پرویز مشرف گھر کب آؤ گے

لاکھوں کروڑوں لوگ ایک آس کی پیاس لئے شدید بے چینی میں تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، انہوں نے ہوائی اڈے سے دارالسلطنت تک ایک لمبی قطار بنا رکھی ہے کہ تمہارا فقید المثال استقبال کرسکیں۔ نوجوان سب سے آگے اور مستعد ہیں، بزرگ بھی تمہاری نشان راہ تک رہے ہیں اور بچوں کا بھی ایک جم غفیر ہے۔ انکے ہاتھوں میں ہار ہیں، انکے لبوں پر والہانہ پن ہے اور انکی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ خدا کی قسم ایسا استقبال آج تک کسی کا نہیں ہوا ہوگا، پرویز مشرف تم گھر کب آؤ گے، دیکھو یہ قوم کس طرح تمہاری منتظر ہے۔

استقبالیوں میں سب سے آگے جواں سال حسان اپنی دادی کے ساتھ کھڑا چچا جان سے خوش گپیوں میں مصروف ہے اور اسکی دادی کی پشت پر جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے آٹھ سو طلبہ و طالبات پھولے نہیں سما رہے۔ دائیں سمت پر کشمیر کے ایک لاکھ بیس ہزار کفن پوش اور بائیں سمت پر افغانستان اور قبائلستان کے ایک لاکھ مرد و زن۔ ضعیف اکبر بگٹی بھی نظر آرہے ہیں اور چھ ماہ کا سلیمان بھی، شہید بے نظیر بھی ہیں اور درجنوں مقتول علما کرام بھی۔ یہی نہیں لاہور سے علامہ اقبال بھی آئے ہوئے ہیں اور کراچی سے قائد اعظم و قائد ملت بھی۔ آخر پرویز مشرف تمہاری شخصیت اور کردار میں ایسا کیا خاص ہے جو عدم کے یہ مسافر بھی اپنی اپنی گوشہ نشینی چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور منتظر فردا ہیں۔

سنا ہے کہ ابھی وہ ہزاروں لوگ جو تم نے لاپتہ کردئے تھے کے اہل خانہ بھی تمہارا پوچھتے ہوئے آئیں گے اور وہ ہزاروں اسیران ملت جو گوانتانوبے اور بگرام کے زندان خانوں میں پابند سلاسل ہیں بھی تمہارے منطقی انجام کی خصوصی دعائیں کریں گے۔ تمہارے ہجر میں فردا ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی سخت اضطرابی کیفیت میں ایک گلدستہ لئے اپنے لان کا چکر لگا رہے ہیں، ڈاکٹر شازیہ بھی امریکہ سے خصوصی طور پر ایک تحفہ لے کر تمہارے لئے آرہی ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان بھی اپنے دو برسوں کی خوش گوار یادوں کا سرمایہ تمہارے قدموں میں بچھانے کے لئے بے چین ہیں۔ لیکن پرویز مشرف تم گھر کب آؤ گے!

تم نے نو برس تک پورے جاہ جلال کےساتھ اس قوم کی تقدیر پر اکیلا راج کیا، راج ایسا کہ بات زبان سے نکلے اور عمل پزیر ہوجائے۔ کونسا اختیار تھا جو ہاتھ میں نہیں تھا، کونسی طاقت تھی جو ساتھ نہیں تھی، کونسے وسائل تھے جو بروئے کار نہ لائے جاسکتے تھے۔ لیکن بے حیائی کے سیلاب، فکری انحطاط کے طوفان اور کشت و خون کی برسات کے علاوہ تمہارے اور کون سے کارنامے ہیں جو تم گنواؤ گے۔

تم نے اور تمہارے حواریوں نے اقصادی اور معاشی ترقی کے بڑے بڑے بت کھڑے کئے لیکن وہ صرف چند ٹھوکروں سے گر کر پاش پاش ہوگئے۔ آج پھر تم اس ملک کو اندھیرے سے روشنی کی طرف لانے کی بات کر رہے ہو لیکن جب تمہارے نام کا سکہ چلتا تھا تو تم نے اس سمت میں کیا کیا تھا، کیا یہ بتانا پسند کرو گے کہ تم نے کتنے ڈیم بنوائے تھے، کتنی بجلی گھر لگوائے تھے، کتنے موٹر وے اور ہوائی اڈے بنوائے تھے اور کتنی صنعتیں لگوائیں تھیں۔ کیا تم نے شہد کی نہریں جاری کردی تھیں، کیا تم نے اسٹیل کو منافع بخش بنا دیا تھا، کیا تم نے کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا۔ نہیں تو تم نے کیا کیا، سوائے اس قوم کو پیچھے کی سمت لے جانے کے۔

تم نے تو اس ملک کو بھارت اور بنگلا دیش سے بھی بیس سال پیچھے کردیا ہے۔ کیا تعلیم کے شعبے میں جس رفتار ان دو ممالک نے پچھلی ایک دہائی میں ترقی کی اسکا نصف بھی یہ قوم دیکھ سکی، کیا آئی ٹی وی، توانائی اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں انکا کسی سطح پر مقابلہ کیا جاسکا یا کیا علاج معالجہ اور صحت کی سہولیات میں ہی ان کو زیر کیا جاسکا۔

تم نے نو سال روشن خیالی اور جدت پسندی کے راگ الاپے لیکن کیا سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان کوئی ایک بھی ایسا کارنامہ ہے جسے تم اپنی چھاتی پر سجا سکو۔ تم نے نو سال خوشحالی کے بلند بانگ نعرے لگائے لیکن متوسط طبقے کو لیز پر لی گئی گاڑیوں اور مکانات جن کے سود بھرنے سے اب وہ قاصر ہیں اور کیا ملا، کیا افراط زر کی شرح میں مجموعی طور پر سو گناہ اضافہ نہیں ہوا، کیا غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہیں ہوگیا، کیا بے روزگاری اور خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ نہیں ہوا، کیا غیر ملکی قرضوں میں تین گنا اور ملکی قرضوں میں دو گنا اضافہ نہیں ہوا۔ کیا ٹیکسٹائل کی صنعت برباد نہیں ہوگئی کیا پی آئی اے خسارے میں نہیں چلا گیا، کیا تم نے قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام من پسند افراد کو فروخت نہیں کردیا، کیا اسٹاک ایکسینج کی کساد بازاری میں بڑی مچھلیوں نے چھوٹی مچھلیوں کی زندگی بھر کا سرمایہ ہڑپ نہیں کرلیا، کیا برادر اسلامی ملک کو تاراج کرنے کے لئے جو امداد ملی اس میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بد انتظامی نہیں ہوئی اور کیا آٹھ اکتوبر کے زلزلے میں ملکی و غیر ملکی امداد ملی اسے مال مفت دل بے رحم کی عملی صورت نہیں بنایا گیا۔

بے غیرتی اور منافقت کی اعلیٰ مثال دینی ہو، تکبر اور گھمنڈ کے بت کھڑے کرنے ہوں، دین فروشی اور عہد شکنی کا پیمانہ دیکھانا ہو تو اس اکیسوں صدی میں تم سے بڑا عبداللہ بن ابی کون ہے۔ یاد کرو تم چور دروازے سے اقتدار میں آئے اور منتخب وزیر اعظم کو پاپند سلاسل کیا، عدلیہ پر شب خون مارا اور ایک ہی وار میں اسے ضمیر فروشوں سے بھر دیا، سودی بینکاری پر پابندی سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ آیا تو اللہ سے کھلی جنگ چھیڑ دی، ریفرنڈم رچا کر صدر بنے اور پارلمینٹ کو اپنے کھیت کی مولی میں تبدیل کردیا، قوم سے وردی اتارنے کا عہد کیا لیکن عہد شکنی کی مثال بن گئے، محسن پاکستان کو اپنے اقتدار کی سولی پر چڑھا کر بے آبرو کیا، سینکڑوں مسلمانوں کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کر کے کمال ڈھٹائی سے اپنی کتاب میں اعتراف جرم کیا، شوکت عزیز ایسے عالمی اداروں کے چاکروں کو ملکی معیشت تباہ کرنے کا ٹھیکہ دیا، تمام مکاتب فکر کی سخت مخالفت کے باوجود حدود اللہ میں ترامیم کی جسارت کی، قبائلی علاقوں میں امریکہ سے ڈرون حملے کروا کر محب وطن پاکستانیوں کو افواج پاکستان کے سامنے لاکھڑا کیا، بلوچستان میں ایک بزرگ سیاست دان کو قتل کروا کر بلوچوں میں محرومی کے جذبات راسخ کردئے، بھارت سے دوستی کے نام پر کشمیریوں کی آرزوؤں کا سودا کیا، لال مسجد میں آٹھ سو معصوم طلبہ و طالبات کے خون کی ہولی کھیلی اور عدلیہ نے سر اٹھایا تو اسے بری طرح کچلنے کے لئے آخری حد تک گئے۔ پرویز مشرف تمہارے کون کون سے جرائم بیان کروں، بس اتنا مت بھولنا کہ تم نے صدیوں ہمارا سکوں لوٹا ہے لیکن اب کی بار تمہارے لئے اقتدار کی کرسی نہیں پھانسی کا پھندا ہے۔

تمہارا معاملہ تو یوں ہے کہ رسی جل گئی لیکن بل ختم نہیں ہوئی، وہی اکڑ، وہی بدمعاشی اور وہی خود پر ناز۔ آج بھی خود کو خدا سمجھتے ہو، آج بھی خود کو عقل کل مانتے ہو اور آج بھی اپنے مخالفین کو گمراہ کہتے ہو۔ بلوچستان اور فاٹا میں شورش اور ملک بھر میں سیاسی عدم استحکام کیا تمہارا رچایا ہوا نہیں ہے اور معیشت کی یہ ڈوبتی کشتی اور مہنگائی کی یہ آگ کیا تمہاری لگائی ہوئی نہیں اور کیا یہ موجودہ انتہاپسندی اور دہشت گردی تمہارے دور کی ایجاد نہیں۔ آج تم این آر او پر معافی مانگ رہے ہو لیکن اسکے نتیجے میں جو چور اچکے حکمران ہوئے اسکا حساب کون دیگا۔ جو سرمایہ درانہ معاشی پالیسی تمہارا ایک حواری بناکر گیا ہے اور جس کا مزا اس ملک کے آج تک چکھ رہے ہیں اسکا جواب کون دیگا۔ تمہیں ملک سے رفو چکر ہونے پر کس نے مجبور کیا تھا اور آج تم گھر واپسی کی بات کر رہے ہو تو کس نے روکا ہے۔ سنتے ہو لاکھوں کروڑوں لوگ ایک آس کی پیاس لئے شدید بے چینی میں تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، انہوں نے ہوائی اڈے سے دارلسلطنت تک ایک لمبی قطار بنا رکھی ہے کہ تمہارے فقید المثال استقبال کرسکیں۔ نوجوان سب سے آگے اور مستعد ہیں، بزرگ بھی تمہاری نشان راہ تک رہے ہیں اور بچوں کا بھی ایک جم غفیر ہے۔ انکے ہاتھوں میں ہار ہیں، انکے لبوں پر والہانہ پن ہے اور انکی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ خدا کی قسم ایسا استقبال آج تک کسی کا نہیں ہوا ہوگا، پرویز مشرف تم گھر کب آؤ گے، دیکھو یہ قوم کس طرح تمہاری منتظر ہے۔
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.