بھارتی مظالم کشمیری نوجوانوں کو مشن سے ہٹا نہ سکے

مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند کشمیریوں پر بھارتی افواج کی جانب سے سرعام تشدد کے واقعات میں نمایاں تیزی آنے کے بعد پوری وادی میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔گزشتہ برس جولائی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے قابض بھارتی فوج وادی میں انسانیت سوز مظالم ڈھارہی ہے اوراب تک بھارتی فوج کے ہاتھوں سیکڑوں کشمیری شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں، جب کہ قابض فوج کے مظاہرین پر پیلٹ گن کے استعمال سے سیکڑوں کشمیری بصارت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ بھارت نے کشمیری عوام میں جدوجہد آزادی کی روح سرے سے ختم کرنے کے لیے کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور شہید کیے جانے والوں میں بڑی تعداد اْن بے قصور افراد کی ہے، جو کسی بھی عسکری تحریک سے وابستہ نہیں تھے، بلکہ ان کا قصور فقط ان کا کشمیری ہونا تھا۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے ضلع بڈگام میں دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام کے علاقے حیات پورا میں قابض بھارتی فوج نے سرچ آپریشن کا بہانہ بنا کر علاقے کا محاصرہ کیا۔ اہلکاروں نے مقامی لوگوں کو مارنا پیٹنا شروع کردیا، جب کہ قابض فوج نے جعلی مقابلہ ظاہر کر کے 2 نوجوانوں کو فائرنگ کر کے شہید کردیا۔ اس سے پہلے چند روز قبل بھی سات کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا تھا۔ بھارتی پولیس نے اس واقعے کے بعد اس پر احتجاج کرنے والے مظاہرین پر آنسوگیس کے گولے پھینکے اور ربڑ کی گولیاں چلائیں، جس سے مزید کئی افراد زخمی ہوئے۔ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں، جس میں بے قصور کشمیری نوجوانوں پر مختلف جھوٹے الزامات عاید کرکے انہیں حراستی مراکز میں بند کردیا جاتا ہے اور پھر انہیں یا تو تشدد کرکے شہید کردیا جاتا ہے یا پھر انہیں تاحیات انہی جیلوں میں بند رکھ کر ناکارہ بنا دیا جاتا ہے، تاکہ ان میں سے کوئی بھی بھارتی مظالم کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کرسکے اور نہ ہی اپنی آزادی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکے۔ چند روز قبل بھارتی فوج کی جانب سے حریت پسند ایک کشمیری نوجوان کو جیپ کے آگے باندھ کر گھمانے کے بعد کشمیری نوجوانوں پر سرعام تشدد پر مبنی دو مزید ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ ایک ویڈیو میں چار بھارتی فوجی کشمیری نوجوان کو بیچ سڑک بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، ایک فوجی اسے ڈنڈے مار رہا ہے، جب کہ باقی اس کی ٹانگوں اور گردن پر پاؤں رکھے اسے قابو کیے ہوئے ہیں، نوجوان درد کی شدت سے چلا رہا ہے، مگر بے حس اور سفاک فوجی پروا کیے بغیر اس پر ڈنڈے برساتا رہا۔ دوسری ویڈیو میں بھارتی فوجی چند کشمیری نوجوانوں پر تشدد کر رہے اور انھیں پاکستان مخالف نعرے لگانے پر مجبور کر رہے ہیں، تھپڑوں اور ڈنڈوں سے پیٹنے کے ساتھ ان نہتے کشمیریوں کو برا بھلا بھی کہا جا رہا ہے۔ ان دو ویڈیوز کے سامنے آنے پر ہر طرف شدید غم وغصہ پایا گیا، لیکن بین الاقوامی برادری کشمیریوں پر ہونے والے ان مظالم پر چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔

بھارتی فوج کے حملے میں زخمی ہونے والی ایک طالبہ کو ہسپتال پہنچانے کی فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ فوٹو گرافر یسین ڈار بھارتی جارح فوج کے مقابل ڈٹے ہوئے نہتے کشمیری نوجوانوں کے عزم وہمت کی داستان کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کررہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک 8سالہ بچی بھارتی فوج کی سنگ باری کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئی۔ یسین ڈار نے پیشہ وارانہ فرائض ادا کرتے ہوئے اس کی منظر کشی کو محفوظ بنانے کی بجائے کیمرے ایک طرف پھینکا اوربچی کو اْٹھانے کے لیے دیوانہ وار میدان جنگ میں کود پڑا۔ شدید زخمی بچی کو گود میں اْٹھایا اور فوری طبی مدد کے لیے ہسپتال کی طرف بھاگا۔ عینی شاہدین کے مطابق زخمی بچی بھارتی فوج کی سنگ باری سے زخمی ہوئی، ایک سپاہی نے تاک کر اس لڑکی کے سر کو نشانہ بنایا تھا۔ سری نگر اور وادی میں انتخابات کے کامیاب بائیکاٹ کے بعدجارح بھارتی فوج نے شہر اور نواحی علاقوں میں ظلم وبربریت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ عوام کو دبانے کے لیے طاقت کا وحشیانہ اور اندھا دھند استعمال کیاجارہا ہے جس سے اب بچے بھی محفوظ نہیں رہے روزانہ درجنوں بچے آنسو گیس اورربڑ کی گولیوں سے زخمی ہورہے ہیں جبکہ بھارتی فوج نے نیم خود کار غلیلوں سے آزادی کے پروانوں کو نشانہ بنانے کا وحشیانہ کھیل بھی شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے زخمیوں کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی پولیس نے گورنمنٹ ڈگری کالج پلوامہ میں کریک ڈاؤن کیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں طلباء 15اپریل سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے پیر کے روز سرینگر میں پرامن احتجاج کرنے والے طلباء پر فائرنگ، شیلنگ اور لاٹھی چارج کر کے 50 سے زاید طلباء کو زخمی کردیا اور 70 کو گرفتار کر لیا۔ بھارتی فورسز کے مظالم کے خلاف احتجاج درج کرانے کے لیے ایس پی ہائی سیکنڈری سکول کے سینکڑوں طلباء سڑکوں پر نکل آئے اور مولانا آزاد روڈکی طرف مارچ کی کوشش کی۔ انہوں نے بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے بلند کیے۔ بھارتی پولیس نے احتجاجی طلباء کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔متعدد طلبا زخمی ہوئے۔مقامی نیوز ایجنسی کے لیے کام کرنے والا فوٹو گرافر باسط زرگر سمیت 3صحافی بھی پولیس کارروائی میں زخمی ہو گئے۔ مولانا آزاد روڈ پر واقع گورنمنٹ کالج فار ویمن کی طالبات نے بھی اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور مظاہروں میں شامل ہوگئیں۔ بھارتی فورسز نے طالبات کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی زبردست شیلنگ کی اور طالبات کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا۔

کئی مرتبہ بے قصور کشمیری نوجوانوں پر مختلف جھوٹے الزامات عاید کرکے انہیں حراستی مراکز میں بند کردیا جاتا ہے اور پھر انہیں یا تو تشدد کرکے شہید کردیا جاتا ہے یا پھر انہیں تاحیات انہی جیلوں میں بند رکھ کر ناکارہ بنا دیا جاتا ہے، تاکہ ان میں سے کوئی بھی بھارتی مظالم کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کرسکے اور نہ ہی اپنی آزادی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکے۔ جب کسی بھارتی ظلم کے بعد کشمیری قوم اس کے خلاف احتجاج کے لیے نکلتی ہے تو بھارتی درندے ان میں نوجوان لڑکوں کو خاص طور پر نشانہ بناتے ہیں تاکہ کشمیریوں کو نوجوان نسل کو جدوجہد آزادی کے لیے کسی قابل نہ رہنے دیا جائے۔ بھارتی افواج کی طرف سے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر دنیائے انسانیت چیخ رہی ہے، مگر کسی کے بھی کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی افواج کے مظالم کی جانب اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی بارہا توجہ دلائی، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں روایتی بیان بازی سے کام لے رہی ہے اور اس کی جانب سے مقبوضہ وادی میں ہونے والے مظالم کی کھلے الفاظ میں مذمت تک نہیں کی گئی۔ نوجوان طالب علموں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کے دل سوز مناظر سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے دلوں کو خون کے آنسو رْلا رہے ہیں۔ اگر کسی کو یہ تکلیف دہ مناظر دیکھ کر فرق نہیں پڑتا تو وہ بھارت سرکار ہے جو طاقت کے نشے میں چور ہو کر نہتے کشمیریوں کی جان، مال اور عصمت کے درپے ہو چکی ہے۔ آزادی کی حرمت کے لیے کٹ مرنے کو ہزاروں لاکھوں کشمیری ہمہ وقت تیار ہیں۔ ان کے اس جوش و جذبے کا مقابلہ بڑے سے بڑا ہتھیار اور حکومت نہیں کر سکتی۔ بھارت کو یہ بات جتنی جلد سمجھ آ جائے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ بھارت کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو نہیں روک سکتا ہے۔ بھارت کو جلد یا بدیر معلوم ہو جائے گا کہ فوجی طاقت سے آزادی کی خواہش ختم نہیں کی جاسکتی، عشروں سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر میں جدوجہد آزادی میں خاصی تیزی آئی ہے جس سے بھارت سرکار مزید سٹپٹا اٹھی ہے۔ بھارت ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ کشمیریوں پر ظلم کر کے شاید ان کے حوصلے پست کر دے گا اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعدکشمیری مزید عزم و ہمت کے ساتھ بھارتی جارحیت کے سامنے سینہ تان کر اور ڈٹ کر کھڑے ہیں۔امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی کارروائیوں پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ وحشیانہ فوجی ہتھکنڈوں سے مزید مایوسی اور شدت پسندی کو ہوا ملے گی۔ اپنے اداریے میں نیویارک ٹائمز نے بھارت پر زور دیا کہ اس سے پہلے کہ بھارتی جمہوریت اپنی ساکھ کھو دے اسے کشمیر میں مفاہمتی عمل کا آغاز کرنا چاہیے۔ بھارتی مسلح افواج مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ کی پست ترین سطح پر آگئیں، جب انہوں نے فاروق احمد ڈار نامی چوبیس سالہ کشمیری نوجوان کو جیپ کے آگے باندھا اور زدوکوب کیا۔ اداریے میں کہا گیا ہے کہ حریت رہنماؤں کی جانب سے بھارت کے ڈھونگ پارلیمانی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کے بعد صرف سات فیصد مقامی کشمیری ووٹرز نے ووٹ ڈالے جو گزشتہ ستائیس سال کی کم ترین شرح ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مواصلاتی کمپنیوں نے تھری جی اور فور جی موبائل انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے بعد کٹھ پتلی انتظامیہ کی ہدایت پر فیس بک، واٹس ایپ اور سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس بھی بلاک کرنا شروع کردی ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نجی مواصلاتی کمپنی ایئرٹیل لمیٹڈ نے جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب ’فیس بک‘ اور ’واٹس ایپ‘ کو باضابطہ طور پر بلاک کردیا، جبکہ تھری جی اور فور جی موبائل انٹرنیٹ سروسز 17 اپریل سے معطل ہیں۔ قابض انتظامیہ نے مواصلاتی کمپنیوں کو سماجی رابطوں کی سائٹس تاحکم ثانی بند رکھنے کے لیے کہا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندی موسم گرما کے 6 ماہ تک برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کے علاوہ ٹویٹر، وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب اور وائبر وغیرہ کو بھی پابندی کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب گائے کے نام نہاد محافظوں کی غنڈہ گردی بھارت سے نکل کر مقبوضہ کشمیر تک پہنچ گئی۔ خانہ بدوش گھرانہ اپنے مویشیوں کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ اچانک گائے کے نام نہاد محافظوں نے ان پر حملہ کردیا۔ آپے سے باہر افراد نو سال کی بچی سمیت 7 افراد پر ٹوٹ پڑے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے نہ صرف نہیں مارا پیٹا بلکہ انکی بکریاں، بھیڑیں اور گائیں بھی لے گئے۔بھارت میں بھی گائے کے نام نہاد محافظ گوشت فروخت کرنے کے شبہ میں مسلمانوں پر تشدد کرتے ہیں۔ گزشتہ 2 سال میں گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں انتہا پسند ہندووں کے حملوں کے واقعات میں 10 مسلمان مارے جاچکے ہیں، جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔دْنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم انتہائی شرمناک ہیں۔ بھارت ایک جانب تو دْنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بنتا ہے، لیکن دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکیت کا یہ عالم ہے کہ اب اس نے معصوم طلباء و طالبات کے سکولوں اور کالجزز کا گھیراؤ کر کے اْن پر ظلم و تشدد شروع کر دیا ہے۔ دْنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ کشمیری عوام کسی بھی صورت بھارت کا تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر پاکستان سے اپنی وابستگی کا کھلا اظہار کرتے ہیں اور سبزہلالی پرچم کو مقبوضہ کشمیر کی گلیوں اور سڑکوں پر لہرایا جاتا ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیار کی طرف سے مظلوم کشمیریوں کے لیے کوئی بھی موثر آواز سنائی نہیں دیتی ۔ بھارتی افواج جو کشمیر میں سویلین افراد کو قتل کردیتے ہیں توکوئی بھی ان کا احتساب کرنے والا نہیں ہوتا، اگر برائے نام کسی واقعے میں ملوث فوجیوں پر مقدمہ چلایا بھی جاتا ہے تو وہ محض دکھاوے کے لیے اور اس میں اب تک کسی کو کوئی سزا نہیں دی گئی ۔کشمیر میں ہونے والے ان مظالم پر پاکستان کو اپنے رویے کا خاص طور سے جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستان کے موجودہ طرز عمل سے بھارت سرکار اور بھارتی افواج مضبوط ہوئی ہیں اور اہل کشمیر پر مظالم بڑھے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.