اسلامی ممالک اختلافات کا شکار کیوں؟

کرہ ارضی پر 1 ارب سے زائد کلمہ گو یعنی مسلمان موجود ہیں۔ دُنیا کی ہر نعمت ان کے پاس موجود ہے۔ موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں ترقی کی ضمانت سمجھی جانے والی پٹرولیم مصنوعات سے اسلامی ممالک مالا مال ہیں۔ افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دُنیا کی بہترین افواج ان کے پاس ہیں۔ وسیع و عریض رقبہ موجود ہے۔ پہاڑ، نباتات، سمندر، دریا، زرخیر زرعی زمین غرض سب کچھ مسلمان ممالک کے پاس ہے مگر اس کے باوجود اسلامی ممالک آپس کے اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں اور یہی ان کی ترقی میں اصل رُکاوٹ ہے۔ اسلامی ممالک کے آپس کے اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اس سے پہلے جب عراق کے سابق صدر صدام حسین (مرحوم) نے جب ایک چھوٹے ملک کویت پر حملہ کیا تھا تو اُس وقت بھی اُمت مسلمہ تقسیم ہوئی تھی۔ کچھ نے صدر صدام حسین کے مؤقف کی حمایت کی تھی اور کچھ نے مخالفت۔ ابھی ایک بار پھر عرب اسلامی ممالک تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ 6 عرب ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن شامل ہیں۔ ان ممالک کا الزام ہے کہ قطر اخوان المسلمون کے علاوہ دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ قطر کی آبادی 27 لاکھ اور رقبہ 11 ہزار 437 مربع کلومیٹر ہے۔ قطری حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے ہمسایہ ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے کہا ہے کہ وہ قطر سے آنے اور جانے والی تمام پروازیں بند کر دیں گے اور قطری فضائی کمپنی قطر ایئر ویز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عرب ممالک کے اختلافات کو ختم کرانے کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں۔ ابھی چند دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بحیثیت صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز سعودی عرب کے ساتھ ساڑھے 300 ارب ڈالر کے معاہدوں سے کیا تھا۔ ان معاہدوں میں 150 ارب ڈالر کا اسلحے سے متعلق معاہدہ بھی شامل ہے جو کہ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ ہے۔ امریکی صدر سعودی عرب کا کامیاب دورہ کرنے کے بعد جب امریکہ پہنچے تو اُنہوں نے پہلا ٹویٹ یہ کیا کہ وہ سعودی عرب سے اتنے زیادہ ڈالر لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اب ہر طرف نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی جبکہ آپ غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ سعودی عرب کے اندر اس وقت سب سے بڑا بحران بے روزگاری بن چکا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی کھلے آسمان کے نیچے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ اس وقت مسلمان ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آپس کے اندرونی اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ایران کی سرحد ہے اور ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات اب مثالی نہیں رہے۔ دُوسری طرف افغانستان ہے تو وہ بھی بھارت کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ ہر روز ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے۔ پاکستان کے جسم سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش ہمارے لیے بھارت سے کم نہیں۔ عربوں کے آپس کے اختلافات سب کے سامنے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب غریب ملکوں کے باشندے عراق، لیبیا مزدوری کے لیے جاتے تھے مگر آج وہی عراق اور لیبیا کھنڈر بن چکا ہے۔ اس وقت مصر، شام اور یمن کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ دُوسری طرف افریقی مسلمان ممالک بھی ایک دُوسرے کے ساتھ دست و گریبان نظر آتے ہیں۔ مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی غیر فعال نظر آتی ہے۔ اسلامی ممالک کے آپس کے اختلافات کا ذمہ دار کون ہے؟ اسلامی ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس اعلیٰ قیادت نہیں ہے، جس طرح کسی دور میں شاہ فیصل (مرحوم) ہوا کرتا تھے۔ اس وقت مسلمان ممالک کی قیادت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہے۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں اُسی طرح اُن کو استعمال کرتے ہیں۔ 50 سے زائد اسلامی ممالک موجود ہیں۔ کاش! یہ ممالک بھی یورپی یونین کی طرز پر ایک اسلامی بلاک بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جہاں پر سفر کرنے کے لیے ویزا کی ضرورت نہ ہوتی۔ ایک دُوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تجارت کو فروغ دیا جاتا۔ ان ممالک کی اپنی ایک نیٹو طرز کی اسلامی فوج ہوتی، ان کے مفادات یکساں ہوتے، یہ ممالک قطعی طور پر ایک دُوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیتے، ان کے فیصلے وائٹ ہاؤس کی بجائے بیت اﷲ میں ہوتے۔ کاش! اب بھی اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو ہوش آجائے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 57106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.