بدھ کے پیروکار بدترین تشدد اور انسانیت سوز مظالم ڈھارہے ہیں ،میانماردنیا کا واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے،اگر تاریخی حقائق دیکھے جائیں تو 1784تک اراکان یعنی رخائن ایک مستقل مسلم ریاست تھی ،جب کہ برما اپنا الگ وجود رکھتا تھا ،جہاں مسلمانوں پر مذہبی پابندیاں تھیں یاد رہے کہ برطانوی حکومت سے4جنوری 1948 میں آزاد ہونےوالی ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی فیڈریشن پہ مشتمل اس ملک کا نام " انڈیپنڈنٹ یونین آف برما " رکھا گیا،تب سے 1962 تک بدھسٹوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا راستہ اپنائے رکھا مگر 1962 کے فوجی انقلاب کے بعد ملٹری حکومت نے اراکان کےمالدار اور محب وطن مسلمانوں کوباغی قرار دیتے ہوئے ان کے بنک اکاؤنٹس منجمد کرنے ،ان کے تجارتی مراکز پہ قبضہ کرنے ، اور ان کے بڑے بڑے گھروں کو سرکاری تحویل میں لینے کے ساتھ ساتھ بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ،یہ سلسلہ 1982تک جاری رہا ، اس عرصہ میں بیس لاکھ سے زیادہ مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے اورایک لاکھ سے زائد شہید ہوئے ،بلاشبہ ان ہجرت کرنے والوکے لیے پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے ان لوگوں کو آباد کرنے کے ساتھ ساتھ شہریت بھی دی ہے ۔ ’’اراکان ہسٹوریکل سوسائٹی‘‘ کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی دو لاکھ سے زائد برمی مسلمان کراچی میں آباد ہیں ،المیہ یہ ہے کہ برما میں 1962 کے مارشل لاء کے بعد نافذ اصلاحات کے بعد سوائے مسلمانوں کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام کی رجسٹریشن کے بعد شناختی کارڈ کااجراء کیا گیا ،چونکہ برما میں بغیر شناختی کارڈ کے کوئی بھی شخص صرف دن کے وقت اپنے ہی شہر میں رہ کر محنت مزدوری یا کاروبارکرنے کا پابند ہوگا ،ااوراسی شہر میں اپنے کسی بھی قریبی ترین عزیز چاہے وہ بیٹا/ بیٹی ہو یا باپ/ ماں کے گھر میں رات کو قیام کرنے سے قبل اسے پولیس کو اطلاع کرکے ان سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر مہمان اور میزبان ہر دو پر مالی جرمانہ کے علاوہ کم ا ز کم ایک ماہ جیل کی سزیا ہو گی،جب کہ 1982 میں برمیز سٹیزن شپ قوانین کی رو سے 1823 کے بعد برما میں رہائش یا کاروبار کے لئے آنے والوں اور ان کی اولادوں کو 160 سال برما میں رہنے کے بعد بھی غیر قانونی امیگرینٹس کا اسٹیٹس دیتے ہوئےان کی شہریت منسوخ کردی گئی جس کی زد میں صرف روہنگیا مسلمان آئے ،ایک رپورٹ کے مطابق حیران کن امر یہ ہے کہ رخائن میں رہنے والے روہنگیامسلمان نہ تو سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، نہ اسٹیٹ کے فری اسکولز میں اپنے بچوں کو داخل کرواسکتے ہیں، اور نہ ہی ان کی نوے فیصد سے زیادہ اکثریت نے آج تک اپنے ملک کے دارالحکومت کا تو کیا، اپنے ہی صوبہ میں اپنے ضلع کے علاوہ بقیہ چار اضلاع کا منہ دیکھا ہے، کیونکہ انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لئے سفری اجازت نامہ بھی کسی بدھشٹ کی سفارش اور بھاری رشوت کے حصول کے بعد جاری کیا جاتا ہے، اور یہ دونوں کام ان کے مسلمان ہونے اور غریب ہونے کی وجہ سے مشکل نہیں ناممکن ہوتے ہیں۔

ان حالات کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بدھ مت کی امن بھری تعلیمات جس میں کسی جانور کو بھی تکلیف روا نہیں ،کادم بھرنے والے بودھوں نےروہنگیا مسلمانوں سے ان کا حق زندگی چھیننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،کئی عشروں پر محیط دلخراش واقعات سے قطع نظر حالیہ تشدد اور سفاکیت کی لہر کو دیکھا جائے تو 25اگست 2017کو ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف بڈھشٹ ملیشیاؤں اور برمی فورسسز نے راخائن مسلم اکثریتی علاقے میں بدترین آپریشن کرکے ڈیڑھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا ہے جب کہ میڈیا کی عدم رسائی کی وجہ سے شہداء کی تعداد کا صحیح تعین مشکل ہے ،ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کئی گاؤں سمیت 2600 سے زیادہ گھر اور دیگر املاک جلا کر راکھ بنا دیا گیا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ نقل مکانی کرنے والے کے لیے سرحدی علاقوں میں میانمار فورسسز نے بارودی سرنگوں کا بچھانے کا عمل بھی شروع کردیا ہے تاکہ ان سے زندگی کی ہر امید چھین لی جائے ۔

بلاشبہ ان حالات کے تناظر میں مالدیپ ،اور ترکی کے جرات مندانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا 19 ستمبر کا سلامتی کونسل میں قرار داد پاس کروانے کی جدو جہد کرنا قابل تحسین ہے لیکن جب تک پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اور انسانیت کا دم بھرنے والے ممالک کو اس بڑے انسانی المیے کی روک تھام کے لیے میانمار حکومت سےدرآمدات و برآمدات اور سفارتی تعلقات ختم کرکے اس کے سفارتی مشن کو ملک بدر کرنے کا مؤثر قدم نہیں اٹھائیں گے تب تک یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے نیز میانمار کی سربراہآنگ سان سو چی سے امن کا نوبل انعام بھی واپس لے کر روہنگیا مسلمانوں کے لیے رخائن میں اقوام متحدہ کی فورسسز کے زیر کنٹرول سیف زون قائم کرکے ان کو ان کی شناخت کے ساتھ جینے کا حق دینا اقوام عالم اور مسلم دنیا کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے جس سے انہیں بہر صورت عہدہ براہ ہونا ہے ۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 250224 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More