ترکی کے اقتدار پر صدررجب طیب اردغان کی مضبوط گرفت۰۰۰!

طاقتور کون ؟۰۰۰’’بموں کی ماں‘‘ یا ’’بموں کا باپ‘‘

ترکی میں ریفرینڈم کے ذریعہ صدررجب طیب اردغان کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔ 16؍ اپریل 2017کو ریفرینڈم کے لئے 1,67,000پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے تھے جہاں ساڑھے پانچ کروڑ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ صدر ترکی رجب طیب اردغان نے ریفرینڈم سے قبل آخری ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نئے آئین سے ملک میں استحکام اور اعتماد آئے گا جو ملکی ترقی کی ضرورت ہے‘‘۔ ترکی میں اتوار کے روز صدارتی اختیارات میں وسعت کے حوالے ہونے والے اس ریفرینڈم میں 51.41فیصد لوگوں نے صدارتی اختیارات کو وسعت دینے کے حق میں ووٹ ڈالے جبکہ 48.59فیصدرائے دہندوں نے انکے خلاف حق رائے دہی کا استعمال کیااس طرح مجموعی طور پررائے دہی کا استعمال 85فیصدبتایا جارہا ہے۔ اس کامیابی کے بعد رجب طیب اردغان کو نہ صرف وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں وہ ممکنہ طور پر 2029تک اقتدار پرفائز رہ سکتے ہیں۔ حزب اختلاف رپبلکن پیپلز پارٹی کی جانب سے ریفرینڈم میں مبینہ بے ضابطگیوں پر سوال اٹھائے گئے جس کے جواب میں ہائے الیکٹورل بورڈ کے سربراہ سعدی گوون نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ غیر مہر شدہ ووٹ ہائے الیکٹورل بورڈ کے سامنے پیش کئے گئے تھے اور وہ قانونی طور پر درست ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھے انتخابات میں بھی ووٹنگ کے حوالے سے شکایتوں کو حل کرنے کے لئے اس سے ملتا جلتا طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ ترکی کی مرکزی اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی نے ریفرینڈم کے نتائج کو چیلنج کرنے کی بات کہی ہے اور ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے 60فیصد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی کے تین بڑے شہروں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں رہنے والے رائے دہندوں کا رجحان صدارتی اختیارات کی توسیع کے خلاف بتایا جارہا ہے۔ رجب طیب اردغان کے حامی جشن منارہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اس سے ملک میں آمریت ہوگی۔ صدر رجب طیب اردغان ملک کے پارلیمانی نظام کو ایگزیکٹیو صدارت سے بدلنا چاہتے ہیں۔ نئے آئن کے مطابق صدر کے اختیارات میں صدر براہ راست اعلیٰ حکام جن میں وزراء بھی شامل ہیں کو تعینات کرسکتا ہے، صدر کے پاس ایک یا کئی نائب صدر متعین کرنے کا اختیار ہوگا، وزیر اعظم کا عہدہ جو اس وقت بن علی یلدرم کے پاس ہے کو ختم کردیا جائے گایعنی اس عہدہ کی جگہ نائب صدر کو متعین کیا جاسکتا ہے، صدر کے پاس عدلیہ میں مداخلت کرنے کا اختیار بھی ہوگا،ملک میں ایمرجنسی کو نافذ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی صدرکرے گا۔ اس طرح وسیع تر اختیارات کے ذریعہ موجودہ صدر رجب طیب اردغان ترکی کے عوام کو ایک خوشحال اور مضبوط قیادت والی حکومت دینا چاہتے ہیں تاکہ اس سے ملک میں ترقی کی راہوں میں اضافہ ہو ۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ سال ملک میں ناکام فوجی بغاوت ہوئی تھی جس کے بعد میڈیا اور دیگر اداروں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا تاہم صدر کے حامیوں کا کہنا ہیکہ ملک کے استحکام کے لئے تبدیلیاں ضروری ہیں۔ یہاں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان ماضی کی طرح ملک کی معیشت کو پھر سے ترقی دیں گے کیونکہ ان دنوں خطے کے حالات مختلف ہیں۔ عراق، شام کے حالات اور داعش کی سرگرمیوں پر قابو پانا اتنا آسان نہیں جس طرح سے کہ ابتداء میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں سمجھ رہے تھے ۔ دولت اسلامیہ جس تیزی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر ایک خطرناک اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر ابھری ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ داعش کا خاتمہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں۔ امریکہ جس نے داعش کی سرگرمیوں کو کچلنے اور اس کی دہشت گردی کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا اس نے بھی آخر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اتحاد کے باوجود داعش کو ختم نہیں کیا جاسکا۔عالمی طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ گذشتہ 13؍ اپریل کی شام امریکہ نے افغانستان کے علاقہ ننگرہار میں ’’بموں کی ماں‘‘ نام کے اس 9800کلو وزنی بم گرائے جس کے بعد دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس سے 90جنگجو ہلاک ہوگئے۔ امریکہ نے تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم گرایا۔ اس سے قبل امریکہ نے اس بم کی کسی بھی کارروائی کیلئے استعمال نہیں کیا۔ اس بم کا تجربہ پہلی بار2003میں کیا گیا تھا لیکن اسے کسی جنگ یا تصادم میں اس سے قبل استعمال نہیں کیا گیا ۔ وائٹ ہاؤز کے ترجمان شان اسپائسر کا کہنا ہے کہ یہ بم جس علاقے میں گرایا گیا وہ پہاڑی علاقہ ہے اور بہت کم آبادی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں داعش کے 1000تا 5000ہزار جنگجوہیں۔

امریکہ نے اس بم کو ’’بموں کی ماں‘‘یعنی Mother of All Bombsکا نام دیا ہے یہ بم امریکی غیر جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں سب سے طاقتور بم GBU43Bہے ۔ اس سے قبل روسی فوج نے 11؍ ستمبر2007کو یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے ’’فادر آف آل بومبز‘‘ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ روسی فوج کا دعویٰ تھاکہ ان کا بم امریکی جی بی یو 43؍بی سے چار گنازیادہ طاقتور ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی بم میں 7.8ٹن تھرموبیرک آتش گیر مادہ ہے جبکہ امریکہ جی بی یو 43بی میں آٹھ ٹن ہے۔ روسی بم پھٹنے پر 44ٹن ٹی این ٹی کے مقابلے کا دھماکہ کرتا ہے ۔ اس بم کے بلاسٹ کا قطر 300میٹر ہے جو کہ امریکی بم سے دگنا ہے۔ اس کے علاوہ بم گرنیکے مرکز پر درجہ حرارت بھی امریکی بم سے دگنی بتائی جارہی ہے۔جی بی یو 43بی گائیڈڈ بم ہے جس پر 18ہزار 700پاؤنڈ کا وارہیڈ نصب ہوتا ہے۔ اس بم کو عراق کی جنگ سے نو ہفتہ قبل جلدی میں تیار کیا گیا تھا لیکن عراق کی جنگ میں اس کو استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ بم زیر زمین تنصیبات اور سرنگیں تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتاہے اس بم کی قیمت 16لاکھ ڈالر بتائی جارہی ہے اور اس کا پہلی بار تجربہ 2003میں کیا گیا ۔

امریکہ اور اتحادی ممالک نے عراق پر الزام عائد کرکے اپنی درندگی کا ثبوت دیا یعنی 2003میں خطرناک فضائی کارروائی کرتے ہوئے بم گرائے اور لاکھوں عراقیوں کوہلاک و زخمی کیا اور کروڑوں کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔ عراق ، افغانستان، پاکستان، شام ، یمن میں امریکہ نے جس طرح اسلامی دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر بموں کی بارش کررہا ہے اس کی اس ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف عالمی سطح پر کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے اگر کوئی کچھ کہے بھی تو صاف جواب ہوگا کہ عام شہریوں کو نہیں بلکہ داعش یا دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خاتمہ کے لئے یہ کارروائی کی جارہی ہے۔ امریکہ نے دوسری عالمی جنگ عظیم کے اختتام کے موقع پر بھی ایسی ہی ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے جاپان کے شہر ہیرو شیما پر 6؍ اگسٹ 1945کو جوہری بم گرایا اور پھر 9؍ اگسٹ 1945کو جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی پر بھی جوہری بم گراکر انسانی تاریخ کی سب سے شرمناک حرکت کی۔ امریکہ کی جانب سے گرائے گئے ان دو شہروں میں دو سے تین لاکھ کے درمیان لوگوں کی ہلاکت ہوئی ۔امریکہ کی اس خطرناک ظالمانہ کارروائی سے پتہ چلتا ہیکہ ماضی میں بھی امریکہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے۔ ان دونوں شہروں کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو انسانی ذہن لرز اٹھتے ہیں ۔ اس واقعے نے پورے انسانیت کے دیواروں کو ہلاکر رکھ دیاتھا۔ ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت پگلنے لگا۔ اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیرو شیما یا ناگاساکی میں پچے پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔ ایٹم بم انسانیت کے لئے انتہائی تباہ کن ہے ۔ جب بھی اس کا استعمال ہوا ہے ہمیشہ اس نے تباہی مچائی ہے۔امریکہ ایک طرف دہشت گردی کے خاتمہ کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب خود دہشت گردی سے عالمی ممالک کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر سب سے بڑا طاقتور ترین ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج روس امریکہ کی روش کو ختم کرنے کے لئے شام میں بشارالاسد کو مکمل تعاون فراہم کررہا ہے۔ نہیں معلوم کہ روس امریکہ کے سامنے کتنا طاقتور ترین ملک ہے ۔ ویسے روس نے اس طرح 2007میں ’’بموں کاباپ‘‘ بناکر سب سے طاقتور ترین ملک ہونے کا دعویٰ کیا تھا اسی کا جواب ہے امریکہ نے ’’بموں کی ماں‘‘ بناکر ایک ایسے وقت افغانستان میں داعش کے سرنگ نما ٹھکانوں پر حملہ کرکے بتانے کی کوشش کی ہے کہ شام میں روس پیچھے ہٹے ورنہ ہوسکتا ہے کہ روس کے خلاف بھی امریکہ جاپان جیسی کارروائی کرے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ اگر امریکہ خدانخواستہ روس کے خلاف ایٹم بم استعمال کرتا ہے تو پھر دنیا تیسری عالمی جنگ عظیم کی لپیٹ میں آکر تباہ و برباد ہوجائے گی۔ آج مشرقِ وسطیٰ کے حالات انتہائی سنگین موڑ اختیار کئے ہوئے ہیں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نام نہاد جہادی تنظیموں خصوصاً داعش و طالبان کو ختم کرنے کے لئے بموں کا استعمال کررہے ہیں تو دوسری جانب روس بشارالاسد کو ہر ممکنہ فوجی تعاون فراہم کرکے عالمی سطح پر یہ بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ امریکہ اور روس کے درمیان کیا واقعی دوری ہے یا پھر امریکہ، روس اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک اندرونی طور پر مل کر مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔کیونکہ مشرقِ وسطی و دیگر اسلامی ممالک میں جس طرح کی صورتحال ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہر طرف صرف اور صرف مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے اور مسلمانوں کو ہی عالمی سطح پر دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ دشمنانِ اسلام کی ان ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود آج بھی اسلام پھیلتا جارہا ہے ۔ کفر و شرک میں گھرے ہوئے لوگ جب ان ظالمانہ کارروائیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد اسلام کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا اسلام میں کیا واقعی قتل و غارت گیری ہے یا اسلام ایک امن و سلامتی والا مذہب ہے۔ جب کفار و مشرکین قرآن ، احادیث اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کررہے ہیں تو ان پر اسلامی تعلیمات کا اتنا اثر پڑرہا ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کو اولین ترجیح دے رہے ہیں ۔ بے شک تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اسلام ایک عظیم الشان شہکار مذہب ہے جسے جتنا دبانے کی کوششیں ہوتی رہیں اتنا ہی وہ وسعت اختیار کرتا گیا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت تک جاری رہے گا ۔ چاہے امریکہ ’’بموں کی ماں‘‘ یا روس ’’بموں کا باپ‘‘ جیسے یا جوہری ہتھیاروں کے ذریعہ اسلام کو تباہ و برباد کرنے کی کوششیں کرتے رہیں ان کی یہ کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
***

M A Rasheed Junaid
About the Author: M A Rasheed Junaid Read More Articles by M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 210461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.