غریب ِ شہر تو فاقوں سے مر گیا حاکم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مرے کو مارے شاہ مدار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دوسرے عباسی خلیفہ اُبو جعفر منصور کے دربار میں خلیفہ سمیت تمام درباری بڑے انہماک سے اُس کی گفتگو سن رہے تھے اور راوی مختلف ممالک کے سفر کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات بیان کر رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا،اَے امیر المومنین.....میں اکثر کام کے سلسلے میں مختلف ممالک کے دورے پر جایا کرتا تھا، ایسے ہی ایک سفر کے دوران جب میں ملک چین پہنچا اور بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ دربار میں افسردگی کا عالم ہے، چین کا بادشاہ بہت غمگین ہے اور زاروقطار رُو رہا ہے، جبکہ اہل دربار بادشاہ کو صبر وسکون کا مشورہ دے رہے ہیں، میں نے صورتحال جاننے کیلئے دربار میں موجود ایک آدمی سے معلوم کیا کہ آخر معاملہ کیا ہے، بادشاہ سلامت کیوں رُو رہے ہیں؟اُس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت کی قوت سماعت چلی گئی ہے اور وہ بہرے ہوچکے ہیں، ابھی درباری کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک بادشاہ نے رُونا بند کردیا اور اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا، اَے میرے مصاحبوں.....میں اسلئے نہیں رُو رہا کہ میرے اوپر مصیبت آن پڑی ہے اور میں سماعت سے محروم ہوگیا ہوں، بلکہ میں اسلئے رو رہا ہوں کہ جب کوئی مظلوم انصاف کیلئے میرا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو میں اُس کی فریاد نہیں سن سکوں گا، لیکن کوئی بات نہیں میں ابھی صرف سننے کی صلاحیت سے محروم ہوا ہوں، میری بصارت تو ابھی باقی ہے اور میری آنکھیں ابھی دیکھ رہی ہیں، پھر اُس نے اپنے وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، جاؤ اور جاکر ساری سلطنت میں یہ اعلان کردو کہ آج کے بعد میری مملکت میں سوائے مظلوم کے کوئی اور فرد لال رنگ کے کپڑے نہیں پہنے گا، صرف وہی شخص لال رنگ کے کپڑے پہنے گا جو مظلوم اور فریادی ہوگا تاکہ میں اُسے دیکھ کر پہچان سکوں اور اُس کی داد رسی کرسکوں۔“راوی نے عباسی خلیفہ اُبو جعفر منصور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،اے امیر المومنین .....اُس دن کے بعد سے جب تک بادشاہ زندہ رہا، چین میں صرف وہی لوگ لال رنگ کے کپڑے پہنتے تھے جو مظلوم ہوتے تھے اور بادشاہ انہیں اِس رنگ کے لباس میں دیکھ کر فوراً اُن کی داد رسی کے احکامات جاری کرتا تھا۔“

قارئین محترم، تاریخ کی کتابوں میں موجود یہ کہانی ایک ایسے درد مند حکمران کی ہے جسے اپنی رعایا کے دکھ درد، تکلیف اور پریشانی کا احساس تھا، جسے اِس بات نے بے چین کیا ہوا تھا کہ قوت سماعت سے محرومی کی وجہ سے وہ مظلوموں کی فریاد نہیں سن سکے گا، اُن کی داد رسی نہیں کرسکے گا، ایک وہ حکمران تھے جو اپنی رعایا کو آرام سکون پہنچانے کیلئے بے چین رہا کرتے تھے، اُن کے مسائل کے حل کیلئے نئے نئے طریقے اور راستے ڈھونڈا کرتے تھے اور ایک یہ حکمران ہیں جو سننے، دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اِن صلاحیتوں سے محروم ہیں، جن کانوں تک کسی مظلوم، کسی مسکین، کسی ضرورت مند فریادی کی آہ و بکا نہیں پہنچ پاتی، جن کی آنکھیں نادار اور مفلوک الحال لوگوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں اور جن کے فہم و اداک ظلم و جبر کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے مسائل اور اُن کے حل سے محروم ہیں، جو اپنے عیش و آرام کی خاطر مظلوم و مفلوک الحال عوام کے مصائب و آلام میں اضافے کیلئے نت نئے طریقے اور بہانے ڈھونڈ کر رعایا پر ظلم و ستم ڈھانے میں مصروف ہیں اور سیلاب کی تباہ کاری اور مہنگائی کے سونامی سے بدحال عوام پر80ارب روپے کے نئے ٹیکسز کا بوجھ لادنے کی تیاری کررہے ہیں،اِن کو اِس بات کی فکر نہیں کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے اور وہ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں،مقام حیرت ہے کہ وہ حکومت جو اپنے آپ کو عوام کا ہمدرد اور خیرخواہ کہتی ہے، جس نے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا، اُسی نے آج غریبوں کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا، اُن کے تن پر کپڑے نہیں رہنے دیے اور مکان کی فراہمی کی تو نوبت ہی نہیں آئی، رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی کہ مکان، دکان تو کیا بستیوں کی بستیاں بہہ گئیں، فصلیں تباہ و برباد ہو گئیں اور لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوگئے، اِس طوفان بلا خیز کے بعد جو بچ رہے ہیں وہ اب مہنگائی کے نئے سیلاب میں ڈوبنے والے ہیں۔

پہلے ہی ملک میں متوسط اور تنخواہ دار طبقہ مہنگائی سے پریشان ہے، ستم ظریفی دیکھئے کہ اب اِسی تنخواہ دار طبقے پر80ارب روپے کے (10%فلڈ،8%سے 15% اربن اور 15%ویلیو ایڈیڈ کی شکل میں) نئے ٹیکس نافذ کرنے اور طاقتور سرمایہ دار اور جاگیردار طبقوں کو اِن ٹیکسوں سے بچانے کی تیاری کی جارہی ہے، تنخواہ دار اور متوسط طبقے پر مزید نئے ٹیکس عائد کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ ِاس ملک سے غریبوں کا صفایا کردیا جائے اور انہیں جینے کے حق سے محروم کردیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی جب بھی بڑھتی ہے تو اِس کا سب سے زیادہ اثر مزدور اور تنخواہ دار طبقے پر پڑتا ہے، جبکہ سرمایہ دار اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر اور مختلف طریقوں سے ٹیکس بچا کر کامیاب ہوجاتے ہیں، بدقسمتی سے آج تک کوئی حکومت ایسی نہیں آئی جو اِن بااثر طبقات سے ٹیکس وصولی کرسکے، یہ سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا، اب تو غریب کی ہمت بھی جواب دے چکی ہے اور حکومت کے خلاف عوام کے ذہنوں میں شدید نفرت پائی جاتی ہے جبکہ معاشی ناانصافی، مالیاتی ناہمواریاں اور امیر و غریب کا بڑھتا ہوا فرق معاشرے میں بے چینی پیدا کررہا ہے، جوں جوں یہ فرق بڑھتا جارہا ہے طبقاتی تقسیم اور خلیج بھی گہری ہوتی جارہی ہے، بھوک، غربت، افلاس اور بیروزگاری بڑھنے کے ساتھ جرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے، غربت، بھوک، افلاس اور بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، چند ماہ قبل ایک غریب اور مقروض رکشہ ڈرائیور نے مالی پریشانیوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے تنگ آکر اپنے بچوں سمیت خود کشی کرلی، اِس سے قبل ایک عورت غربت سے تنگ آکر اپنے بچوں سمیت ٹرین تلے کٹ کر مر گئی، میرپور خاص میں تین دن کے فاقوں سے مجبور ٹی بی کی بیمار ماں کا 13سالہ بچہ دو کلو آٹا چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ماہ سینکڑوں لوگ خودکشی کر رہے ہیں، یہ اعدادو شمار انتہائی ہولناک اور دہلا دینے والے ہیں، خود کشیوں کے ریکارڈ اضافے کی یہ خبر کوئی افواہ یا سازش نہیں بلکہ یہ اعدادو شمار پاکستان اور عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے والی انسانی حقوق نے اکھٹے کئے ہیں، جس کے مطابق جنوری سے ماہ ستمبر کی15 تاریخ تک ایک ہزار640پاکستانیوں نے خود کشیاں کیں، جن میں ایک ہزار161مرد اور479خواتین شامل ہیں، جولائی کے ماہ میں خود کشیوں کی شرح سب سے زائد رہی اور264پاکستانیوں نے حالات سے تنگ آکر اپنی جانیں گنوائیں، جنوری سے ستمبر تک649 افراد نے خود کشی کی کوشش کی جن میں423مرد اور226خواتین شامل ہیں ،یہ اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں عوام خاص کر غریبوں کے حالات کس حد تک بدتر ہوچکے ہیں، یہ بات انتہائی تشویشناک، فکر انگیز اور غور طلب ہے کہ گزشتہ ماہ جس میں رمضان المبارک اور عید الفطر تھی، خواتین سمیت روزانہ 15 پاکستانیوں نے خودکشیاں کیں، آخر پاکستانی اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کے چراغ گل کیوں کر رہے ہیں؟ اِس بات کو جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کا علم ہونا ضروری نہیں بلکہ عام سوچ رکھنے والا فرد بھی یہ جان سکتا ہے کہ پاکستانی خودکشیاں کیوں کر رہے ہیں، سیدھی سی بات ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران مہنگائی نے پاکستان کی تاریخ کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں، بے روزگاری کا ایک سیل رواں ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے، روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے غریبوں کے پاس نہ مال ہے اور نہ اسباب، موجودہ حکومت کے اقتدار کے دوران مہنگائی کی خراب ترین صورتحال کے باعث خود کشیوں کے حوالے سے یہ پاکستان کے لئے بدترین سال ہے، انسانی حقوق کے سابق وزیر اقبال حیدر کا کہنا ہے کہ” رواں سال خود کشیوں کے رجحان میں خطرناک اضافے پر انہیں قطعی حیرت نہیں ہے، کیونکہ جس بڑے پیمانے پر لوگوں میں بے بسی کا احساس پایا جاتا ہے، اسے میں بیان نہیں کرسکتا، اِس پر طرہ یہ کہ مہنگائی آسمان کی حدوں کو پار کر رہی ہے، ایسے میں پاکستانیوں کے لئے مرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے، انہوں نے اِس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ماہانہ 20 ہزار روپے بھی کمانے والا آخر کس طرح اپنی زندگی گزار رہا ہے، انہوں نے حکومتی ترجیحات پر شدید اعتراض کیا، کیونکہ وہ بنیادی ضروریات پر ٹیکس لگارہی ہے، اُن کا کہنا تھا کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے سے لے کر نیچے تک سب کے سب چور ہیں، سب مل کر اداروں کو لوٹ رہے ہیں ۔“

بین الاقوامی پروگرام برائے خوراک کے چیئرمین وولف گینگ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی، گرانی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے سبب لوگوں کی قوت خرید اِس حد تک کم ہوگئی ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد دو وقت کی روٹی خریدنے کے قابل بھی نہیں رہی ہے، سوئس ایجنسی برائے تعاون و ترقی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 48.6 فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے، غربت میں اضافے کی ایک وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے جس پر سالانہ 969 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں، پاکستان کے بجٹ کا 22 فیصد دفاع اور 28 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے، جبکہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات اور شاہانہ مسرفات بھی بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کے لیے کم رقم ہی بچتی ہے، ایک جانب یہ کیفیت ہے تو دوسری جانب امیر خاندانوں کے کتوں کی خوراک کی درآمد پر سالانہ 2کروڑ روپے سے زائد کی رقم خرچ کی جاتی ہے، اِن کتوں کے ماہانہ اخراجات 40 ہزار روپے سے زائد ہیں، اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ جس ملک کی 50 فیصد آبادی خوراک کی قلت کا شکار ہو اور جس ملک کا ایک طبقہ کتوں کی پرورش پر سالانہ 5لاکھ روپے خرچ کردے، خود وزیر خزانہ نے مہنگائی کی بنیادی وجہ زیادہ حکومتی اخراجات کو قرار دیتے ہوئے اور مراعات یافتہ طبقات کی جانب سے ٹیکس ادائیگی میں لیت ولعل پر تاسف کا اظہار کیا ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران مہنگائی میں 44 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے، موجودہ حکومت کے دور حکومت میں مہنگائی نے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں،غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 55 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے، جبکہ اِن تین برسوں کے دوران 50ارب 85کروڑ40 لاکھ کے قرضے معاف کیے گئے ہیں، ملکی معیشت کے حوالے سے وزیر خزانہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ دو مہینوں کے بعد تنخواہوں کیلئے رقم نہیں ہوگی، ایک طرف یہ حال ہے کہ خزانہ خالی ہے، دوسری طرف وہ نظام حکومت جو صرف بیس وزراء سے چلایا جاسکتا ہے، وہاں وزیروں، مشیروں اور پارلیمانی سیکرٹریوں کی فوج ظفر موج سرکاری خزانے پر عیش کر رہی ہے اور حکومت کے اللے تللوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی، دوسری طرف عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہی ہے، اِس کے باوجود بھی یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ عوام کی خدمت کی جارہی ہے، جبکہ عوام گزشتہ دور حکومت سے بھی بدتر حالات میں زندگی کرنے پر مجبور ہیں، لیکن حکومتی حلقوں میں چین کی بانسری بجائی جارہی ہے اور ”ایسا کرینگے، ویسا کرینگے“ کے لولی پوپ سے عوام کو بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے، اصل معاملہ یہ ہے کہ حکومت کو عوامی مسائل کے حل سے زیادہ این آر او کیسز اور اٹھارویں ترمیم سے دلچسپی ہے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کے اعلان فلڈ اور ویلیو ایڈیڈ ٹیکس نافذ کرنے اور امریکہ کی طرف سے اُمرا پر ٹیکس لگانے کے مطالبہ کے بعد جو صورتحال نظر آرہی ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے بروقت اقدامات نہیں کیے گئے، تو مہنگائی کا طوفان تو آئے گا ہی آئے گا لیکن اِس مہنگائی کے بعد عوامی سطح پر نفرت کا جو طوفان سامنے آئے گا اُسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی، موجودہ حکومت سے عوام کی توقعات اِس لئے زیادہ تھیں کہ یہ ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ عوامی اور غریبوں کی جماعت ہے اور جس کا نعرہ ہی روٹی، کپڑا اور مکان ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے نعرے کو سچ ثابت کرنے کیلئے جس قسم کے اقدامات کرنے تھے وہ نہیں کیے اور ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ عوام تو پہلے ہی چیخ رہے تھے، اب عالمی سطح پر بھی پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت، بدانتظامی اور کرپشن کی روک تھام میں ناکامی پر تشویش بھی پائی جاتی ہے، اِن حالات میں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں اور ماہر معاشیات کا اجلاس بلاکر ایسی دور رس پالیسیاں مرتب کرے، جس سے ہوشربا مہنگائی پر قابو پایا جاسکے اور غریب عوام کو باآسانی دو وقت کی روٹی میسر آسکے، اگر اب بھی حکومت نے عوام کی حالت زار کا تدارک نہ کیا اور مہنگائی کے سیلاب پر قابو نہ پایا تو وہ دن دور نہیں جب یہ سیلاب حکومت کو خس خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔
 
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 312850 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More