پاکستان میں اسلامی انقلاب کیسے لایا جا سکتا ہے حصہ سوم

ایسے ہی شہزادے سے کہا جاتا تھا کہ اس کا خاندان بہت علیٰ خاندان ہے وہ دنیا کا سب سے امیر اور قابل خاندان ہے اور آپ کے خاندان کی اس خاتون کے آگے کوئی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے اور وہ خاندان مزارات کی پوجا کرنے والا ہے اور سعودیہ میں میلے ٹھیلے اور مزارات کی تعمیر اور حدود اللہ کے نفاذ کا خاتمہ اور ان کو ایکسٹیریم ازم قرار دلانا اور یہاں پاکستان اور ہندوستان کی طرح جہیز اور دوسری بدعتیں شروع کرنا ان کا مشن ہے اور عرب شہزادے سے متعلق عورت سے کہا جاتا کہ وہ تو بہت ہی امیر ہے اور اعلیٰ خاندان کا شہزادہ ہے وہ تو آپ کو اور آپ کے خاندان کو اتنی اہمییت ہی نہیں دیتا اور اس طرح سے علیحدگی ہوگئی

اسلامی انقلاب لانے کی پاکستان اور خاص طور پر عالم اسلام کو ضرورت ہے ہم پاکستان میں اسلامی انقلاب کے بارے میں سوچنا چھوڑ چکے ہیں اور اب تو کوئی سیاست دان یہ نام ہی نہیں لیتا کہ مجھے اس لیے ووٹ دو کہ میں اسلام کے بارے میں کوئی پیش رفت کریں گے کشمیر کی آزادی کے بارے میں کوئی لائحہ عمل بنائے یا کوئی خالی نعرہ ہی لگا دے کہ ہم کشمیر آزاد کرائیں گے جہاد تیز کرائیں گے مسلمان اس وقت ہندووں کی سازشوں میں پوری طرح شکار ہوچکے ہیں ہندوو نے سازش جو تیار کی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ جہیز دینا ہے اور ان کے ذریعے مسلمانوں کے فیملی یونٹ خاندانی نظام کو توڑنا ہے یا کم از کم اپنی مرضی کا بنانا ہے تاکہ اسلام میں یہ حکم ہے کہ مرد حاکم ہے اور اس طرح سے اللہ کے اس حکم کو غیر اہم بنانا ہے -

عورت جب جہیز لے کر آتی ہے تو گھر میں اس کی حکومت ہو جاتی ہے اور مکان 50 لاکھ ہوتا ہے تو دس لاکھ جہیز لاکر وہ قبضہ پکا کر لیتی ہے اور پھر عورت کے رشتے داروں کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جاتی ہے اور گھر کے مرد کام دھندے کے لیے گھر سے باہر ہوتے ہیں کہ اب ان کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی بہنوں کی شادی پر دلہن سے زیادہ جہیز دیں گے تو ہماری رہ آنی ہے اور کولہو کے بیل بن کر رہ جاتے ہیں نا وہ نماز روزہ کا فریضہ ادا کر سکتے ہیں نا جہاد اور نا کوئی اور اسلامی کام پورا کر سکتے ہیں ان کو ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ اپنی بہنوں کے لیے جہیز بنانا ہے ورنہ وہ بیاہی نا جاسکیں گی جیسے کہ اس کام کے علاوہ اور کوئی اہم اور ضروری فرض ہے ہی نہیں ہے دنیا میں اور پھر جب عورت کو حکومت یعنی گھر کی حکومت مل جاتی ہے تو وہ اس کا خوب فائدہ اٹھاتی ہے کہ ایک ایک کر کے سارے دینی کام جو ہو رہے ہوتے ہیں ان کا خاتمہ کرتی ہے اور اس کی جگہ جو ٹی وی میں دیکھتی ہے اس کے مطابق زندگی گزارتی ہے اور گھر کی لڑکیوں کو بتاتی ہے کہ میں نے کیسے کیسے پاپڑ بیل کر جہیز بنایا ہے اور کس کس سے دوستی لگائی اور کہاں کہاں جاب کی اور جاب کے لیے کس کس باس کو خوش کیا ہے -

اور میری ماں نے میرے باپ کو اور چچاوں کو کیسے کولہو کا بیل بنایا ہے اور ان کی ایک نہیں چلنے دی اور اس طرح شادی سے پہلے ہی لڑکی عورت بن جاتی ہے اور اپنی عزّت و ناموس کو گنوا بیٹھتی ہے کہ میں نے بھی اتنا نہیں تو اس سے زیادہ جہیز بنانا ہے حالانکہ جہیز دینا ہندووانہ رسم ہے اور مسلمانوں میں جہیز کا لفظ جہاد کے لیے آیا ہے اور اس کے معانی توڑمروڑ کر یوں بیان کیے جاتے ہیں کہ عورت کا یہی جہاد ہے کہ وہ اپنے سسرال میں آکر دودھوں نہائے اور پوتوں پھلے اور کہا جاتا ہے کہ عورت جب بچہ پیدا کرتے کرتے فوت ہو جائے تو اس کو شہادت کا درجہ ملتا ہے لہٰذا عورت کا یہی جہاد ہے کہ وہ بچے پیدا کرے اور ان کو پال پوس کر بڑا کرے اور ان کی اچھی تربیت کرے تو اس جہاد میں عورت کو کامیاب کرنا سب مسلمانوں کا فرض ہے لہٰذا اس کام میں سارے پاکستانی لگے ہوئے ہیں باقی سارے فرائض اس وقت پس پشت ڈالے جاچکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں رہا سب بے بس ہو چکے ہیں ملک قرضوں میں ڈوبتا جارہا ہے تو اسلامی شادی ہے یا ہندوانہ شادی ہے ؟ہمارے ماں باپ اسلامی ماں باپ ہیں ؟ ہمارے رشتے دار اسلامی رشتے دار ہیں ؟ ہمارے بچے اسلامی بچے ہیں ؟ ہماری عدالتیں اسلامی عالتیں ہیں؟ ہماری پولیس اسلامی پولیس ہے ؟ ہماری فوج اسلامی فوج ہے ؟ ذرا خود اندازہ کیجیے کیا یہ اسلام کے ساتھ وفاداری ہو رہی ہے

اسلامی انقلاب لانے کے لیے تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادروں کو اسلامی بنانا ہوگا

کیا اسلامی انقلاب لانے کے لیے جمہوریت کام آسکتی ہے ؟
کیا موجودہ جمہوریت کو اسلامی جمہوریت کہا جا سکتا ہے ؟
کیا ہماری عدالتوں کو اسلامی عدالتیں کہا جاسکتا ہے اورموجودہ عدالتی قوانین کو اسلامی قوانین کہا جا سکتا ہے ؟
کیا ہماری پولیس کو اسلامی پولیس کہا جاسکتا ہے کیا تھانے اور جیل کو اسلامی
تھانہ اور جیل کہا جاسکتا ہے ؟
کیا ہماری فوج کو اسلامی فوج کہا جاسکتا ہے اور آرمی رولز کو اسلامی رولز کہا جاسکتا ہے ؟
کیا ہمارے تعلیمی نظام کو اسلامی تعلیمی نظام کہا جاسکتا ہے اور محکمہ تعلیم کو اسلامی محکمہ تعلیم کہا جاسکتا ہے ؟
کیا ہمارے ذرائع ابلاغ و نشرواشاعت یعنی میڈیا کو اسلامی میڈیا کہا جاسکتا ہے ؟
کیا ہمارے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو اسلامی ادارے کہا جاسکتا ہے خاص طور پر موجودہ میڈیا اور تعلیمی نظام اسلامی ملکوں میں دوریاں پیدا نہیں کر رہے ہیں

جیسا کہ کسی پاکستانی اعلیٰ عہدہ دار کی بیٹی کی شادی ہوئی کسی عرب شہزادے کے ساتھ اور جلد ہی نوبت طلاق تک آگئی اور اس طرح وہ طلاق لے کر پاکستان آ گئی جو طبقے سعودیہ سے حسد اور بغض رکھتے ہیں وہ لڑائی کو طول دینے میں لگ گیے ہیں اور ایک خاندان کی لڑائی کو بڑھا بڑھا کر دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کر دیا گیا ہے جیسے کسی ادارے میں اسسٹینٹ سے کہا جاتا تھا کہ تمھارا سینئر بے وقوف ہے اور سینئر سے کہا جاتا تھا کہ تمھارا اسسٹینٹ بڑا بے وقوف اور نکمّا ہے اس کو کیوں خواہ مخواہ پال رکھا ہے آپ نے وہ کہتا تھا کہ میں اکیلا کام کرتا تھا تو اتنا کام نہیں ہوتا تھا اور دل بھلانے والا بھی کوئی نہیں تھا ایک دن اسسٹنٹ نے کسی چغل خور کو سن لیا اور اس نے اپنے آپ کو بےوقوف نکمّا ہڈ حرام کام چور کہتے ہوئے سن لیا تو اس نے سینئر کے سامنے ہی اس چغل خور کا کچّا چٹھا کھول دیا کہ جو باتیں یہ میرے متعلق آپ سے کر رہا تھا وہ باتیں آپ کے متعلق میرے ساتھ بھی کرتا رہا ہے کہ آپ بے وقوف جاہل ہیں آنکھیں بندروں کی طرح ہیں اور منحوس ہے اور جس کسی کو اپنا اسسٹینٹ بناتا ہے اس کو کھا جاتا ہے اور اپنی نحوستیں اور بری عادتیں اس میں ڈال دیتا ہے جو اس کے ساتھ رہتا ہے اس وہ کہیں کا نہیں رہتا اور سینئر نے مہمان سے بدتمیزی کے جرم میں اسے کھڑے کھڑے بھگا دیا کہ تم اپنی اوقات تو دیکھو لگے ہو ٹکے ٹکے کی باتِیں کرنے یہ سچ کہہ رہا ہے تم واقٰعی کسی کام کے نہیں ہو اس طرح وہ اپنے وفادار اور کام کے آدمی کو کھو بیٹھا اورخود اگلے کام سے بھی گیا

ایسے ہی شہزادے سے کہا جاتا تھا کہ اس کا خاندان بہت علیٰ خاندان ہے وہ دنیا کا سب سے امیر اور قابل خاندان ہے اور آپ کے خاندان کی اس خاتون کے آگے کوئی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے اور وہ خاندان مزارات کی پوجا کرنے والا ہے اور سعودیہ میں میلے ٹھیلے اور مزارات کی تعمیر اور حدود اللہ کے نفاذ کا خاتمہ اور ان کو ایکسٹیریم ازم قرار دلانا اور یہاں پاکستان اور ہندوستان کی طرح جہیز اور دوسری بدعتیں شروع کرنا ان کا مشن ہے اور عرب شہزادے سے متعلق عورت سے کہا جاتا کہ وہ تو بہت ہی امیر ہے اور اعلیٰ خاندان کا شہزادہ ہے وہ تو آپ کو اور آپ کے خاندان کو اتنی اہمییت ہی نہیں دیتا اور اس طرح سے علیحدگی ہوگئی
اسی طرح جن کی جذباتی وابستگی ایران سے ہے وہ سعودیہ کو کہتے ہیں کہ پاکستان آپ کے احسانوں کا ذرا لحاظ نہیں کرتا اور پاکستان سے کہا جاتا ہے کہ سعودیہ پاکستان کو دوسرے غیر اسلامی ملکوں سے کم اہمیّت دیتا ہے اور پاکستانیوں سے جو وہاں کام کے لیے گئے ہوئے ہیں اچھا سلوک نہیں کرتا تاکہ سعودیہ اور پاکستان کے تعلقات میں خرابی اور شکوک شبہات پیدا ہو جائیں اور طلاق ہو جانے کے بعد شہزادے کو کہا جاتا ہے کہ آپ نااہل تھے جو اتنے اعلیٰ خاندان کی عورت کو نکال باہر کیا وہ تو اب سعودیہ پر اقتصادی پابندیاں لگواسکتے ہیں اور خاتون سے کہا جاتا ہے کہ آپ کو ہم نے اتنے اعلیٰ خاندان کے شہزادے سے بیاہا اور آپ وہاں گھر نا بسا سکی اب تو آپ کے ملک کے ساتھ ان کے تعاون میں کمی آئے گی وہ تو اب پاکستانیوں کی بجائے بنگلہ دیشیوں اور ہندوستانیوں کو زیادہ اہمیت دینا شروع ہوگیے ہیں اور پاکستانیوں تیزی سے نکالنا شروع ہو گیے ہیں

اور ہمارے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سعودیہ کا کلچر اور ہے اور ہمارا کلچر اور ہے ہمارے ملک پاکستان میں سعودیہ کی طرح اسلام کا نفاذ نہِیں ہو سکتا یہاں پیروں کے مزارات سے میلے نہیں رکوائے جاسکتے اور مزارات پر جو شرکیہ نذرو نیاز اور سجدے اور پوجا اور قوالیاں اورچڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں لنگر تقسیم ہوتے ہیں ان پر ہر گز پابندی نہیں لگائی جا سکتی ہے سعودیہ کا کلچر الگ ہے اور پاکستان کا الگ ہے افغانستان کا کلچر الگ ہے
شام کا کلچر الگ ہے ترکی کا الگ ہے مصر کا کلچر الگ اور عراق کا الگ ہے بنگلہ دیش کا الگ ہے فلسطین کا کلچر الگ اور لبنان کا الگ ہے
اس طرح سے مسلمانوں کی بہت بڑی قوم کو اقلیتوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تعداد ہندوو سے زیادہ ہے مگر مسلمانوں کو اس طرح اقلیتوں میں تقسیم کیا گیا ہے کہ ہندو اکثریت کی صورت اختیار کر گیے ہیں پاکستان میں کروڑوں مسلمان ہیں ان کو مختلف فرقوں میں بانٹ دیا گیا ہے ہندوستان میں 40 کروڑ مسلمان ہیں ان کو پاکستان سے الگ اقلّیت بنایا گیا ہے بنگلہ دیش میں کروڑوں مسلمان ہیں ان کو اقلییت بنا کر ہندووں نے حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت ہے اس خطےّ میں اور ملک شام میں جوصورت حال ہے وہ تو ان کےتجربات ہیں باقی مسلمان کی باری آنے والی ہے ایک ایک کر کے شام میں جو صرت حال ہے اس کا تھوڑا جائزہ لیتے ہیں

شام میں جنگ میں پسے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی صورت حال کا جائزہ

گذشتہ دنوں شامی حکومت کی طرف سے ادلب کے علاقے میں اپنی ہی عوام پہ کیمیکل بم پھینکے گئے جس کے نتیجے میں سینکڑوں نہتے بےگناہ لوگ شہید ہوگئے موقع کی نزاکت کا فائدہ اٹھانے کیلئے امریکہ بیچ میں براہِ راست کود پڑا اور ایک شامی اڈے کو کروز میزائیلوں سے نشانہ بنایا، امریکہ کی اِس کاروائی کے بعد ملاجلا ردعمل سامنے آیا کسی نے تائید کی کسی نے مذمت کی تو کوئی باالکل لاتعلق رہا لیکن سب سے دلچسب صورتحال پاکستان کے دیسی سُرخوں کی ہے، سیکولرزم کے حامی روس کے نظریاتی حمایتی شدید بےچینی میں مبتلا ہیں، اتنی ہمت و جرات تو ہے نہیں کہ بشاری کیمپ پہ حملہ کے ضمن میں صاف امریکہ کہ مذمت کردیں چنانچہ خفت مٹانے کیلئے مسلم حکومتوں پہ،دائیں بازوکی جماعتوں پہ، اسلام پسندوں اور شامی عوام پہ جگت بازیاں کررہے ہیں نیز اِس گوناگوں کیفیت میں کچھ سادہ لوح مسلمان بھی الجھن کا شکار ہیں شاید اُنہیں کسی بڑے بریک تھرو کی امید ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں موجودہ امریکی اقدامات شامی عوام کی حمایت کیلئے نہیں امریکہ کے اپنے مفاد کیلئے ہیں

روس و امریکہ کے درمیان شام پہ اجارہ داری کیلئے بھرپور زورآزمائی جاری ہے امریکہ کو ایسا شام چاہیئے جو اسرائیل کیلئے بےخطر اور بےضرر ہو روس کو ایسا شام چاہیئے جو شامی حکومت ایرانی حکومت اور اِن کے حواریوں کیلئے محفوظ اور کارآمد ہو امریکہ اگر بشار کا دشمن اور شامی عوام کا ہمدرد ہوتا تو چار سال قبل ہی جنگ میں شریک ہوکر بشار کو ماربھگاتا لیکن تب شامی اپوزیشن اور عسکری تنظیمیں امریکہ کیلئے مسئلہ بن جاتیں اور اُسے لینے کے دینے پڑجاتے افغانستان اِس کی واضح مثال ھے چنانچہ چلاکی سے اب تک روس و ایران کے ذریعے شام کو برباد کروایا گیا اور اُن دو نے اِس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی علاوہ ازیں بشارالاسد نے روس و ایران کی مدد سے شامی عوام کا قتلِ عام کیا اور یہ ایک تاریخی سچائی ھے پیش منظر یہ ہے کہ اب امریکہ وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے
کی کوشش کریگا، جوکہ اب زیادہ دور نہیں اِس سارے قضیئے میں صرف ترکی ہے جو فرضِ کفایہ ادا کررہا ہے ترکی نے شامی مہاجرین کی میزبانی کا حق ادا کردیا ھے مملکتِ سعودیہ ۔ ۔ امریکی چھتری تلے رہتے ہوئے کچھ کرنے کی حقدار نہیں کیونکہ محتاج - مختیار نہیں ہوسکتے جبکہ اکتالیس مسلم ملکی اتحاد ابھی ابتداء کے مراحل میں ھے گویا کہ ہنوز دلی دور است مسلم حکومتوں سے صرف احتجاج کی ہی توقع تھی افسوس وہ بھی لاحاصل رہی بس اللہ سے تعالیٰ سے عافیت
و نصرت کی دعا کی جاسکتی ہے

حسبنااللہ ونعم الوکیل
 

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.