رام راجیہ سے راون راجیہ تک!

گزشتہ تین سالوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمارے ملک میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے،پھر رہی سہی کسر یوگی حکومت کے آنے کے بعد پوری ہوچکی ہے، ان تین سالوں میں ملک کے عوام کو ایسے عجيب و غریب خواب دکھائے گئے جس پر عوام نے یقین کرکے ان پر اعتماد کیا لیکن برسراقتدار حکومت نے سر عام اُن باتوں کا اپنے قول وفعل سے انکار کردیا ۔لیکن عوام کو اس سے فرق نہیں پڑا ہے، نوٹ بندی میں سو سے زائد لوگ اپنے کمائے ہوئے پیسہ حاصل کرنے کیلئے اس دنیا سے لائن میں کھڑے کھڑے چلے گئے،لیکن کوئی واویلا نہیں مچایا گیا کیونکہ ہمارے ملک کی میڈیا کو اس بات سے کوئی پبلسٹی نہیں ملنے والی تھی،پٹھان کوٹ حملہ،اڑی حملہ اور پھر نکسلیوں کا تابڑ توڑ حملہ یہ ایسے واقعات تھے جن سے پورا ملک لرز اٹھا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا پھر ملک میں یکے بعد دیگرے بے قصوروں کا انکائونٹر گئو ہتیا کے نام پر قتل، جبراً عصمت دری اور قتل ہوئے لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ لوگ جان گئے ہندوستان سے جمہوریت کا جنازہ بس اب اُٹھا تب اُٹھا۔ آئے دن ملک کے طول و عرض میں جنونی بھیڑیں کسی بھی راہ چلتے مسافر کو قتل کردیتی ہے ، اس سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے ، کوئی ایسا نہیں ہے جو ان منظم ہندو دہشت گردوں کی غیر قانونی بھیڑ کو قابو میں کرسکے البتہ جن لوگوں نے کچھ حد تک کوشش کی ہے ا ن کا بھی تبادلہ کردیا گیا ہے،جھار کھنڈ،یوپی، چھتیس گڑھ اور ایم پی کے علاوہ بھی کئی صوبوں میں یہ حادثہ ہوئے ہیں لیکن موجودہ حکومت کی زمام اقتدار سنبھالے ہوئے قائد پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی کو فرق پڑا تو وہ مانچسٹر میں ہوئے دھماکہ سے پڑا، جس کی تعزیت کیلئے مودی جی نے فوری طور پر ٹویٹ کرکے اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے،کیونکہ یہ لوگ مہذب دنیا کے رہنے والے تھے،ان کا شمار دنیا کے شریف ترین لوگوں میں ہوتا ہے اسلئے ہمارے وزیر اعظم صاحب کو فرق پڑا ہے، مگر ہمارے ملک میں جتنے بھی حادثہ ہوئے ہیں ا ن کو انجام دینے والے کسی نہ کسی طرح بی جے پی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں لیکن ان حادثوں کی نذرہونے والے افراد کا تعلق اقلیت کے داغ سہنے پر مجبور مسلم کمیونٹی سے تھا یا پھر برہمنوں کے نزدیک ازلی اچھوت دلت کمیونٹی سے ہے اور یہ دونوں ہندوستان کی وہ قوم ہے جسے اب ملک کے دوسرے درجہ کا شہری تصور کیا جانے لگا ہے ۔

گزشتہ تین سالوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمارے ملک میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے،پھر رہی سہی کسر یوگی حکومت کے آنے کے بعد پوری ہوچکی ہے، ان تین سالوں میں ملک کے عوام کو ایسے عجيب و غریب خواب دکھائے گئے جس پر عوام نے یقین کرکے ان پر اعتماد کیا لیکن برسراقتدار حکومت نے سر عام اُن باتوں کا اپنے قول وفعل سے انکار کردیا ۔لیکن عوام کو اس سے فرق نہیں پڑا ہے، نوٹ بندی میں سو سے زائد لوگ اپنے کمائے ہوئے پیسہ حاصل کرنے کیلئے اس دنیا سے لائن میں کھڑے کھڑے چلے گئے،لیکن کوئی واویلا نہیں مچایا گیا کیونکہ ہمارے ملک کی میڈیا کو اس بات سے کوئی پبلسٹی نہیں ملنے والی تھی،پٹھان کوٹ حملہ،اڑی حملہ اور پھر نکسلیوں کا تابڑ توڑ حملہ یہ ایسے واقعات تھے جن سے پورا ملک لرز اٹھا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا پھر ملک میں یکے بعد دیگرے بے قصوروں کا انکائونٹر گئو ہتیا کے نام پر قتل، جبراً عصمت دری اور قتل ہوئے لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ لوگ جان گئے ہندوستان سے جمہوریت کا جنازہ بس اب اُٹھا تب اُٹھا۔ آئے دن ملک کے طول و عرض میں جنونی بھیڑیں کسی بھی راہ چلتے مسافر کو قتل کردیتی ہے ، اس سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے ، کوئی ایسا نہیں ہے جو ان منظم ہندو دہشت گردوں کی غیر قانونی بھیڑ کو قابو میں کرسکے البتہ جن لوگوں نے کچھ حد تک کوشش کی ہے ا ن کا بھی تبادلہ کردیا گیا ہے،جھار کھنڈ،یوپی، چھتیس گڑھ اور ایم پی کے علاوہ بھی کئی صوبوں میں یہ حادثہ ہوئے ہیں لیکن موجودہ حکومت کی زمام اقتدار سنبھالے ہوئے قائد پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی کو فرق پڑا تو وہ مانچسٹر میں ہوئے دھماکہ سے پڑا، جس کی تعزیت کیلئے مودی جی نے فوری طور پر ٹویٹ کرکے اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے،کیونکہ یہ لوگ مہذب دنیا کے رہنے والے تھے،ان کا شمار دنیا کے شریف ترین لوگوں میں ہوتا ہے اسلئے ہمارے وزیر اعظم صاحب کو فرق پڑا ہے، مگر ہمارے ملک میں جتنے بھی حادثہ ہوئے ہیں ا ن کو انجام دینے والے کسی نہ کسی طرح بی جے پی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں لیکن ان حادثوں کی نذرہونے والے افراد کا تعلق اقلیت کے داغ سہنے پر مجبور مسلم کمیونٹی سے تھا یا پھر برہمنوں کے نزدیک ازلی اچھوت دلت کمیونٹی سے ہے اور یہ دونوں ہندوستان کی وہ قوم ہے جسے اب ملک کے دوسرے درجہ کا شہری تصور کیا جانے لگا ہے ۔

سہارنپور میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ حکومت کی نااہلی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ لیکن دلت اور مسلم پر ہورہے مظالم کے سہنے میں فرق ہے دلتوں پر جب کوئی آنچ آتی ہے تو وہ سراپا احتجاج بن کر دلتوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ لیکن وہیں جب کسی مسلم کمیونٹی پر ظلم ہوتا ہے تو مسلمان نہ متحد ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے اوپر ہورہے مظالم کے خلاف آواز صحیح ڈھنگ سے آواز اُٹھا پاتے ہیں ۔ دلت۔ مسلم پر مظالم کا سلسلہ اب دراز ہوتا جارہا ہے ۔ ہر دن کسی دلت کنواری اور مسلم دوشیزائوں کی عصمتوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنایاجارہا ہے ۔ دنیا میں تیسرے نمبر پر عصمت دری کے واقعات اس ملک میں رونما ہورہے ہیں ۔ مرکزی حکومت عورتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی لڑائی لڑرہی ہے لیکن ان ہی کی حکومت میں عہدوں پر براجمان لیڈران، کارکنان، پولس اہلکاران سرعام ناریوں کی عصمتیں تار تار کررہے ہیں ۔ انہیں دھمکا رہے ہیں یوگی حکومت جب آئی تو کہا گیا کہ ہندوستان میں رام راجیہ کا احیاء ہوگا سوال پیدا ہوتا ہے کیا رام راجیہ میں یہی سب ہوا کرتا تھا؟ اگر یہ سب ہوا کرتا تھا، تو پھر راون راجیہ میں کیا ہوتا تھا،کیوں راون راجیہ کو داغدار کہا جاتا ہے ،عورتوں پر ظلم اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کا تازہ ترین واقعہ بجنور کا ہے جب ایک پولس والا جسے عرف عام میں رکھشک کہا جاتا ہے جسے عوام اپنا ٹیکس نکال کر تنخواہ اس لئے دیتی ہے تاکہ وہ بوقت ضرورت اُن کی مدد کرسکے، مگر پولس کی وردی میں ملبوس شخص نے ٹرین میں سوار ایک مسلم روزے دار عورت کی عصمت دری کردی ، اور اب حال تو یہ ہے پولس اس زانی کو بچانے کے لیے متاثرہ کے اہل خانہ پر دبائو ڈال رہی ہے انہیں روپیے پیسے کا لالچ دے کر انہیں بیان تک بدلوانے پر مجبور کردیا۔اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی پورا میڈیا خاموش ہے، کیوں کہ متاثرہ مسلم ہے لیکن وہیں جب ۱۴؍ ناخلف نام نہاد مسلمان نے ایک دلت دوشیزہ کے ساتھ چھیڑ خانی کی تو پورا ملکی میڈیا یک جٹ ہوکر مسلمان اور اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آخر یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟ جس طرح دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح زانیوں کا بھی کوئی مذہب نہیں ہے اسلام کی تعلیمات ہی نہیں کہ وہ کسی عورت کے ساتھ دست درازی کی اجازت دے اسلام نے تو عورتوں کو وہ مقام عطا کیا ہے جس کا تصور دنیا کے کسی مذہب اور تہذیب میں بھی نہیں ہے، اسلام میں جو ایسا فعل قبیح کرتا ہے اسے سخت سے سخت ترین سزا دینے کا حکم ہے اس حکم پر بھی لوگ انگلی اُٹھاتے ہیں لیکن اس کے پس منظر میں دیکھیں آج اگر ہندوستان میں کسی زانی کو سرعام اگر وہ شادی شدہ ہے تو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیں اور اگر غیر شادی شدہ ہے تو اسی کوڑے مارے جائیں پھر دیکھیں ہندوستان میں عصمت دری کی کتنی وارداتیں رونما ہوتی ہیں ۔ جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ عام ہے وہاں کی شرح عصمت دری اور ہندوستان کی شرح عصمت دری کا موازنہ کرلیں آپ کو معلوم پڑ جائے گا لیکن نہیں ایسا کیوں کر ہونا ہے۔ انہیں تو مسلمانوں کی عزتوں کو سرعام نیلام کرنا ہے انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا ناہے انہیں بے روزگاری کے غار میں دھکیلنا ہے، انہیں ہر طرح سے مفلوج کردینا ہے تاکہ وہ ازلی غلامی میں رہیں اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کا بھی نہ سوچ پائیں ۔ خیر بات چل رہی تھی بجنور عصمت دری واقعہ کی آج نیوز چینل پر بات ہورہی ہے مسلم عورتوں کو انصاف دلا نے کی،تین طلاق کو ختم کرنے کی، لیکن ایک روزہ دار مسلم خاتون کی عصمت دری ہوئی ہے اور سب خاموش ہیں ، سب کی زبان گنگ ہے،کہاں گئے وہ محسنین جن سے مسلم عورتوں کا دکھ دیکھا نہیں جارہا تھا،اب کیوں ہر طرف سناٹا ہے ۔ یہ تو ہونا ہی تھا اب اس ملک میں انصاف کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن انصاف مل جائے اس بات کی توقع فضول ہے ۔

ملک میں پھر سے برہمنی قانون لاگو کردیا گیا ہے،اب دلتوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی اچھوت ہوگئے ہیں ،اب برہمن کی بستی میں دلت اور مسلمان کا گزارہ نہیں ہوسکتا ہے،راجپوت کے لڑکے کے ساتھ کسی دلت کا بچہ برابری میں بیٹھ نہیں سکتا ہے اگر دھوکہ سے کسی نے ایسی غلطی کردی تو پھر اس کے کان اور بدن پر سیسہ پگھلا کر انڈیل دیا جائے گا کیوں کہ یہی تو قانون کہتا ہے اور شاید یہی رام راجیہ ہے۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69267 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.