الزامات اور معافیاں

وطن عزیزمیں سیاست اس وقت ایک مقبول کھیل کی حیثیت اختیارکرچکی ہے یہاں چھوٹابڑا،پڑھالکھا انپڑھ، بچہ بزرگ ،مردوخواتین ،لڑکے لڑکیاں اورہررنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ سیاست میں داخل ہوچکے ہیں ان میں سے چاہے کوئی سیاست کوسمجھتاہو یااسے سیاست کی الف ب سے بھی آگاہی نہ ہو مگرسیاست پرتبصرہ کرنااورحکومتی وریاستی معاملات کوزیربحث لانا اپنافرض اولین سمجھاجاتاہے اکثرسیاسی کارکنوں کی تمام سیاست محض اپنے راہنماؤں کی تقاریرتک محدودہوتی ہے سیاسی لیڈرکسی پربھی کوئی بھی الزام لگادیتاہے اور کارکن اسے پھیلاناشروع کردیتا ہے کسی الزام کاکوئی ثبوت ڈھونڈھنے یاپیش کرنے کی ضرورت قطعاً محسوس نہیں کی جاتی اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ آج تک کسی سیاسی جماعت کے سربراہ،لیڈریاکارکن کودوسروں پرغلط اورلغو الزام لگانے پرکوئی سزانہیں ہوئی چاہے کتناہی بڑاالزام لگایاجائے الزام کانشانہ بننے والا اول تو اس کاجواب میڈیاکے ذریعے دیکرخاموشی میں ہی عافیت سمجھ لیتاہے یاپھرہتک عزت وہرجانے کانوٹس دیاجاتاہے الزام لگانے والا معافی مانگ لیتاہے اوربات ختم ہوجاتی ہے جب سے عمران خان سیاست میں سرگرم ہوئے ہیں تب سے اس سلسلے میں بے انتہاتیزی آچکی ہے آئے روزکسی نہ کسی سیاسی راہنمایاکارکن ،صحافی یاسرکاری افسرپرکوئی بھی الزام لگ جاتاہے اگرملزم نے خاموشی اختیارکرلی توبات آئی گئی ہوجاتی ہے ورنہ اگرکوئی عدالت کادروازہ کھٹکھٹانے تک چلاجاتاہے تو اس سے معافی مانگ کرمسئلہ رفع دفع کرادیاجاتاہے خان صاحب کی جانب سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارچوہدری پر2013ء کے الیکشنزمیں دھاندلی کاالزام لگایاگیاچوہدری صاحب نے خان صاحب کو ہتک عزت کانوٹس دیا خان صاحب کے وکیل نے عدالت میں معافی طلب کرلی اوربات ختم ، اسی طرح عمران خان کی جانب سے سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اورمعروف صحافی نجم سیٹھی پر35پنکچرزکے حوالے سے الزامات لگائے گئے اوریہ الزامات اس قدر تواترسے دہرائے گئے کہ نجم سیٹھی کوعدالت تک جاناپڑاعمران خان نے 35 پنکچروالے بیان کوسیاسی بیان قراردیکراس سے بریت کااظہارکیاعدالت یاکسی اورکویہ پوچھنے تک کی توفیق نہیں ہوئی کہ دوسال تک 35 پنکچروں والے بیان سے لوگوں کاخون خشک کرنے کے بعداسے سیاسی بیان قراردیناکہاں کی سیاست ہے اورکس دنیاکا سیاسی بیان؟ یا دنیاکے کس سیاست میں سابق اعلیٰ عہدیداروں پرجھوٹے الزامات لگاکراس سے مکرجانے کارواج موجودہے؟ اسی طرح خیبرپختونخواسے تعلق رکھنے والے قومی وطن پارٹی کے دووزراء کوکرپشن الزامات کے تحت برطرف کردیاگیاان میں سے ایک وزیربخت بیدارخان جوکہ ایک پرانے اورروایتی سیاستدان ہیں اور1988ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرایم پی اے منتخب ہوئے تھے بخت بیداراپنے علاقے میں اچھی شہرت کے حامل سیاستدان کے طورپرجانے جاتے ہیں ان کاتعلق متوسط طبقے سے ہے ناہی وہ کوئی بڑے خان ہیں اورناہی نواب ایک عام سیاسی کارکن ہیں آجکل قومی وطن پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری جیسے اعلیٰ عہدے پرفائزہیں انہوں نے عمران خان کی جانب سے کرپشن الزامات کے خلاف عدالت جانے کافیصلہ کیادوسال تک کیس عدالت میں چلتارہااس دوران عمران خان کسی تاریخ پرعدالت میں پیش نہیں ہوئے ناہی انہوں نے بخت بیدارپرلگائے گئے الزامات کاکوئی ثبوت یاجواب عدالت میں پیش کیاآخرکارسپیکراسدقیصرکی سربراہی میں صوبائی کابینہ کے چارارکان کے ایک جرگے نے بخت بیدارسے کیس واپس لینے کیلئے درخواست کی ان سے معافی مانگی گئی اوربخت بیدارکوجرگے کی روایت کااحترام کرتے ہوئے کیس واپس لیناپڑا،پی ٹی آئی کے آفیشل ترجمان نعیم الحق کی جانب سے ایک ٹی وی انٹرویومیں سابق آرمی چیف اشفاق پرویزکیانی پر2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کاالزام لگایاگیایہ الزام ناصرف لگایاگیابلکہ بارباردہرایابھی گیامگرجب احساس ہواکہ فوج کو الزاماتی سیاست میں گھسیٹنے کے کیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں تودوسرے ہی دن نعیم الحق کی جانب سے یہ کہہ کرمعافی مانگناپڑی کہ میرے الفاظ کوسیاق وسباق سے ہٹ کررپورٹ کیاگیاحالانکہ یہ پروگرام لائیو نشرہواتھااوراس میں سیاق وسباق سے ہٹ کرپیش کرنے والی کوئی بات ہی نہیں تھی آج بھی اگر اس پروگرام کی ریکارڈنگ دیکھی جائے تو واضح طورپرنعیم الحق صاحب سابق آرمی چیف کومطعون فرمارہے ہیں ،اسی طرح وزیراعظم کے حالیہ دورۂ چین کے حوالے سے ایک فوٹو سوشل میڈیاپرآئی جس میں ڈان لیکس کے معتوب طارق فاطمی بھی موجودتھے یہ فوٹو حالانکہ گزشتہ دورے کی تھی مگرپی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق نے فوراً بیان داغ دیاکہ طارق فاطمی جب برطرف ہوچکے ہیں توچین کے دورے میں کیسے موجودہیں اسی پربس نہیں کیاگیابلکہ شیریں مزاری صاحبہ نے بھی حکومت کومطعون کرناضروری سمجھا بات یہاں بھی نہیں رکی شاہ محمودقریشی صاحب نے قومی اسمبلی میں اس بات پراچھاخاصاشورمچایاکہ طارق فاطمی کس حیثیت سے دورۂ چین پرگئے ہیں جب حقیقت حال کاعلم ہواکہ سوشل میڈیاپرغیرتصدیق شدہ فوٹو چھ ماہ پرانی ہے توآسمان سرپراٹھانے والوں کے پاس بغلیں جھانکنے کے سواکوئی چارہ نہیں تھااوردوسرے دن پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق صاحب میڈیاکے سامنے شرمساری کی کیفیت میں اپنابیان واپس لینے پرمجبورہوئے الزامات لگاناپگڑیاں اورعزتیں اچھالنا اوربعدمیں معافیاں مانگناکہاں کی سیاست ہے؟ اوراس قسم کی فضول سیاست سے اب تک اس ملک کوکونسے فوائدملے ہیں اس طرزسیاست سے ملک کی کونسی خدمت ہورہی ہے سوائے اسکے کہ اب تک سیاست میں شرافت تھی، لوگ ایک دوسرے کوعزت دیتے تھے، فضول اورلغوالزامات کاکوئی رواج نہ تھا،اگرکوئی اس قسم کالغو الزام لگابھی دیتاتواسے شرمساری کاسامناکرناپڑتاتھامگراب سیاست میں ایک نئی روایت ٹھونسی گئی ہے کہ الزام لگایاجاتاہے، اسے دہرایاجاتاہے، ملزم کی عزت کوڑی برابرہوجاتی ہے ،اسے صفائی کاکوئی موقع نہیں دیاجاتا، ذہنی اذیت سے دوچارکیاجاتاہے، پاک صاف شہرت کے حامل لوگوں کے اجلے دامن داغدارکئے جاتے ہیں مگرکوئی شرمساری نہیں ،کوئی شرمندگی نہیں یہ طرزِسیاست معاشرے کیلئے ناسوربن چکاہے کسی عزت دارآدمی کی عزت محفوظ نہیں ،کوئی صحافی کسی سیاستدان سے اختلاف کرتاہے تواسے فوراً لفافہ صحافی کاخطاب مل جاتاہے چاہے اس صحافی نے ساری زندگی صحافت سے ایک روپیہ بھی نہ کمایاہو کوئی بھی ،کسی پربھی، کسی بھی قسم کاالزام لگادیتاہے انہی لغوالزامات سے معاشرہ انتہاپسندی کی جانب راغب ہورہاہے اب توالزامات پرسرعام قتل کرنے کی روایت بھی اپنائی جاچکی ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں رواداری،برداشت،تدبراور شرافت کی سیاست کوفروغ دیاجائے ،دوسروں کی عزت کواپنی عزت سمجھاجائے ،لغوالزامات لگانے والوں کیلئے قانون سازی کے ذریعے سزائیں تجویزکی جائیں تاکہ سرعام جھوٹے الزامات اوربندکمروں میں معافیوں کے اس نارواسلسلے کی روک تھام ہو سکے۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51970 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.