لازوال قسط نمبر 11

’’مجھ سے کچھ دور ہی رکھو میرے دلداروں کو
کیسے پیوست کروں سینے میں تلوروں کو‘‘
شعر پڑھ کر اس نے ایک ثانیے کے لئے خاموشی برتی اور پھر دوبارہ کیمرے کی طرف متوجہ ہو کر گویا ہوا
’’میرے دوستو! محبت لازمی امر ہے مگر کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا اس محبت کے چکروں میں انسان اپنی ذات کو کس قدر نیست و نابود کر دیتا ہے۔شایدہاں یا پھر شاید نہیں۔جو ہاں کہتے ہیں میرا اُن سے ایک سوال ہے کہ اگر محبت کا انجام صرف رسوائی ہے تو آپ محبت ہی کیوں کرتے ہیں اور اگر آپ کا جواب نہیں ہے تو میرا اُن سے بھی ایک سوال ہے کہ محبت کے بنا آپ جی کیسے رہے ہیں؟‘‘ کافی کا مگ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے اس نے کالر کو ٹھیک کیا اور دوبارہ گویا ہوا
’’زندگی کو لامحدود کرنے کے لئے بعض خواہشوں کو محدود کرنا لازمی امر ہے مگر اس محدودیت میں کہیں آپ کی خواہشیں جن کو آپ دوام بخشنا چاہتے ہیں کہیں بے نام نہ ہوجائیں، اس کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔
یاں تو ناکردہ گناہوں کی تلافی بھی نہیں
اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں یاروں کو
محبت میں بعض اوقات انسان کو ایسے حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔جن کے بارے میں اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا مگر وہ پھر بھی گزرجاتا ہے اور ایسی ایسی تکالیف کو سہہ لیتا ہے جو شاید ایک عام آدمی کبھی نہیں سہہ سکتا لیکن دوستو! اگر اس پرخار راستے پر آپ کو کوئی ہمنوا مل جائے تو یہ کٹھن سفر آسان ہوجاتا ہے مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا۔ ایسے راستوں سے اکثر انسان کو اکیلے ہی گزرنا پڑتا ہے۔جس کو منزل بنایا ہوتا ہے وہ تو آرام سے بیٹھا آپ کی راہ تکتا ہے اور مصائب آپ کا مقدر بنادیتا ہے۔وہ خود آپ کے پاس آنے سے گھبراتا ہے اور آپ کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ میرا سوال ہے ان تمام عاشقوں سے کہ آخر وہ کیوں اپنے محبوب کی خاطر زمانے بھر کی نفرتوں کو براشت کرتے ہیں ؟ آخر کیوں اپنے محبوب کی خاطر اپنی ذات کو فراموش کر دیتے ہیں ؟ آخر کیوں؟اور ایک سوال میرا ن تمام حسن کی مجسمات سے ہے کہ آخر کیوں وہ اپنے عاشق کی محبت کا امتحان لیتی ہیں؟ آخر کیوں ان کے ایک بار اقرارپر اپنے آپ کو فراموش نہیں کر دیتیں؟ کیوں اُن کی محبت کا امتحان لیتی ہیں؟‘‘پورے سیٹ پر خاموشی کے بادل منڈا رہے تھے۔ کیمرہ مین سے لائیٹ مین اور یہاں تک کہ پروڈیوسر بھی ضرغام کی باتوں کو دھیان سے سن رہے تھے۔سب پر ایک سکتہ طاری تھا۔دو ہفتوں کے بعد ضرغام آج شو کر رہا تھا۔ صرف تین کے مختصر سے وقت میں ضرغام اپنی آواز ، اپنے چہرے اور اندازِ بیاں سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا تھا۔ لوگ ضرغام کو دیکھنا چاہتے تھے۔لازوال میں وہ صرف اس کی باتوں سے محظوظ ہونا چاہتے تھے۔ضرغام کے لورز میں زیادہ تعداد ینگ جینزریشن کی تھی۔جن کے احساسات ضرغام سے ملتے جلتے تھے۔وہ ضرغام کی ایک ایک ادا کو نوٹ کرتے اور اس کو کاپی کرتے۔ صرف تین ماہ میں فیس بک پر ضرغام کے فالوورز کی تعداد آٹھ لاکھ تک جا پہنچی تھی۔جو کہ ایک مثبت پوائنٹ تھا لیکن ہر سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ اس سکے کا بھی دوسرا پہلو تھا۔ دوسرا پہلو تاریکی تھی۔اندھیرا تھا۔ویرانی تھی۔ اداسی تھی۔دنیا کی قربت اور آخرت سے دوری تھی۔وہ دنیا کی باتوں کو تو بخوبی جانتا تھا مگر آخرت کے بارے میں کچھ نہیں۔لوگوں کو عروج حاصل کرنے کے نسخے تو بتاتا تھا مگر اس عروج کو قائم رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کئے جاتے ہیں اُس سے ناآشنا تھا۔وہ سامنے کا قائل تھا۔ حال پر نگاہ رکھتا تھا مگر مستقبل بعید سے کوسوں کا فاصلہ تھا۔لوگ اُن کو فالو کرتے ہیں جن کے ماحو ل میں وہ رنگنا چاہتے ہیں۔ ضرغام کی طبیعت بھی ایسی ہی تھی۔جس دنگل میں وہ خود پھنس رہا تھا لوگوں کو ابھی اسی دنگل میں پھانس رہا تھا۔ مگر سب ناآشنا تھے۔سب کے سامنے ریٹنگ تھی۔مقبولیت تھی۔
’’سر آپ نے شادی کر لی۔۔ ہمیں بتایا ہی نہیں۔۔‘‘
’’محبت کی باتیں اس لئے ہو رہی ہیں کہ آپ کی محبوبہ آپ کے قدموں میں خود زیر ہوگئی ہے ؟‘‘
’’سر آپ کی محبت کی شادی تھی یا ارینج میریج ؟‘‘
’’سر آپ اپنی وائف کو ایک بار شو میں لائیں پلز۔۔‘‘
’’ سر ہم آپ کی پسند کو دیکھنا چاہتے ہیں۔۔‘‘
’’ ضرغام مجھے تو لگا تھا کہ تم میرے سوا کسی کے ہو ہی نہیں سکتے مگر تم نے تو اتنی بڑی بات ہم سب سے چھپا کر رکھی۔۔ یہ اچھی بات نہیں ۔ چلو اب جلدی سے اس لڑکی کو سامنے لاؤ جو تمہاری پسند ہے‘‘
’’ہم آپ کی شریک حیات کو دیکھناچاہتے ہیں۔ دیکھنا چاہتے ہیں جو آپ کی ماڈل ہے وہ نظر آنے میں کیسی ہے؟‘‘
’’ میں بھی آپ کے جیسے کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہوں گی لیکن اس کے لئے مجھے آپ کی وائف سے کچھ ٹپس چاہئے ۔ اس لئے پلز انہیں ایک بار شو میں ضرور لائیں۔۔ پلز پلز پلز‘‘
ایک کے بعد ایک میسجز اور کالز پر وجیہہ کو دیکھنے کی فرمائش ہوتی جا رہی تھی۔ضرغام جہاں حیرت کا شکار تھا وہیں اسے غصہ بھی تھا کہ کس نے اس کی شادی کی بات کو پبلک میں لِیک کر دیا مگر لائیو شو میں زیادہ کچھ نہ کہہ سکااور گردن ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
’’ یہ سب کو میری شادی کا کیسے پتا چلا؟ میں نے کہا بھی تھا کہ کسی کومیری شادی کی کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہئے اور آپ نے تو۔۔‘‘ وہ غصے میں برہم سٹول پر رکھے ڈیوریشن پیس کو پھینک رہا تھا
’’ ضرغام ۔۔ اس میں اتنا غصہ ہونے والی کی بات ہے ؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ تمہاری بیوی کو سب لائیک کرتے ہیں۔ اُن سے ملنا چاہتے ہیں اور پھر تم خود ہی دیکھو آج تمام کالز اینڈ میسجز میں صرف تمہارے بیوی سے ملنے کی ہی ریکوسٹ کی گئی ہے۔ ایک بار تم اسے شو میں لے آؤ۔دیکھنا ریٹنگ کتنی اونچی ہوجائے گی اور کیا معلوم تمہاری کو ہوسٹ ہی بن جائے وہ۔۔۔‘‘پروڈیوسر شہزاد نے اس شانت کراتے ہوئے کہا
’’ لیکن اس بات کو لِیک کس نے کیا؟‘‘ استفہامیہ انداز میں ا س نے سب کے چہروں کو ٹٹولا مگر سب پر ایک سکوت طاری تھا۔
’’ میں نے۔۔‘‘ عنایہ کیٹ واک کرتے ہوئے ضرغام کے پاس آئی اور اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اس کے سہارے کھڑے ہوگئی
’’ تم نے۔۔۔پوچھ سکتا ہوں کیوں؟‘‘ دانت بھینچتے ہوئے اس نے اپنے شانے جھٹکے تو اس کی چال میں ایک دم لڑکھڑاہٹ پیدا ہوگئی مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا
’’بے بی! اتنا غصہ صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ تم نہیں تھے تو شہزاد صاحب نے مجھے شو کرنے کو کہا لیکن تمہیں تو معلوم ہے کہ ویورز تو جیسے لازوال میں ضرغام عباسی کے علاوہ کسی کو دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے ۔ بار بار بس یہی پوچھتے رہے کہ ضرغام کب آئیں گے۔۔کیوں نہیں آرہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔۔ اور پتا نہیں کیا کیا کچھ۔اس لئے میں نے اس کو اصل بات بتا دی کہ ضرغام صاحب آجکل اپنی شادی میں مصرو ف ہیں۔‘‘ اس نے بے نیازی سے ساری بات سے آگاہ کیا
’’ لیکن تمہیں تو سب معلوم ہے ناں۔۔‘‘ اس کا غصہ قدرے کم ہوچکا تھا مگرآثار ابھی بھی آویزاں تھے
’’ جسٹ چِل۔۔ اس فیلڈ میں ایسا چلتا رہتا ہے۔یہ شوبز کی دنیا ہے ضرغام، کون کب کس کے ساتھ ہوتا ہے کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔‘‘
’’ لیکن میں اپنے کریکٹر پر کوئی داغ برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ بات تم بھی اچھی طرح جانتی ہو۔۔‘‘
’’ جانتی ہو ں اسی لئے تو کہہ رہی ہوں لے آؤاسے اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔۔‘‘اس نے کانوں میں سرگوشی کی جسے سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھاگئی اور اس نے اثبات میں سر ہلادیا
* * * *
کمرے میں ہر طرف سیاہی تھی۔ اندھیرے میں دونوں میاں بیوی بیٹھے حالات سے نمٹنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ کھڑکی پر لہراتا نیلے جھالروں والا پردہ ہوا کے پروں پر سوار تھا۔رات کے سنا ٹے کی آواز بھی کمرے میں داخل ہو رہی تھی
’’ انمول ایسا بھی کرسکتا ہے۔ یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا‘‘رضیہ بیگم نے زیر لب کہا تھا
’’ کبھی کبھی وقت انسان کو ان حالات سے دوچار کروادیتا ہے جو اس نے وہم و گمان میں بھی سوچے نہیں ہوتے‘‘کوشن کو سینے پر رکھے وہ ٹیک لگائے بیڈ پر بیٹھے تھے
’’لیکن اسے ہماری محبت کا تو پاس رکھنا چاہئے تھا ناں۔۔‘‘وہ جھٹ علی عظمت کی طرف متوجہ ہوئیں
’’ پاس تو ہم نے بھی نہیں رکھا کبھی وجیہہ کا۔۔‘‘معنی خیرنظروں کے ساتھ انہوں رضیہ بیگم کی طرف دیکھا۔ وہ اب مزید کچھ نہ کہہ سکی اور خاموشی سے اپنی جگہ پر لیٹ گئیں
’’تو پھر اب کیا کیا جاسکتا ہے؟‘‘لیمپ کو آف کرنے کی غرض سے ہاتھ بڑھائے
’’سمجھوتے کے سوا اب کیا بھی کیا جاسکتا ہے۔۔‘‘سرد آہ بھرتے ہوئے انہوں نے کشن کو اپنے اور رضیہ بیگم کے درمیان رکھا اور درواز ہوگئے۔ رضیہ بیگم نے بھی لائیٹ آف کردی۔کمرے کے اندھیرے میں دونوں ایک دوسرے کی طرف پشت کئے لیٹے رہے مگر دونوں کے ذہن میں صرف ہی سوال تھا
’’ جو ہورہا ہے کیا وہ صحیح ہو رہا ہے؟کیا ہونی کو بدلا جاسکتا ہے؟‘‘
* * * *
’’تم خوش تو ہو ناں۔۔‘‘کروٹ بدل کر اس نے اپنا چہرہ عندلیب کی طرف کیا
’’ہاں۔۔۔ بہت خوش۔۔‘‘اطمینان بھری نگاہ اس نے انمول کے چہرے پر مرکوز کر لی
’’اب تو تمہیں یقین ہوگیا ناں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔ تمہارے سوا کسی اور کا خیال اپنے دل میں لانا تو دور کی بات سوچ بھی نہیں سکتا۔‘ ‘وہ اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا
’’مجھے یقین ہے تم پر اور تمہاری محبت پر۔۔‘‘پیار سے اپنے ہاتھ انمول کے رخسار پر پھیرا
’’دیکھنا یہ یقین ہمیشہ قائم رہے گا۔‘‘ پیار سے اس کی کلائی کو پکڑ کرنرمی سے ہونٹوں سے بوسہ دیا
’’ویسے تمہارے امی ابو مان تو جائیں گے ناں۔۔‘‘چہرے پر قدرے مایوسی چھا گئی
’’ان کی فکر ہی نہ کروتم۔۔۔‘‘اپنا سر دائیں ہتھیلی کے سہارے قدرے اونچا کیا اور بائیں ہاتھ سے عندلیب کا ہاتھ پکڑ کر اپنے رخسار پر پھیرنے لگا
’’فکر تو نہیں کر رہی مگر ایک ڈر ہے کہ کہیں ان کی خفگی تمہیں مجھ سے دور نہ لے جائے ۔ مجھے اُن کی خاموشی سے ڈر لگ رہا ہے کیونکہ یہ خاموشی جب بھی ٹوٹتی ہے تو بڑا طوفان بڑپا کرتی ہے ۔مجھے اس طوفان سے خوف ہے۔‘‘
’’میری جان عندلیب!‘‘عندلیب کی بالوں کی لٹوں کو اپنی انگلی پر لپیٹتے ہوئے کہا
’’ کوئی مجھے تم سے الگ نہیں کر سکتا۔ میں نے آج تک صرف اپنی منوائی ہے اور ہمیشہ منواتا رہوں گا۔میں انمول ہوں اور میرے لئے ہر وہ شے انمول ہے جو مجھ سے جڑی ہے۔‘‘نرم ہونٹوں سے اپنے لبوں کی چاشنی اس کی پیشانی پر نقش کر دی
* * * * *
’’یہ لیجیے امی!‘‘ جوس کا گلاس شگفتہ بی بی کو سرو کرنے کے بعد وہ دوربارہ کچن میں چلی گئی اور ناشتے کا بندوبست کرنے لگی۔ وجیہہ کے گھر میں آنے سے شگفتہ بی بی کو بہت آرام ملا۔ گھر کاسارا کام وجیہہ نے اپنے ذمے لے لیا۔ وہ ہر ممکن کوشش کر تی کے شگفتہ بی بی کو کوئی کام نہ کرنا پڑے۔ضرغام کی بے رخی سے قطع نظر وہ اس کی چھوٹی سی چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتی۔ہر وہ کام جو پہلے شگفتہ بی بی کیا کرتی تھیں ۔ اب وجیہہ کرنے لگی تھی۔صبح پانی کا گلاس سرو کرنا ہویا سوٹ کی سیلیکشن ،شرٹ کے ڈھلے بٹنوں کو ٹانکا لگانا ہو یا پھر گیلے ٹاول کو بیڈ سے اٹھا کر وارڈ روب میں رکھنا ہو۔ضرغام کی چھوٹی سے چھوٹی پسند کوبر لانا وہ اپنا فرض عین سمجھتی تھی۔
’’ضرغام آپ کے لئے گرین ٹی۔۔۔‘‘آج بھی وہ ضرغام کے اٹھنے سے پہلے کمرے میں اس کے لئے چائے لے کر حاضر ہوگئی۔وہ بیڈ پر لیٹا اونگھ رہا تھا۔ایک لمبی انگڑائی لیتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے وجیہہ کی جانب دیکھااور ٹیک لگا کر اس بے گرین ٹی وجیہہ سے لی۔
’’ضرغام میں نے آپ کی شرٹ آئرن کردی ہے اور ہینگر کر کے واش روم میں لٹکا دی ہے۔اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتادیں۔‘‘کھڑکی سے پردے سمیٹتے ہوئے اس نے ایک نظر ضرغام پر ڈالی تھی۔ جو سپ لیتے ہوئے وجیہہ کی طرف یک ٹک دیکھ رہا تھا
’’ کوئی کام ہے آپ کو؟‘‘وہ ضرغام کی نظروں کا مطلب سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ وجیہہ کے پوچھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا اور پھر کپ کو سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور پھر اٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔ لحاف سمیٹ کر وہ شگفتہ بی بی کے کمرے میں آگئی
’’ امی چلیں۔۔‘‘ شگفتہ بی بی عبایا پہن رہی تھیں۔
’’ ہاں بیٹا چلو۔۔ ضرغام کو ناشتہ دے دیا؟‘‘سٹڈی ٹیبل سے فائلز کو اٹھاتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھا
’’جی امی۔۔ میں نے گرم کر کے ٹیبل پر ناشتہ لگا دیا ہے‘‘ ہینگر سے اپنا عبایا اٹھایا اور اسے پہننے لگی
’’وجیہہ۔۔‘‘ضرغام کی آواز آئی تو یکدم چونک گئی۔ پہلی بار ضرغام نے کسی کام کے لئے وجیہہ کو بلایا تھا
’’آج تو ضرغام نے آواز دی ہے۔۔‘‘ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شگفتہ بی بی نے وجیہہ کی طرف دیکھا تو وہ شرما گئی
’’ امی میں اُن کی بات سن کر آتی ہوں۔۔‘‘وہ پلٹی اور واپس بیڈ روم میں آگئی
’’یہ کیا تم کہیں جا رہی ہو؟‘‘اس نے وجیہہ کے عبایا کو دیکھا تو حیرت سے استفسار کیا
’’جی ۔کالج جا رہی ہوں‘‘اس نے جواب دیا
’’اوہ ۔۔ اچھا!‘‘ کچھ سوچتے ہوئے وہ اپنی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا اور آئینے کے سامنے جا کر اپنے بال سیٹ کرنے لگا
’’ آپ کو کوئی کام تھا؟‘‘وجیہہ چار قدم آگے بڑھی تو وہ پلٹا
’’ آج جلدی آجانا۔۔‘‘معنی خیز نگاہ اس نے وجیہہ کے چہرے پر ڈالی تھی
’’جج جلدی۔۔‘‘اس کے دل میں کھٹکا ہوا۔
’’وہ میں تمہیں کہیں لے کر جانا چاہتا تھا۔۔‘‘وہ آگے بڑھا تو ضرغام کا کندھا وجیہہ کے کندھے سے ٹکرایا ایک ہلکی سی جنبش اس کے وجود میں ہوئی۔اس کے لمس نے وجیہہ میں ایک عجیب سا احساس جنم دیا تھا
’’ٹھیک ہے۔۔‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے اثبات میں سر ہلادیاتو وہ بنا کچھ کہے کمرے سے باہر چلاگیا۔ وجیہہ ایک انجانی سی سوچ میں ڈوب گئی جہاں صرف ضرغام اس کے خیالوں پر حکمرانی کر رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ناول جاری ہے
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 99376 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More