بیسویں صدی ، مسلمانوں کا سیاسی وفکری بحران اور عبیداللہ سندھی کا انقلابی طرز فکر(3)

اسی طرح ایک اور تحریک اسلام کے نام پر چلی جس کے برصغیر کے مسلمانوں پر بڑے اثرات مرتب ہوئے۔وہ تحریک مولانامودودی نے شروع کی ،اور جماعت اسلامی کے نام پر تنظیم قائم کی۔مولانا مودودی نے بھی اسلامیت پسندی اور مذہبی گروہیت کا تصور دیا اور ہر ایسی کاوش جو اجتماعیت انسانی کے لئے کی گئی انہوں نے اس کی منافی اسلام قرار دے کر اس کی مخالفت کی وہ اسلام کی ہمہ گیریت کا وہ تصور نہیں رکھتے تھے جو مولانا سندھی کے ہاں تھا۔مولانا مودودی کا اسلامی تصور انتہائی متشددانہ اسلامیت کا تصور تھا۔ڈاکٹر تارا چند مولانا مودودی کے
افکار کے بارے میں لکھتے ہیں
’’شریعت میں فرد کے لئے اور اس کے سماجی ،اقتصادی اور سیاسی اعمال کے لئے بھی اصول شامل ہیں اور قوانین وضع کئے ہیں اسلام کے مطابق سماجی نظام یعنی ملت کا شیرازہ نسل ،وراثت ،رنگ یا ہمسائیگی کے دھاگے سے نہیں بندھا ہے ۔بلکہ صرف مذہب اسلام پر ایمان سے وابستہ ہے اس لئے جو لوگ ایک مذہب پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بلا لحاظ دوسری باتوں کے ایک قوم ہیں۔مومن غیر مومن سے مل کر ایک متحدہ قومیت یا مشترکہ حکومت نہیں بنا سکتا۔اسلامی حکومت میں ہر مسلمان کے حقوق وفرائض یکساں ہیں،لیکن غیر مسلم نہ تو برابر کے شہری ہیں اور نہ وہ اسلامی سوسائٹی کے ممبر ہو سکتے ہیں۔ان کو صرف شہریت کے حقوق ملیں گے ان کے جان ومال کا تحفظ کیا جائے گا انہیں رسم ورواج کی آزادی ہو گی اور مذہبی اعمال انجام دینے کا حق ہو گا لیکن وہ حکومت کے نظام کا حصہ نہیں ہوں گے اور نہ انتظام میں وہ کوئی حصہ لے سکیں گے۔‘‘(12)
مولانا مودودی کا یہ تصور صرف مسلمانوں کی فلاح کی بات کرتا ہے اور اسلام کی اس طرح تعبیر وتشریح کرتا ہے کہ اسلام کسی خطے میں انسانوں کی مذہب کی بنیاد پر تفریق کو روا رکھتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق میں مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔لہذا ان کا جو سیاسی تصور ہے اس کی اساس صرف مسلمانیت ہے ان کی اس فکر میں کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کی کوئی گنجائش موجود نہیں ۔لہذا انہوں نے غیر مسلم کے ساتھ کسی طرح کے سیاسی اتحاد کی نفی کی ہے ڈاکٹر تارا چندمولانا مودودی کے نظریہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’سیاسی اغراض سے ہندو مسلم اتحاد کو مردود تصور کرتے تھے۔وہ سیکولر ازم کو انکار خدا کے مترادف سمجھتے تھے اس لئے ان کے خیال میں حکومت میں اس کا کوئی مقام نہ ہونا چاہئے وہ اقتصادی مفادات کے اصول کو سیاسی اتحاد کی بنیاد قرار دینے کو اسلام کی نظر میں قابل نفرت قرار دیتے تھے کیوں کہ وہ کہتے تھے کہ یہ مذہب اور اخلاقیات کی جگہ چھین لیتا ہے اور سوسائٹی اور حکومت کی بنیاد وروحانیت کو بنانے کی بجائے مادیت کو قرار دیتے ہیں۔انہوں نے جدیدیت کی سرتاپا مذمت کی اور یورپ کے باشندوں کے انفرادی اور اجتماعی اعمال پر انتہائی نفرت ظاہر کی۔ان کے خیال میں یہ لوگ بد اخلاقیوں اور بربریت میں ڈوبے ہوئے ہیں جس سے انہیں اسی وقت نجات مل سکتی ہے جب وہ اسلام کے اصول کو تسلیم کر لیں۔
وہ ہندوستان میں ایک جمہوری اور پارلیمانی طرز کی حکومت بنانے کے قطعی خلاف تھے کیوں کہ اگر اس طرح حکومت بن گئی تو اکثریت غالب رہے گی اور چوں کہ اکثریت ہندؤوں کی ہے اس لئے مسلم اقلیت کے لئے اسلامی عقائد ،تہذیب کا تحفظ اور اسلامی معاشرتی نظم کا باقی رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔‘‘(13)
مولانا مودودی کے ان نظریات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہیکہ وہ ایک خالصتاً اسلامی اور مسلمانیت کے دائرے کے اندر سوچتے تھے لیکن وہ اسلام کی ہمہ گیریت کی بجائے ایک تنگ نظر اسلامیت کے قائل تھے اور اس میں سخت موقف رکھتے تھے۔غیر مسلم کو مذہب کی بنیاد پر مسلمان سے کم تر سمجھتے تھے۔اور ان کی سیاست کا دائرہ صرف مسلمان کی فلاح صرف مسلمان کی ترقی اور صرف مسلمان کے لئے آسودہ معاشرہ تھا ،اسلام کو انہوں نے ایک مذہبی گروہ کے طور پر پیش کیا اور مسلمانیت ہی کے غلبے اور پھیلاؤ کی تحریک کو اسلامی تحریک قرار دیا ۔لیکن اس کے
مقابلے میں مولانا عبید اللہ سندھی اسلام کو ایک انسانی تحریک کے طور پر پیش کرتے ہیں،اور ساری انسانیت کی فلاح اور ان کی سیاسی ،معاشی اور سماجی آزادی اور انسانی حقوق کا ضامن اسلام کو قرار دیتے ہیں ،اسلام کا ایک ایسا آفاقی تصور پیش کرتے ہیں جس میں ساری انسانیت ایک کنبہ بن جاتی ہے۔اور سیاسی تحریک میں وہ معاشرے کے ہر مذہب کے پیروکار کو برابر کا درجہ دیتے ہیں اور اس حوالے سے اسلام کی سیاسی تحریک کے تاریخی واقعات اور ادوار کو پیش کرتے ہیں اور قرآن حکیم کی تشریح اس انداز سے کرتے ہیں کہ وہ انسانی فطری تقاضوں کا آئینہ دار ثابت ہوتا ہے ۔اور انسانی صحیفہ کے طور پر اس کا تعارف ہو۔
لیکن جماعت اسلامی کے نام سے شروع کی جانے والی اس تحریک نے مختلف ادوار میں اسلامی کلچر ،تہذیب کے نام سے ایک علیحدگی کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔مذہبی گروہیت اور متشددانہ عمل ان کا خاصہ ہے۔اور خاص طور پر انسانیت کے حوالے سے سماجی انصاف اور حقوق انسانی کے حوالے سے چلنے والی تحریکات کی سب سے زیادہ رکاوٹ اس نے پیدا کی اور جس طبقے نے انسانیت کی بات کی ،انسانوں میں استحصال اور طبقات کے خلاف آواز اٹھائی تو سب سے پہلے اس کی مخالفت مذہب کے نام پر جماعت اسلامی نے کی اور اسے دہریہ اور سوشلسٹ قرار دیا خود مولانا عبید اللہ سندھی پر بھی اس قسم کی افترا بازی انہوں نے کی ۔لہذا سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی جدو جہد کا تصور ان کے ہاں محال ہے ۔صرف ایک ایسا جذباتی نعرہ ہے جس کی اساس صرف یہ ہیکہ مسلمان ہونا اگر مسلمان نہیں ہے تو اس کے لئے ان کے ہاں رحم کی کوئی گنجائش نہیں اسلام کا یہ تصور پیش کیا جاتا ہے جو سرمایہ دار استحصالی طبقے کے لئے قابل قبول ہے ان کو خواص کا نام دے کر معاشرے میں طبقاتی نظام کو تحفظ فراہم کیا ۔پاکستانی معاشرے کی ساٹھ سالہ تاریخ اس کی گواہ ہے۔جتنا کام اور محنت، سوشلزم کے خلاف جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہوئی اس کے مقابلے میں سرمایہ داریت کے خلاف کوئی کام نہیں ہوا۔ان کی ساری توانائیاں سرمایہ دار بلاک کی خدمات اور ان کی فلاح کے لئے وقف رہیں۔مولانا مودودی کا یہ نظریہ سیاست جس میں ریڈیکل ،اسلام کا تصور موجود ہے اسلام کو ایک متشدد گروہ کے طور پر پیش کرتا ہے ۔لیکن اس کے مقابلے میں عبید اللہ سندھی کا فکر اسلامی تحریک اور قرآن حکیم کو انسانی تحریک کے طور پر پیش کر کے سارے عالم انسانیت کے لئے نجات دہندہ قرار دیتے ہیں اور بلا تعصب سب کو جینے کا حق دیتے ہیں سوائے اس طبقے کے جو عدل کا مخالف ہو عقیدے کی جنگ کی بجائے ظلم وعدل کی جگہ کو جائز قرار دیتے ہیں جب کہ مولانا مودودی عقیدے کی جنگ کو ضروری سمجھتے ہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی کا یہ امتیاز ہے کہ انہوں نے اسلام اور قرآن حکیم کی اساس پر سیاسی جدو جہد کو ضروری قرار دیا لیکن اس کی اساس انسانیت اور اجتماعیت کو قرار دیا ۔آپ کا نظریہ اسی اساس کے گرد گھومتا ہے آپ کی عملی جدو جہد اسی نظریئے کی آئینہ دار رہی۔شاید ہی کسی مفکر کو یہ مقام ملا ہو کہ وہ عملی طور پر بھی سیاسی کارکن کی حیثیت سے قربانیاں دے رہا ہو اور پھر ایک سیاسی نظریہ بھی پیش کرتا ہو اور اس سیاسی نظریہ کی بالا دستی کے لئے مصروف عمل بھی ہو۔اور اس سیاسی نظرئیے کی ہمہ گیریت کا یہ عالم ہو کہ کل انسانیت کی فکر کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی انفرادیت اور انسان دوست تشخص کو بھی بحال کرنا ۔ڈاکٹر اقبال ہو یا جمال الدین افغانی ہوں یا مولانا مودودی ہو،سب نے اسلام کی بات کی لیکن ان کااسلام ایک مقید دائرے کا اسلام ہے انہوں نے باقی اقوام کو اپنے اندر وہ جگہ نہیں دی جس کی روح اسلام تقاضہ
کرتی ہے ۔انسانی دین کے طور پر عبید اللہ سندھی نے اسلام کو متعارف کروایا۔
بیسویں صدی کا معاشرہ خصوصاً مسلمانوں کے سیاسی اور فکری زوال کا دور ہے اس دور میں ضرورت تھی کہ ایک ایسا فکر پیش کیا جاتا جو غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے ساتھ ساتھ فکری جامعیت اور جدت بھی پیدا کرتا اس سلسلے میں مسلمان مفکرین جو کہ مولانا عبید اللہ سندھی کے ہم عصر تھے نے اپنی جدو جہد بھی کی اس حوالے سے کئی افکار ونظریات سامنے آئے۔مولانا عبید اللہ سندھی نے عصر حاضر کے اس بحران کا کس طرح ادراک کیا اور اپنی سیاسی فکر میں کن اصولوں اور بنیادی فلاسفی کو اختیار کیا جو کہ دوسرے صاحبان فکر میں نہ تھی۔اس بات کی تحقیق جب کی گئی تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دیگر سیاسی مفکرین اور مولانا کے نظریہ میں اگر کسی بنیادی نکتہ کو انفرادیت حاصل ہے تو وہ ’’انسانیت واجتماعیت‘‘پر انتہائی درجہ اصرار ہے۔اور خاص طور پر انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کی تلقین کرتے ہیں لیکن وہ انفرادیت کا سرے سے انکار نہیں کرتے بلکہ ایک فرد پر یہ لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ نظریہ اجتماعیت کا حامل ہو کل انسانیت کی فکر کرنے والا اور اس کی بہتری اور خوشحالی کے لئے جدو جہد کرنے والا ہو،یہی وجہ ہے کہ وہ اجتماعی خرابی کو اجتماعی جدو جہد کے ذریعے سے ہی ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔اور اگر ایسا نظریہ ہو کہ اجتماعی خرابی کو انفرادی سطح پر درست کیا جائے تو وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ڈاکٹر تارا چند عبیدا للہ سندھی کی فکر کا تجزیہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں
’’عبیداللہ کے لئے اسلام ہی سب کچھ تھا اصول بھی اور مقصد حیات بھی لیکن اسلام کا ان کا تصور قدامت پرستانہ یا محدود نہ تھا علیحدگی پسندی کا بھی اس میں کوئی دخل نہ تھا ان کے نزدیک اسلام ایک عالم گیر اور ابدی مذہب کا دوسرا نام ہے قرآن ایک زندہ اور انقلابی فکر کی حامل کتاب ہے بنی نوع انسان کے بنیادی تصورات کا اظہار ،تمام مذاہب کا بنیادی اصول اور خدا کی ذات کا مظہر ہے انسانوں کے ضمیر،بھگوت گیتا ،عہد عتیق کی پانچ موسوی کتابیں اور انجیل وہ سب اس مذہب کی شرحیں ہیں ،گیتا ،انجیل یکساں طور پر حق ہیں۔ان کے شارحین نے بعد کے زمانوں میں انتشار اور تفریق پیدا کی۔قرآن کا منشا بنی نوع انسان کی برادری قائم کرنا ہے تاکہ افراد کے نفوس کی ایسی تہذیب کی جائے تاکہ وہ سوسائٹی کا ایک نیک سیرت فرد بن جائیں اور سماج کو ایسی تربیت دی جائے تاکہ وہ بنی نوع انسان کے خاندان کا ایک لائق رکن قرار پائے۔اسلام کی منزل مقصود فرد،سماج اور پوری انسانیت کو صالح بنانا ہے۔اس لئے جو چیز انسان کو انسان سے ملاتی ہے وہ مذہب ہے اور جو جدا کرتی ہے وہ اس کی مخالف چیز ہے۔
تمام انسانوں کا مذہب ایک ہی ہے جو ازلی اور ابدی ہے لیکن قانون (شریعتیں)مختلف ہیں ،ہر سماج اپنے خاص جغرافیائی اور تاریخی ماحول کے تحت اپنے مخصوص قوانین اپنے لئے وضع کرتا ہے جو وقت کی تبدیلی کے ساتھ لازمی طور پر بدل جاتے ہیں وہ سیاسی اور اقتصادی نظام جو اولین خلفاء اربعہ کے زمانے میں تھا وہ موجودہ زمانے پر منطبق نہیں کئے جا سکتے تعصب کے جوش میں اس چیز کو جو دنیوی اور وقت وحالات کے تحت بدلتی رہنے والی ہے اسے قائم رکھنے پر زور دینا قدامت پرستی ہے اور قدامت پرستی زندہ قوموں کا شعار نہیں دوسرے مذاہب سے نفرت کرنا معصیت ہے جو شخص سچائی کے ساتھ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھنے والا اور احکم الحاکمین کا پرستار ہو وہ تمام انسانوں سے محبت رکھتا ہے اور تمام انسانی برادری کا خدمت گذار ہوتا ہے۔‘‘(14)
مولانا عبید اللہ سندھی کی فکر کی تائید ڈاکٹر علامہ اقبال کی درج ذیل ریڈیو تقریر سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے فرمایا
’’انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے جب تک دنیا کی تعلیمی طاقتیں اپنی توجہ کو احترام انسانیت کے درس پر مرتکز نہ کر دیں ،یہ دنیا بہ دستور درندوں کی بستی بنی رہے گی ۔وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو نسل ،زبان ،رنگ اور مقام سے بالاتر ہے جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ’’الخلق عیال اللہ‘‘کا قائل نہیں ہو جائے گا انسان اس دنیا میں کامرانی کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخوت ،حریت اور مساوات کے الفاظ کبھی شرمندہ معنی نہ ہوں گے۔‘‘(15)
ڈاکٹر اقبال کی یہ تقریر عالمی تعلیمی طاقتوں کے لئے تو تھی ہی اور وہ اس امر کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن ان کے کلام میں یہ تصور خال خال ہی نظر آتا ہے۔بہر حال’’ انسانیت کا یہ درس ‘‘اور’’ اجتماعیت کا یہ نظریہ ‘‘یہی وہ بنیادی سوچ تھی جس کی بنیاد پر مولانا سندھی نے اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھا ،اور ایک ہمہ گیر وسعت نظری کے ساتھ ساری انسانی سوسائٹی کے لئے آزادی ،خوشحالی اور عدل وانصاف کے نظریات کا پرچار کیا۔مولانا عبید اللہ سندھی انسانی معاشرے کے ارتقاء اور تمدنی ترقی کے لئے اجتماعیت کو کلیدی حیثیت سمجھتے ہیں ۔وہ انسانی معاشرے کے اندر اجتماعیت کے قیام کے لئے جدو جہد کو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اجتماعیت سے مراد زندگی کے ہر شعبے میں بلا رنگ ونسل ومذہب رواداری ،محبت اخوت اور عدل و مساوات ہو ۔کسی بھی بنیاد پر یا کسی بھی نظریہ یا فکر کو بنیاد بنا کر انسانوں میں تقسیم کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔بنیادی انسانیت میں تمام انسان برابر ہیں ان کے حقوق میں تمیز نہیں کی جا سکتی ،کوئی بھی قانون ،مذہبی عقائد ،علم وفلسفہ قابل قبول نہیں جو انسانوں میں امتیاز پیدا کرتا ہو جو انسانوں پر ظلم و بے انصافی کو جائز سمجھتا ہو۔ تمدنی زندگی کی تشکیل کے لئے ایک ایسے فلسفے اور نظریہ کی ضرورت ہے جو انسانوں میں بلا تقسیم وامتیاز ایک عادلانہ فضا کو ہمہ وقت قائم رکھے اور معاشرے کی فطری ترقی کو بھی جاری وساری رکھے زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضے ملحوظ خاطر رکھے اور ہر آنے والے دور میں عدل وانصاف کو قائم ودائم رکھے۔ مولانا سندھی کا نظریہ وعمل اسی عقیدے کے گرد گھومتا ہے وہ تمام علوم،تمام مذاہب،تمام نظریات ،اور تمام انسانی معاشروں اور گرہوں وجماعتوں اور پھر تاریخ انسانی کا اسی تناظر میں جائزہ لیتے ہیں ،وہ اساسی جوہر انسانیت کو قرار دیتے ہیں جو کہ انسانی تمدن کی ترقی کا حقیقی محرک ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ،فلسفہ اور قانون ،جماعت ،اس جوہر سے محروم ہو کر انسانی ارتقاء میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔۔۔۔جاری ہے۔۔حوالہ جات آخری قسط کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
 

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136490 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More