یہ لوگ بھی تو مخلوق خدا کا حصہ ہیں

رات کی تاریکی شاید انسان کے لیے ایک بہت بڑا سبب سبق بنتی ہے۔ مجھے پتا نہیں کیوں ایسے لگتا ہے جیسے ہر چیز نہ مکمل ہو انسان کی بنائی ہر شے نہ مکمل ہی نہیں بلکہ دھوکہ کا سبب بنتی ہے ۔ ہم روز کوئی نہ کوئی ایسی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں جس کا سیدھا تعلق ہمارے معاشرے سے ہی ہوتا ہے ۔ ہم ایک دوسرے کو اتنا دھوکہ دیتے ہیں۔ اس قدر پریشانی کا شکار کرتے ہیں جس کی مثال کسی اور جگہ نہیں ملتی۔ ذہنی صحت کے ہسپتالوں میں لوگوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ یہ لوگ کسی اور جگہ سے نہیں آ ئیے ہیں بلکہ ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں جو کہ بہت ہی اچھی زندگی گزار رہیے ہوتے ہیں مگر ان کی زندگی میں ایک موڑ آ تا ہے جو ان کی آزادی ،خوشی،بیوی،بچے،ماں باپ ،بہن بھائی بلکہ وہ تمام باتیں تمام نعمتیں جو اس کی دسترس میں ہوتی ہے ۔ ان سب نعمتوں سے یہ معذور ہو جاتے ہیں ۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ان لوگوں کو اس حال میں کس نے پہنچایا کس نے کیا۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ہم سب کے لیے اور سوچنے کی جگہ ہے ۔ اسی لیے مجھے اپنے اس مضمون میں اس موضوع کو زیر بحث لانا ہڑا۔ اسی لیے میں نے خود مختلف ہسپتالوں کے ذہنی صحت وارڈ کا وزٹ کیا اور مختلف مریضوں سے ملا اور ایسی حقیقت پر مبنی معلومات نکالنے میں کامیاب ہوا جو ویسے شاید نہ ممکن ہوتا۔ اسی لیے ان کی رضامندی سے میں اپنے مضمون میں بتانا چاہتا ہوں ہو سکتا ہے میری اس کاوش سے کسی ایک آ دمی کو بھی میرا ایک لفظ سمجھ آ جاے تو میرے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں ہوگا ۔ مجھے ایک شخص سے ملنے کا شرف ہوا جس کا نام شاید میں نہ بتا پاؤں ہا مگر باقی کچھ بتانے کی مجھے اجازت ہے۔ یہ شخص اللّٰہ کے حضور پانچ وقت حاضر ہوتا دنیا میں ہر نیک کام میں حصہ ڈالتا بچوں میں علم بانٹنے کو اپنی زندگی کا حق سمجھتا ۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا اور ہر طرح سے ان کا خیال کرتا۔ کیو کہ خدا نے ان کو عطاء جو کر رکھا تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ سب ان کے ہاتھ سے کیو نکل گیا ۔ جب ہم کسی کی ذات پر اپنی ذات سے زیادہ یقین کر لیتے ہیں تو شاید پھر ہمارا سارا کچھ ہماری مٹھی سے نکل جاتا ہے ۔ اس لیے بھائی صاحب کے اندے یقین نے ان کی زندگی کو ایک خود کشی کرنے والے انسان میں بدل دیا۔ اور اس قدر مجبور کر دیا کہ وہ ہر وقت اپنے آ پ پر ظلم و تشدد کرنے لگے۔ جس کی بنا پر گاؤں کے لوگوں نے اس عظیم الشان انسان کو ایک مینٹل وارڈ کی زینت بنا ڈالا جہاں یہ بندہ اپنے آ پ کو ایک عام آدمی اور نارمل پرسن ثابت کرنے کے لیے رو رو تھک گیا کہ مجھے کچھ نہیں میں ٹھیک ہو۔ مگر جیسے بات کرتے تو ڈآکٹر صاحبان کا خوبصورت عملہ ان کو انجیکشن انجیکٹ کرتے اور چلے جاتے جو کہ اس کو اگلے ایک دن کے لیے کافی ہوتا تھا جب اگلی صبح ہوتی تو پھر سے وہ وقت شروع جاتا ۔ مگر کسی ڈاکٹر نے سوچا ہی نہیں ایک مریض جو ہر روز کہتا ہے کہ میں درست ہو ڈاکٹر صاحب مجھے دوا کی ضرورت نہیں مجھے آزادی کی ضرورت ہے ۔ اس پر ایک ڈاکٹر صاحب نے سوچا جو کہ بہت بزرگ اور انتہائی معصوم طبیعت تھا اس نے کہا کہ اس مریض کو میرے کیبن میں لے آہو جب وہ شخص وہاں گیا تو رو رو کر ڈآکٹر صاحب کے پاؤں میں گر پڑا اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب جب پہلے دن میں یہاں آ یا تھا تو ایک انسان کا بچہ تھا مگر آ ج یہاں مجھے لوگ دماغی مریض اور ساتھ کیا کیا کہتے ہیں ۔ میری ذات اس قدر پریشانی کا سبب بنی کہ میرے پورے مستقبل کا بیڑا غرق ہو گیا۔ مجھ سے لوگوں نے سب کچھ چھین لیا۔ ان کو ارے پاگل ارے مسٹر مینٹل کے لقب سے پکارتے ۔ یہ سب کچھ ایسا کیو کیا جاتا ہے کسی کو اتنا نیچا کیو دکھایا جاتا ہے آ خر ان کی پریشانی کو مزید پریشانی میں بدل کر ان کو رسوائی کا شکار کیو کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی تو ہر طرح کے جزبات رکھتے ہیں ۔ یہ بھی بالکل نارمل انسان ہوتے ہیں ان کے جزبات کی پامالی کیو ہوتی ہے ۔ اسی لیے میں آ پ تمام لوگوں سے عرض کرتا ہوں کہ خدارا محنت کش اور سفید پوش لوگوں کی شرافت کا ناجائز فاہدہ کبھی نہیں اٹھانا اور ان کو ان المسائل سے نکال کر اپنی طرح ایک نارمل شخص بنانے میں اہم۔ کردار ادا کرے تاکہ خداوند عالم کی ذات گرامی ہم پر بھی خوش ہو اور معاشرے میں ایک اچھا انسان بھی ثابت کر سکے اللّٰہ کریم ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔
 

Muhammad afzal Jhanwala
About the Author: Muhammad afzal Jhanwala Read More Articles by Muhammad afzal Jhanwala : 8 Articles with 4106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.