خواب خرگوش

نوازشریف کی سیاست کو ہمیشہ تصادم کی سیاست قرار دیا گیا۔حیرت ہے کہ میاں صاحب کے اب تک کے تمام متنازعہ اقدامات قانون اور آئین کے مطابق ہونے کے باوجود انہیں کیوں نادانشمندانہ قرار دیا جاتارہا۔شاید غلامانہ سوچ اس قدر رچ بس سی گئی ہے۔کہ جمہوری لوگ تھوڑی بہت آزادی اور خودمختاری کو ہی کافی سمجھ بیٹھے ہیں۔قوم کے ساتھ فراڈ پر مبنی ایسی جمہوریت نے انہیں متعد د بار رسوا تو کیا۔مگر جرت کی کمی آڑے آرہی ہے۔محنت کی بجائے شارٹ کٹ کا راستہ اختیار کرنے کے سبب یہ غلامانہ سوچ پختہ ہورہی ہے۔نوازشریف پورا اختیار پانے کا طریقہ کاراپنانے کے سبب منفرد ہیں۔اور ہم عصر قیادت انہیں اس انوکھے طرزکارکی وجہ سے نادانشمندانہ فیصلے کرنے والا قرار دیتی ہے۔گیارہ ستمبر دوہزار دس کو بھی نوازشریف کے ایسے ہی فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیا گیاتھا۔تب میاں صاحب وطن واپسی کی ضد اپنائے ہوئے تھے۔اور فوجی حکومت ہر حال میں انہیں وطن سے باہر رکھنا چاہتی تھی۔تب کی عدلیہ نے حکومت او رمیاں صاحب کا موقف سننے کے بعد انہیں وطن واپس آنے کی اجازت دے دی۔اور حکومت کو حکم دیا کہ ان کی واپسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے۔میاں صاحب کو تب بھی ہم عصر قیادت ڈراتی رہی۔انہیں اس راہ کی مشکلات سے آگاہ کیا جاتارہا۔مگر وہ نہ مانے۔پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کسی سویلین قیادت نے پاکستانی قوت کے مراکزکو للکارہ تھا۔تب میں صاحب کو روکنے کے لیے دنیابھر کی رکاوٹیں لاکھڑی کردی گئیں۔ہر طرح کا ڈراوہ دیا گیا۔مگر ان سب کے باوجود وہ لندن سے پاکستان پہنچ گئے۔ان کی دوبارہ جبری ملک بدری نے کئی سوال اٹھائے۔عدلیہ کی حیثیت بھی زیر غور آئی۔اور فوجی حکمران کی مضبوطی بھی سوالیہ نشان بن گئی۔ایسی مضبوطی جو کسی ایک شخص کے آنے سے زمین بوس ہونے کا امکان بن گیاتھا۔

میاں صاحب کی ملک بدری میں ان کی اپنی ادھوری پلاننگ کا بھی ہاتھ تھا۔وہ اپنے مخالفین کی قوت اور سوچ کا درست اندازہ نہیں لگاپائے۔انہوں نے محض عدلیہ پر ہی تکیہ کیا۔عدلیہ اپنے احکامات پر عمل کروانے میں ناکام ہوئی۔چونکہ دوسرا کوئی متبادل موجودنہ تھا۔اس لیے دوبارہ ملک بدری میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔مسلم لیگ ن ا س دن اس طرح کا تر نوالہ ثابت ہوئی ۔جو بڑی آسانی سے نکل لیا گیا۔نوازشریف کو اس دن نہ ان کی پارٹی آگے سے بچاسکی نہ پیچھے سے۔میاں صاحب عدلیہ کے آسرے پر آئے تھے۔اور یہ آسرا ٹوٹنے کے بعد دوبارہ واپس چلے گئے۔ان کا یہ آسرا انہیں کچھ نہ دے پایا۔وہ تب بالکل تہی دامن نکلے۔اور بدقسمی سے آج بھی تہی دامنی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔وہ اب بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں وہ ستمبر دوہزار سات میں کھڑے تھے۔ان کے عزائم آج بھی وہی ہیں۔اور ان کی تیاری بھی اتنی ہی ادھوری۔ان کا تازہ ترین ارشادیہ ہے کہ دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن سندھ میں بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔سابق وزیر اعظم محمد خاں جونیجو کے صاحبزادے اسد جونیجو سے ملاقات کے موقع پر ان کا مذید کہنا تھاکہ وہ جلد سندھ کا دور ہ کریں گے۔سندھ صوفیوں اور قلندروں کی سرزمین ہے۔جب بھی گیا۔عوام نے بہت محبت دی۔اسد جونیجونے جاتی عمرہ میں مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا۔کہ سندھ میں مسلم لیگ ن کے لیے بہت مواقع ہیں۔وہاں نوازشریف کا انتظار کیا جارہاہے۔نوازشریف ملک کی سالمیت ترقی اور بقا کے ضامن ہیں۔سندھ کے عوام مسائل کے حل کے لیے نوازشریف کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

جناب اسد جونیجو کی مسلم لیگ ن میں شمولیت ایک اچھی خبر ہے۔سندھ کی قریبا تمام سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی کے آگے ہتھیار ڈال چکیں۔ایک آخری بڑی دیوار متحدہ تھی۔مگر وہ بھی گر گئی۔مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ فنکشنل وجود تو رکھتی ہیں۔مگر ہر چند کہ کہیں ہے کہ نہیں جیسا۔ان کے پاس عددی وجود ہے۔مگر سندھ کی عملی سیاست سے بالکل دستکش ہوچکیں۔اسد جونیجو سمیت کئی بڑے بڑے نام اب بھی اینٹی پی پی سیاست پر کاربند ہیں۔اگر انہیں مسلم لیگ ن جیسا بڑا پلیٹ فارم مل جائے تو یہ امتزاج سندھ کی سیاست میں انقلاب لاسکتاہے۔مگر یہ کام اتنا سادہ نہیں۔ اس کے لیے نوازشریف کو دو قدم آگے آنا پڑے گا۔اس کے لیے انہیں اپنی ڈوریاں ہوا کے دوش پر چھوڑے رکھنے کی سٹریٹجی بدلنا ہوگا۔وہ د س ستمبر کو واپس آئے تھے۔تو تب ا ن کا تکیہ صرف اور صر ف عدلیہ تھی۔یہ تکیہ سرک گیا۔انہیں اپنے جرات مندانہ اقدام کے رائگاں جانے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔اب پانامہ کیس میں بھی انہوں نے عدلیہ پر اعتماد کیا۔مگر ناکامی اٹھائی۔دونوں بار عدلیہ کی طاقت کو ایک بڑی طاقت بے اثر بنانے میں کامیا ب ہوگئی۔میاں صاحب کو خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے باہر آکر ان تلخ حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔جو مائٹ از رائٹ کے فارمولے پر نمودار ہوجاتے ہیں۔میاں صاحب سندھ میں بڑی کامیابی چاہتے ہیں۔مگر یہاں ان کا تکیہ بس خوابو ں خیالوں پر ہے۔وہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے پر سندھ سے محبت اور ووٹ چاہتے ہیں۔مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سندھیوں کی محبت اور ووٹ کیوں کر ان تک نہیں پہنچ پائیں گے۔کتنے ہی راہزن ان کا مینڈیٹ زبردستی چھین لینے کی گھات لگائے بیٹھے ہوئے ہیں۔میاں صاحب کو اپنے کارناموں پر نازہے۔مگر یہ راہزن طاقت میں زیادہ ہیں۔ان کے کارناموں کی دال نہ پہلے گلی تھی۔نہ اب گلے گی۔سندھی محبت تو کرنا چاہتے ہیں۔مگر میاں صاحب اور ان کے درمیان کوسوں فاصلے ہیں۔میاں صاحب نے سندھ کے دوروں کا وعدہ کیا ہے۔یہ اچھی بات ہے۔اس کے بغیر بات بنتی نظر نہیں آرہی۔دورے ہی نہیں بلکہ سندھ بھر میں مسلم لیگ ن کی مضبوط تنظیم ناگزیر ہے۔میاں صاحب کے لیے سند ھ میں کرنے کو ابھی بہت سا کام باقی ہے۔اگر وہ سندھ کی محبت چاہتے ہیں تو انہیں ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی تیارکرنا ہوگا۔میاں صاحب اپنے ادھورے بندوبست کے سبب اپنی محنت اکارت کرلیتے ہیں۔اگر وہ اب بھی سندھ میں نیم دلانہ پالیسی برتتے ہیں تو سدھ میں بڑی کامیابی پانے کاخواب ادھورہ رہ جائے گا۔ایسے خواب خرگوش ہمیشہ گیم سے باہر ہوجانے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.