سزائے موت

ہمارے ہاں چور اور سادھ کا جو یکساں سٹیٹس ہے ۔اس نے ہمیں کنویں کا مینڈک بنا رکھا ہے۔یہاں جس کو مرضی چورکہ دو۔اور جس کو چاہے بے گناہ ۔ہرطرح کی گنجائش باقی ہے۔کبھی کبھی ایسی مضحکہ خیز صورت بنی کہ جس شخص کوچور کہا گیا۔اسے ملک کا وزیر اعظم یا صدر بنتے دیکھا گیا۔اسی طرح یہ ستم ظریفی بھی دیکھی گئی کہ جس شخص کو عدالتوں نے باعزت اپنے عہدہ(وزارت عظمی)پر بحال کیا جلد ہی اسے کسی دوسرے طریقے سے حکومت سے نکلوا دیاگیا۔اس قدر کنفیوژن ہے کہ چور اور سادھ کا فرق مٹ چکا۔کچھ پتہ نہیں چل رہاکہ کون چور ہے ۔اور کون سادھ ۔دونوں طرف کی دلیلیں وزنی ہیں۔زبردست قسم کی بے یقینی کی صورت حال ہے۔پانامہ معاملہ پرایک واضح تقسیم نظر آئی ہے۔اس معاملے نے ایک لکیر کھینچ رکھی ہے۔کچھ لوگ لکیر کے اس طر ف ہیں۔اور کچھ دوسری طرف ۔ایک دھڑا شریف فیملی کو مجرم ثابت کرنے پر تلا ہواہے۔عمران خاں اس دھڑے کے سربراہ ہیں۔شیخ رشید ۔طاہر القادری ۔ق لیگ اور کچھ دوسرے کچھ لوگ عمران خاں کے ہمرکاب ہیں۔یہ اس حد تک آگے نکل آئے ہیں ۔کہ اگر پیچھے ہٹیں تو صاف طور پر جھوٹے پڑیں گے۔لکیر کے دوسری طرف کچھ لوگ اس فیملی کو بے گناہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔یہ بھی تما م تر زور لگانے کی کوشش مین ہیں۔دونوں طرف سے اس بلا کی بیان بازی اور رنگ بازی کی گئی ہے۔کہ کسی بھی فریق کو اب پیچھے ہٹنا سیاسی موت سے کم نہیں ۔چور اور سادھ کے تعین کے لیے یہ لکیر بڑی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔قو م اگر ا س لکیر کی بنیاد پر اچھے برے کی تمیز کا فیصلہ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔فریقین میں سے ایک یقینی طور پر جھوٹاہے۔قوم چاہے تو اس جھوٹے کو نشان عبرت بنا کر چور اور سادھ کی مٹتاہوا فرق کو نمایاں کرسکتی ہے۔یہ معاملہ پچھلے ڈیڑھ سال سے قوم او رریاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔تما م تر خرابی حالات کو اس جھوٹے کے سر منڈنے کو جائز اور درست قرار دیا جاسکتاہے۔

پانامہ کیس میں وزیر اعظم کی پیشی غالبا اس معاملے کی ٹاپ سٹوری ہوگی۔اس سے قبل بھی نواز شریف حکومت کو بارہا چیلنج کیا جاتارہاہے۔مگر ایک منتخب وزیر اعظم کی اٹھارہ سکیل کے آفیسر کے آگے پیشی بحیثیت ریاست ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے۔یہ اس شیطانی سوچ کی کامیابی ہے جو یہاں کسی قسم کا استحکام نہیں آنے دینا چاہتی۔جو ہمیں بحیثیت قوم ناکام دیکھنا چاہتی ہے۔اس گروہ کی کمال کامیابی ہے کہ وہ منتخب وزیر اعظم کو جے آئی ٹی میں پیش کرکے ان قوتوں کے منہ پر تمانچہ مارنے میں کامیاب رہے۔جو ملک کو آئن اور قانون کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔جو ملک کو ایک ناکام اور بنانا سٹیٹ کے سٹیٹص سے نکالنے کے خواہشمند ہیں۔ان کی تدبیر ناکام رہی اور بے یقینی اور بے ترتیبی پھیلانے والا گرہ ہ جیت گیا۔وزیر اعظم نے قریبا تین گھنٹے جے آئی ٹی کے روبرو گزارے ۔واپسی پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ا س پیشی سے متعلق بتایا۔ان کے مطابق ملک کے خزانے سے دھیلے کی بھی خورد برد نہیں کی۔فلیٹ یا فیکٹریاں ہمارا ذاتی اور خاندانی معاملہ ہے۔مگر میں نے اس سے متعلق بھی تمام سوالات کے جواب دے دیے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا۔کہ کچھ لوگ کچھ عرصہ سے کٹھ پتلی تماشہ کھیل رہے ہیں۔انہیں کامیابی نہیں مل پائی۔وہ آئندہ بھی نامراد ہونگے۔ایک جے آئی ٹی اور ایک عدالت اگلے سال بھی لگنے والی ہے۔یہ جے آئی ٹی او رعدالت عوام کی ہوگی۔سب نے اس جے آئی ٹی میں پیش ہوناہے۔میں یقین کرتاہوں کہ اس عدالت میں قوم مجھے پہلے سے زیادہ اچھا مینڈیٹ دے گی۔ہم اپنے خلاف سازشوں کامقابلہ کرنا بخوبی جانتے ہیں۔

وزیر اعظم کی پیشی کا ٹاسک پورا ہوگیا۔اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا۔کیاوزیر اعظم کی پیشی کے بعد اس سے بھی کچھ بڑھ کر سوچا جائے گا۔یا ماحول بہتری کی طرف جائے گا۔یہ سوال ایسا ہے جس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔اگر کل کو اپوزیشن چپ بیٹھ جاتی ہے۔تب بھی کچھ طوفان نہیں اٹھے گا۔اور اگر وہ دو قدم آگے آکر سول نافرمانی کی طرف جاتی ہے ۔تو اس کی گنجائش بھی موجود ہے۔کل کیا ہوگا۔کچھ گارنٹی نہیں بے یقینی اور بے ترتیبی کی یہ فضامذید بے یقینی او ربے ترتیبی کو جنم دے رہی ہے۔کیا اس کا کوئی انجام ہے یا نہیں۔جس طرح کی قومی حکمت عملی پر ہم گامزن ہیں اس کا انجام نظرنہیں آتا۔مگر اس طرح کی پریکٹس کا انجام کبھی اچھانہیں ہوا۔ایک جھلک ہم نے سقوط ڈھاکہ کی شکل میں دیکھ لی۔تب بھی ایک پارٹی کا حق حکمرانی ایک کٹھ پتلی تماشے کے ذریعے چھینا گیاتھا۔اب وزیر اعظم پھر سے کٹھ پتلی تماشے کا ذکر کررہے ہیں۔جانے اس کا انجام کیا نکلے گا۔کسی اور برے انجام سے بچنے کے لیے ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ اس سلسلے کو ختم کرنا ہوگا۔اس مشکل کام کے لیے ہم میں سے ہر کسی کو اپنے خوابوں کی دنیا سے باہر آنا ہوگا۔ہمیں احساس کرناپیدا کرنا ہوگا۔کہ ہم جن بتوں کو اپنا خدا بنائے بیٹھے ہیں۔وہ ہمیں ہمارے اصل خدا سے دور کررہے ہیں۔ اس وقت پانامہ کیس ہمارے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔یہ ہمارے لیے نئی صبح کا آغاز ثابت ہوسکتاہے ۔قو م اگر ا س لکیر کو حتمی لکیر تصور کرلے تو ایک ٹرننگ پوائیٹ قائم کیاجاسکتاہے۔قوم صرف یہ کرے کہ سچے کو سپورٹ کرے۔جو فریق جھوٹا ثابت ہو اس کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔ایسا نشان عبرت جو آئندہ کسی کو اس طرح کی پریکٹس کرنے سے باز رکھے۔اس طرح کے مکاروں اور دھوکے بازوں سے چشم پوشی کرکے انہیں ایک نیا گناہ کرنے کی شہ دی جاتی رہی ہے ۔اس بار یہ شہ ختم کرنا ہوگی۔اس شہ کا مستقل خاتمہ ہی نئے پاکستان کی بنیاد رکھے گا۔اور لکیر کے کم از کم ایک طرف والے اتنے ملعون ہیں کہ انہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔قوم اور مملکت کوناکام بنانا غداری ہے۔غداری کی سزاکم ازکم سزائے موت ہونی چاہیے۔دو چار غدار لٹکادینے کے بعد یہ تو باقی توبہ کرلیں گے۔یا کہیں نکل جائیں گے۔پھر چور اور سادھ کا فرق کبھی نہیں دھندلائے گا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.