ریلوے عوام کے لئے؟

 پیغام دینے کے لئے انہوں نے سب سے مناسب جگہ لاہور کا ریلوے سٹیشن ہی پائی، چونکہ بیان ریلوے کے بارے میں تھا، اور عام آدمی کے لئے پاکستان کے اہم ترین فرد کا تھا اس لئے اس کی اہمیت بھی اسی قدر ہے۔ صدراسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین نے عام شہری کو پیغام دیا ہے کہ ’’․․․ریل کا سفر محفوظ بھی ہے اور آرام دہ بھی․․․‘‘۔ آپ لاہور میں تھے، کسی ذرخیز ذہن مشیر نے مشورہ دیا کہ ماحول میں کچھ تبدیلی آنی چاہیے، معمول بدلنا چاہیے، لاہور سے اسلام آباد خصوصی طیارے کی بجائے ریل گاڑی پر سفر کیا جائے۔ سیر سپاٹا بھی ہو جائے گا، تبدیلی آب وہوا بھی۔ ظاہر ہے وقت تو تھا ہی موصوف کے پاس کہ اتنی مصروفیات نہیں ہوتیں کہ سفر میں بھی وقت بچایا جائے، اگر فرض کر لیا جائے کہ کام بہت ہے، تو بھی بہت سی فائلیں ریل گاڑی میں بھی نمٹائی جاسکتی تھیں، مگر خیال رہے کہ یہ سفر تفریح کے لئے تھا، نہ کہ کام کے لئے۔ صدر صاحب کے لئے دوبوگیاں مخصوص کی گئیں، گاڑی کے لئے دو انجن مختص کئے گئے، ایک نے پائلٹ کا کردار ادا کرنا تھا۔ ریلوے کے ایس پی کی قیادت میں حفاظتی دستہ بھی ساتھ تھا۔ راستے میں آنے والے ہر سٹیشن پر سے گاڑی کو روانہ کرنے کے لئے ریلوے کے افسران کی ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں۔

صدر ممنون حسین کو ریلوے سٹیشن لاہور پہنچانے کے لئے راستے کی سڑکوں کو بند کردیا گیا تھا، صرف وہی سڑک کھلی تھی جہاں سے آپ نے سفر کرنا تھا، جن پر عوام کی بھِیڑ تھی اُن سڑکوں کی ٹریفک کو روک دیا گیا۔ یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر کس قدر رش ہوتا ہے اور جگہ جگہ ٹریفک بلاک ہونے کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں، ایسے موقع پر اگر ٹریفک کو روک ہی دیا جائے تو ٹریفک جام کا کیا منظر ہوگا۔ ٹریفک روکنے کی بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی، لاہور سے پنڈی کے راستے میں جتنے بھی پھاٹک آتے ہیں، انہیں وقت سے بہت پہلے بند کر دیا گیا، جن میں شہروں کے پھاٹک بھی شامل ہیں، جہاں دس منٹ پھاٹک بند ہو تو بیسیوں سواریوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے، جب وہ پھاٹک زیادہ دیر بند رہیں گے تو ٹریفک کا کیا ہوگا؟ گویا یہ سلسلہ لاہور تک ہی محدود نہیں رہا، بالائی پنجاب کے بہت سے شہر اور علاقے اس بلاکنگ سے متاثر ہوئے۔ معاملہ لاہور ریلوے سٹیشن سے باہر اور دیگر پھاٹکوں پر رُکی اور کھڑی ہزاروں سواریوں تک ہی محدود نہیں تھا، خود ریلوے سٹیشن پر بھی عوام کا جم غفیر تھا، جو مختلف گاڑیوں پر سوار ہونا چاہتاتھا، مگر ’’وی وی وی آئی پی موومنٹ‘‘کی وجہ سے غیر یقینی کی صورت حال کا شکار تھا، انہیں معلوم نہیں تھا، کہ ان کی گاڑی کب آئے گی؟ اس سیر سپاٹے سے متاثر ہونے والے عوام کی کل تعداد لاکھوں میں ہو گی، جنہیں گھنٹوں انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑا۔ اس صورت حال میں لاہور ریلوے سٹیشن پر آنے والی تمام گاڑیوں کو بھی انتظار کی گھڑیاں گننا پڑیں۔ مختلف گاڑیاں دو سے سات گھنٹے تک لیٹ ہوئیں۔ اس سے بھی بخوبی حساب لگایا جاسکتا ہے کہ اتنا تاخیر کا شکار ہونے والی گاڑیوں کے مسافروں کا کیا حال ہوگا اور ان کی تعداد کتنی ہوگی؟

جب تک مسافر خوار ہوتے رہے، پریشانی اور مشکل میں رہے، اس وقت تک گویا پنجاب کے لاکھوں لوگ مسلسل بددعائیں دیتے رہے۔ کسی حکومت یا حکمران کا کوئی حامی بھی اس قدر تکلیف کی صورت میں خیر کا کلمہ نہیں کہتا، بلکہ یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت سے دل وجان سے حامی بھی ایسے مواقع پر مستقل مخالف بن جاتے ہیں۔ صدر صاحب نے ہجوم کئے ہوئے میڈیا کے ذریعے عوام کو پیغام دیا کہ ’’․․․ریل کا سفر محفوظ بھی ہے اور آرام دہ بھی․․‘‘۔ صدر کا کہا سچ ہے، کیونکہ پاکستان کے آئینی سربراہ کا کہا سچ ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سفر واقعی محفوظ اور آرام دہ ہوتا ہے، بشرطیکہ ٹرین پر کوئی ’’صدر پاکستان ‘‘ سفر نہ کر رہا ہو۔ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کو بہت بہتر کردیا ہے، اب ریلوے کی تعریف نہ کرنا بخیلی ہوگی۔ مگر انہیں یہ بھی علم ہی ہوگا کہ صدر صاحب کے سفر کرنے سے چار بوگیوں کی بکنگ نہیں ہوئی، جس سے بھی ریلوے کو لاکھوں کا ٹیکہ لگا ہوگا، بہت سے لوگ ٹرینوں کی گھنٹوں تاخیر کی وجہ سے سفر نہ کرسکے، خواری الگ رہی۔ خیر خواجہ صاحب بھی آجکل اسلام آباد میں مصروف ہیں، انہیں کیا یاد دلانا؟آخر میں ایک درخواست صدر مملکت اور خواجہ سعد رفیق سے۔ ریلوے کو عوام کے لئے رہنے دیں،وی وی وی آئی پیز ریلوے کو معاف ہی رکھیں۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430141 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.