شہادت

انہوں نے پرسکون سعید احمد کے چہرے کو دیکھا جیسے وہ ان سے کہ رہا ہو "تم تو رہو دنیا میں، میں تو چلا اپنا فرض نبھا کر۔

وہ ہاتھوں میں فائل پکڑے آرام سے بیٹھا تھا۔ جس میں ہر سند پر سعید احمد کا نام لکھا تھا۔ آج اس کا فائنل انٹرویو تھا، امیدوار آ رہے تھے کچھ جا رہے تھے۔
آخر کار اس کا بھی انٹرویو ہوا اور وہ پاس ہو گیا۔
تین دن بعد وہ آرمی کی وردی پہنے ایک پر کشش نوجوان لگ رہا تھا۔
سلیقے سے تراشے ہوئے بال اور سلیقے سے تراشی داڑھی میں وہ واقعی قوم کا محافظ لگ رہا تھا۔ ایک مہینے بعد کی بات ہے جب اچانک کمانڈر صاحب نے ایمرجنسی میٹنگ طلب کی۔ کچھ سنیئر آفیسرز اور کچھ جونیئر آفیسرز میں وہ بھی موجود تھا۔
میٹنگ جاری تھی کمانڈر ان کو پلان بتا رہا تھا اور وہ پورے انہماک سے سن رہے تھے۔ آخر کار ایک سنیئر آفیسر نے سوال اٹھایا۔ "سر ہم اپنے جونیئر آفیسر کو لیکر نہیں جا سکتے"۔
"لیکن کیوں" کمانڈر نے کہا۔
"سر ان کی ٹریننگ کو ایک ماہ ہوا ہے ہم انہیں ساتھ لے جانے کا رسک نہیں لے سکتے" آفیسر نے کہا۔
"سر ہتھیار کے طور پر نہ سہی ڈھال کے طور ہر تو استعمال کر سکتے ہیں ہمیں ۔۔۔ !"
سب آفیسرز نے سر گھما کر دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی۔ آواز سعید کی تھی۔
کمانڈر نے کہا " آفیسرز ٹائم کم ہے اور ہمارے سنیئر آفیسرز دوسرے مشن پر روانہ ہو چکے ہیں اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم جونیئر آفیسرز کو بھی اس مشن کا حصہ بنا"۔
"ایگری سر" نہ جانے کتنی آوازیں ایک ساتھ ابھریں۔
"آدھے گھنٹے میں آپ کو اڑان بھرنی ہے۔ ضروری تیاریاں کر کے مقررہ وقت پر پہنچ جائیے گا" کمانڈر نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طیارہ پوری رفتار سے اڑ رہا تھا اچانک کنٹرول ٹاور سے آواز ابھری۔
"تیار رہیئے ہم پندرہ منٹ کے اندر ٹارگٹ پر پہنچ رہے ہیں مشن ٹائم ایک گھنٹہ ہے ایک گھنٹے بعد آپ کو ٹارگٹ پلیس پر دشمن کا خاتمہ کر کے ہیلی کاپٹر تک پہنچنا ہے۔ ہیلی کاپٹر آپ کا انتظار کر رہا ہو گا۔ اورر"۔
جب میپ ڈائریکٹر نے اشارہ کیا تو ان کے پیرا شوٹ تیار تھے جہاز کا بیک ڈور اوپن کر دیا گیا تھا وہ چھلانگیں لگا کر کھلی ہوا میں آ گئے اور پیرا شوٹ کے ذریعے زمین پر آ گئے آپریشن شروع ہو گیا تھا وہ نہایت کامیابی سے لڑ رہے تھے پانچ منٹ رہ گئے جب آپریشن مکمل کرنے کے بعد پوری ٹیم ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھ رہی تھی۔
اچانک ہی کہیں سے سنسناتی ہوئی گولی آئی اور افسر کے پاؤں کو چیرتی نکل گئی وہ درد شدت سے وہیں گر گیا۔
سعید احمد اسے دیکھ رہا تھا دشمن اٹھ کر بھاگا تو وہ بھی گن اٹھا کر تیزی سے بھاگ رہا تھا اپنے انجام سے بے فکر بس بھاگتا ہی جا رہا تھا۔ دشمن بھی اسی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔ ایسے بھاگتے ہوئے وہ اس کا نشانہ نہیں لگا پا رہا تھا۔ آخر وہ رکا اور پوزیشن سیٹ کی، نشانہ لگایا اور گولی ماری۔
گولی سیدھی اس کی ٹانگ میں لگی اور گر گیا اس نے رخ پلٹا اور ایک مسکراہٹ سجائے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک فائر کی آواز آئی۔
ایک
دو
تین
سعید احمد نیچے گرا۔ تینوں گولیاں اسی کو لگی تھیں۔ آفیسرز دوڑتے ہوئے اس کی طرف آئے لیکن وہ زمین پر گر چکا تھا۔ گولیاں مارنے والا وہی تھا جس کے پاؤں میں گولی ماری تھی وہ وقتی بے ہوش تھا ہوش میں آنے پر اس نے اپنا آپ دکھا دیا تھا۔ آفیسرز نے غصے میں ساری مشین گن اس پر خالی کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلی کاپٹر میں سوائے تیز دار ہوا کی آواز کے سوا کوئی اور آواز نہیں تھی۔ جنہیں تھوڑی تھوڑی چوٹیں آئی تھیں انہیں فرسٹ ایڈ دی جا رہی تھی۔
ایک سنیئر افسر نے سکوت توڑا " پچیس سال سے اس سروس میں ہوں ایسی شہادت کی تمنا میں نے بھی پہلے دن کی تھی لیکن دیکھو کس سے نصیب میں آئی"۔
انہوں نے پرسکون سعید احمد کے چہرے کو دیکھا جیسے وہ ان سے کہ رہا ہو "تم تو رہو دنیا میں، میں تو چلا اپنا فرض نبھا کر۔

Umar Azeem
About the Author: Umar Azeem Read More Articles by Umar Azeem: 6 Articles with 14259 views i make a great writer... View More