دہشت گردی کی گنگا

افغان باڈر پولیس نے ایف سی جوانوں پر فائرنگ ۔ افغانستان کے وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ منسوخ کردیا اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان خطے میں امن نہیں چاہتا ۔۔ پاک سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوئ ۔احسان اللہ احسان کے انٹرویو کے میں بہت سے انکشافات ہوئے ہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف مدد کر رہا ہے ۔یہ سب را نے سپانسر کیا ہے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے یہ بات سب جانتے ہیں مگر بھارت کو پھر بھی شرم نہیں آتی اور افغانستان کی غیرت شاید مرگئی ہے ۔۔ ورنہ وہ عورتوں اور بچوں کو کبھی نشانہ نہ بناتے ۔ مردم شماری کا عملہ پاکستان کے علاقے میں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں ڈیوٹی دے رہا تھا -

بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو خطے میں امن ہوگا ۔۔ کئی سال میں پاکستان نے پوری دنیا سے زیادہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشش کی ہے ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف کام اپنی قومی سلامتی کے لیے کر رہا ہے ۔ پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا ۔ مگر افغانستان کو چاہیے کہ ہوش کے ناخون لے ۔ پاکستان مردم شماری بھی اسی وجہ سے کر رہا ہے کہ دہشت گردی سے نپٹا جا سکے اور افغانستان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے وہ ہمارے معصوم شہریوں اور فوجی جوانوں کو شہید کر رہا ہے ۔ وہ بھی پاکستانی حدود میں مردم شماری کرنے کے دوران ۔۔ افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں بدامنی پھیلا رہے ہیں ۔ پاکستان نے باڈر پر گیٹ اسی لیے بنایا تھا تاکہ تلاشی اور ویزہ کے بعد ہی لوگ ادھر ادھر جاسکیں اور سکیورٹی صورتحال بہتر ہو ۔ باڈر بھی اسی لیے بنایا تھا تاکہ حالات پرامن ہوں اور دونوں اطراف کے شہری محفوظ ہوں ۔۔ پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے کی بھارت کی کوششیں زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتیں ۔۔ کیونکہ پاکستان افغانستان کا خیر خواہ اور دوست ملک ہے ۔۔ مگر یہ بات افغانستان کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بگاڑنے کی بھارت کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔بھارت کی کوششوں سے افغانستان کا پاکستان سے رشتہ خراب نہیں ہو گا ۔ دہشت گردی علاقائی مسئلہ ہے ہر ملک اپنی قومی حکمت عملی کے تحت اس کے انسداد کیلئے کوششیں کررہا ہے ۔۔ پاکستان نے بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں ۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن ہو خطے میں امن ہو ۔۔ تاکہ ترقی کی نئی راہیں کھلیں ۔۔ جبکہ آج افغان پولیس کی معوصوم شہریوں اور نہتے مردم شماری کرنے والے فوجیوں پر فائرنگ ناقابل برداشت اور افسوسناک ہے ۔۔ مثبت اقدامات پر توجہ دی جائے ۔ تمام حل طلب مسائل کا پرامن حل ہی علاقائی تعاون کو بہتر بنائے گا ۔۔ افغانستان بھارت کی چالوں کو سمجھے اور اپنی زمین پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے ۔ پاکستان نے گذشتہ تین دہائیوں میں لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے ۔

جب تک سہولت کاروں کو منہ توڑ جواب نہیں دیا جاتا تب تک دہشت گردی پر قابو پانا مشکل ہے اور سب جانتے ہیں کہ سہولت کر بھی ہمسایہ ملک ہی ہے ۔ کل بھوشن یادو نے بھی قبول کیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت دے کر پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔

افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان کا دورہ مسترد کرنا اور باڈر پر معصوم لوگوں پر فائرنگ کرنا سب ایک سوچی سمجھی سازش تھی ۔۔ افغان فورسز کا مردم شماری کے عملہ پر حملہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں کون امن چاہتا ہے اور کون بھارت کے ہاتھوں دہشت گردی پھیلا رہا ہے ۔۔ افغانیوں کو وہ وقت نہیں بھولنا چاہیے جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا پاکستان نے افغانستان کا ساتھ دیا تھا افغانیوں کو پاکستان میں پناہ دی ، کاروبار کی اجازت دی ، نوکریاں دی اور افغانیوں تم بھارت کے ساتھ مل کر حملہ کرتے ہو پاکستان اور پاکستانیوں کو نقصان پہنچاتے ہو کچھ تو غیرت ہونی چاہیے ۔۔ افغانستان نے اپنے فوجی بھی مروائے اور ہمارے پشتون بھائیوں کا بھی نقصان کیا ۔ مگر اس سب سے حاصل کیا ہوا ؟

چند پیسوں کی خاطر مسلمان اور اپنے محسن بھائیوں کا خون بہایا ۔۔ عورتوں اور بچوں پر حملہ تو افغان قوم کی غیرت کے خلاف ہے مگر بھارتی ایسا ضرور کرتے ہیں کیونکہ عادت سے مجبور ہیں ۔۔ شرم کرو افغانیوں بھارتیوں کو اپنی صفوں میں گھسنے مت دو ۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات یوں تو کبھی بھی مثالی نہیں رہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے ان تعلقات میں بڑھتی کشیدگی کے باعث انہیں کسی بھی طور پر برادرانہ نہیں کہا جا سکتا، یہ صورتحال دونوں ملکوں کے عوام اور خطے کے مستقبل کے لیے قطعی طور پر خوش آئیند نہیں۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کے پارلیمانی وفد کی جانب سے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی مسترد کر دی ہے۔ افغان صدر کا یہ غیر لچکدار رویہ کسی بھی طرح قابل تحسین نہیں،اس رویے کی بنیاد جو عوامل ہیں وہ بھی کسی سے بھی مخفی نہیں۔ اس پس منظر میں ہماری افغان پالیسی پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان معاملات کو محض دو طرفہ معاملات قرار دینا کوئی دانشمندی نہیں۔ پاکستان کی دشمن قوتیں سال ہا سال سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔مستقبل میں اس عمل کو روکنے کے حوالے سے ہمیں چین،ایران ، وسط ایشیا اور دیگر ریاستوں کی معاونت حاصل کرنی چاہئیے۔ پاکستان میں امن کے قیام، اقتصادی ترقی اور سی پیک کو کامیاب بنانے کے لیے بھی ہمیں افغان سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔ اس حوالے سے یقینا ہماری وزارت خارجہ نے کوئی نہ کوئی حکمت عملی اختیار کی ہو گی لیکن بد قسمتی سے ہماری سیاسی قیادت کنویں کے مینڈک کی طرح نہ تو" اپنی دنیا" سے باہر نکل رہی ہے اور نہ ہی بلی کو دیکھ کر آنکھیں کھول رہی ہے۔

فروری 2017ء میں پاکستان نے افغان حکام کو ایک فہرست حوالے کیا جس میں اُن تمام دشت گردوں کے نام تھے جو وہاں پر موجود ہے اور سرحد کے اُس پار سے یہاں کاروائیاں کرتے ہیں ۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی اور عالمی سازشوں کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان نے مسلسل اقدامات اور بیش بہا قربانیوں کے بعد دہشت گردی کے عفریت پرکافی حدتک قابوپالیا ہے تاہم افغانستان مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔۔ افغان فورسز دہشت گردوں کی ان بڑھتی کارروائیوں پر قابو پانے میں کلی طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہیں ۔

افغانستان اس وقت بدامنی اور لاقانونیت کا ایسا گندہ تالاب بن چکا ہے جس میں دہشت گردی کی ہر قسم اور نوع کی گندی مچھلی پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دہشت گردی کی اس بہتی گنگا میں بہت سی پوشیدہ قوتیں بھی اپنے اپنے ہاتھ دھو رہی ہیں۔ خاص طور پر بھارت اس سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے افغان حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کو رام کر رکھا ہے اور پاک افغان تعلقات میں گہری خلیج پیدا کرنے کے لیے انہیں مسلسل اکسا رہا ہے۔ بھارت کی ان سازشوں کی وجہ سے پاک افغان تعلقات کشیدگی کا شکار ہوتے چلے گئے ،۔۔

افغانستان میں موجود بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں نہ صرف یہ کہ تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل اور پاکستان میں موجود اپنے ملک دشمن ایجنٹوں کو فنڈز اور اسلحہ فراہم کررہی ہیں بلکہ وہ افغان اور مقامی دہشت گردوں کو بھی ان اہداف کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں وہ آسانی سے ضرب لگاسکتے ہوں۔اسی پر بس نہیں بلکہ یہ ایجنسیاں بعض اوقات پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے خود افغانستان میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے فنڈ اور سہولتیں فراہم کرتی ہیں اور ان واقعات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پاک افغان تعلقات میں بگاڑ پیدا کررہی ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔۔

بھارتی رہنماؤں نے کمال مہارت اور چالاکی سے افغان حکومت کوترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مدد کی فراہمی کے بعض معاہدوں کے ذریعے یہ باور کرادیا ہے کہ اس خطے میں بھارت ہی ان کا حقیقی دوست اور ہمدرد ہوسکتاہے، اور افغان رہنماؤں نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جال میں پھنس کر پاکستان کی جانب سے ہر آڑے وقت افغان عوام اور حکومت کی لامحدود حمایت اور امداد کو نظر انداز کرکے بھارت کی ہاں میں ہاں ملانا یعنی بھارت کی ڈگڈگی پر ناچنا شروع کردیاہے اوراس طرح افغانستان مکمل طورپر بھارت کی ایک کالونی بن کر رہ گیاہے جس کے تمام معاملات پس پردہ رہ کر بھارتی حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیاں چلارہی ہیں۔

افغانستان میں موجود بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ان سرگرمیوں سے پتہ چلتاہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے افغانستان کو جنگجو گروپوں کی کارروائیوں اوردہشت گردی کے واقعات سے بچانے میں مدد دینے کے بجائے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اوراپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے خود افغانستان میں بھی نسلی اور لسانی بنیادوں پر منفی پروپگنڈے کو ہوا دے رہاہے اورپاکستان کے صوبے بلوچستان میں لڑنے کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کررہاہے اور افغان انٹیلی ایجنسیاں بھارت کی تابع بن جانے کی وجہ سے اس عمل میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی معاونت کررہی ہیں۔یہی نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود افغان نیشنل آرمی کے بعض کمانڈرز اور بعض افغان ارکان پارلیمنٹ طالبان، داعش اور دیگر برسرپیکار دہشت گردوں کو اپنی پر تعیش گاڑیوں میں بٹھاکر ان کے مطلوبہ مقامات پر پہنچانے کافریضہ بھی انجام دیتے نظر آتے ہیں ۔۔


بھارتی گود میں بیٹھ کر افغان قیادت یہ تک بھول گئی کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے افغان عوام کی میزبانی کرتا رہا ہے جن کی بہت بڑی تعداد آج بھی پاکستان میں موجود ہے اور عام شہریوں جیسے حقوق سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ اس کو یہ بھی احساس نہ رہا کہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پاکستان مسائل کی چکی میں پس رہا ہے۔ ہر شعبے پرایک منفی اثر پڑا۔ وسائل اور معیشت کی بدحالی تو ایک طرف بدامنی ، کلاشنکوف کلچر اور منشیات نے ہمارے معاشرے کو ایسا جکڑا کہ آج تک ہم اس سے جان نہیں چھڑا سکے ہیں۔پاکستان پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی افغانستان محفوظ پناہ گاہ کا کردار ادا کررہا ہے ۔ پاکستان نے متعدد مرتبہ ان کے بارے میں افغان قیادت کو آگاہ کیا مگر ان کی سردمہری پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔یہ طرز عمل دہشت گردی کے خلاف مجموعی کوششوں کے لئے زہرقاتل ثابت ہوا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان قیادت تیسری قوت کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے پاکستان کی پرخلوص کوششوں کا مثبت جواب دے۔اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان اس کا اہم ترین ہمسایہ ہے،اس کے خلاف کسی تیسری قوت کے مفادات کی تکمیل خود اس کے وجود کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔پاکستان دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے ۔ اس ضمن میں اس کے ٹھوس اقدامات اور کارروائیاں اس کے اخلاص کا واضح اظہار کررہی ہیں۔ پاک افغان بارڈر کو منظم کرنے کے حوالے سے بھی پر وہ عزم ہے اور بہت جلد اسے بھی مکمل طور پر محفوظ بنا دیا جائے گا ۔۔ پاک افغان تعلقات کے ساتھ بہت سے عوامل جوڑے ہوئے ہیں جس کا براہ راست تعلق نہ صرف دونوں ممالک کے عوام پر بلکہ اس خطے میں دوسرے ہمسایہ ملکوں پربھی ہوگا۔ برادر اسلامی ممالک پاکستان اور افغانستان کواپنے مسائل باہم ملکر حل کرنا چاہئے اور اگر ضرورت محسوس ہو تودیگر مسلم ممالک سے مدد لینی چاہئیے ۔ اسی میں دونوں اسلامی ملکوں کی بہتری ہے۔

Raja Muneeb
About the Author: Raja Muneeb Read More Articles by Raja Muneeb: 21 Articles with 25710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.