ناکام پائلٹ

راشد منہاس شہید ایک نوجوان پائلٹ ہمیشہ آسمانوں کی طرف دیکھتا تو اس کی نظر میں ایک کھلا جہان اور وطن کی عظمت کی خاطر کچھ کر گزرنے کا خواب تھا. بیس سالہ راشد منہاس محبت پاکستان میں وطن پہ جانثار ہو گیا اس نے ١٩٦٥ میں پاک فضایہ کے کارناموں سے بہت کچھ سیکھا اور ہر سپاہی کی طرح وہ بھی اپنے وقت پر کچھ ایسا ہی کرنا چاہتا تھا اور پھر جیسے ایک سپاہی کی خواہش ہوتی ہے پروردگار نے اسے ایسی ہی حیات جاوداں عطا کی. عظمت پاکستان کی خاطر جان دینے والے جنونی لوگ تھے، میں اکثر ان دوستوں کو راشد منہاس کی مثال دیتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست دانوں اور پالیسی میکرز کے پاس اور کوئی رستہ نہیں سوائے اسکے کہ وہ سمجھوتے سے آگے بڑھیں.

میں کبھی آرمڈ فورسز میں نہیں رہا مگر میرا تعلق ایک عسکری خاندان سے ضرور ہے– دفاع پاکستان میں میرے گھر سے ہر جنگ میں ایک باوردی شہید ناموس پاکستان میں کام آیا. جب میں پاکستان میں تھا تو وردی والے دیکھے اور پھر ایک صحافی ہوتے ہوئے یہاں برطانیہ میں بھی مجھے کافی سارے فوجی ملے. عسکری تاریخ یا ملٹری ہسٹری ایسے لاکھوں واقعات سے پر ہے جہاں بہادری اور شجاعت کی مثالیں قائم کرنے والے اپنے پیچھے نہ صرف اپنا نام چھوڑ گئے بلکہ وہ ایک سبجیکٹ کی صورت پڑھے جاتے ہیں.

اس روز جب راشد منہاس کا جہاز ہائی جیک ہوا تو آسمان صاف ہی ہوا ہوگا، مہینہ اگست کا تھا اس لیے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ موسم بھی ٹھیک ہوا ہوگا. اپنی مشق کے بعد راشد منہاس نے سوچا ہوگا کہ وہ واپس بیس پر اترے گا اپنے گھر والوں کو ٹیلی فون کرے گا یا پھر دوستوں میں بیٹھے گا. یہ بھی ممکن ہے اس روز راشد نے جب اپنی ڈائری لکھنی ہوتی تو وہ دن کے تمام معمولات کا ذکر کرتا. جیسے ہی راشد کا جہاز ہائی جیک ہوا اور جہاز کا رخ ہندوستان کی سرحدوں کی طرف ہوا تو اس کے لیے فیصلے کی گھڑی آ گئی وہ فیصلہ کہ جس پر اسکی ملکی عظمت اور پاک فضائیہ کی غیرت اور پاکستان کی قومی قدروں کا فیصلہ ہونا تھا– راشد منہاس نے ایک فیصلہ لینا تھا اسے بھی اپنی زندگی پیاری تھی اگر وہ چاہتا تو اپنی خواہشات سے ملکی عظمت کا سمجھوتا کر لیتا اور ممکن تھا کہ ہندوستان میں جنگی قیدی بن جاتا اور پھر کبھی کسی سمجھوتے کے تحت واپس پاکستان لوٹتا– راشد لوٹتا ضرور مگر اس کا سر فخر سے کبھی پرچم پاکستان کو سلامی نہ دے پاتا وہ یہ کبھی نہ کہہ پاتا کہ میں نے اپنی خواہشات اور زندگی سے جو سمجھوتہ کیا ہے وہی میری زندگی کا حاصل ہے.

قوم کے سپوت نے وہ فیصلہ کیا کہ وہ ہمیشہ زندہ ہو گیا عزم حریت کی مثال بن گیا– تاریخ میں ایسا کم کم ہی ہوتا ہے جب کسی کی موت قوم کو نئی زندگی دیتی ہے. اوروں کو زندگی دینے والے سمجھوتے نہیں کرتے اور نہ ہی فیصلہ کرتے وقت اپنے ہونے کا احساس قائم رکھتے ہیں ان کا جنوں ان کی جانثاری ہوتا ہے اور ان کی منزل ان کے بعد آنے والے لوگوں کے لیے نشان منزل بن جاتی ہے.

پاکستان کے شہدا اور سرفروش سپاہیوں کے قصے دلوں کو گرمانے میں جتنا ایندھن مہیا کرتے ہیں پاکستان کے سیاستدانوں کی بدکرداریاں اتنا ہی دکھی کر دیتی ہیں. وہ سمجھوتا جو سپاہیان پاکستان نے نہ کیا ان کے حکمرانوں نے کر لیا اور وہ عظمت جو ان عظیم بیٹوں نے حاصل کی ان سیاستدانوں نے اسے جگہ جگہ لٹایا– اب آتے ہیں کچھ اور سپاہیوں کی طرف یہ سپاہی بھی وردی پہنتے تھے ان کی قسم پریڈ بھی ویسی تھی اور ان کو بھی وہی تربیت ملی جو راشد منہاس جیسے سپاہیان پاکستان کو ملی مگر فرق یہ ہے کہ شرمندگی کی زندگی کو موت پہ ترجیح دینے والے شہدا کی نسبت کچھ جرنیلوں اور حکمرانوں نے ذلت کی زندگی کو اپنا نظریہ حیات بنایا، ملک میں بحران کے راستے ہموار کیے اور آج پاکستان کا تماشہ بنا دیا ہے.

آج پاکستان میں ہزاروں سیاستداں ایسے ہیں کہ جن کے ذاتی اثاثے پاکستان کے قومی خزانے سے زیادہ ہونگے. ان سب کا کاروبار پاکستان سے باہر ہے ان کی اولادیں پاکستان سے باہر ہیں، ان کے سیف ہاؤس پاکستان میں نہیں ان کا انداز زندگانی غیر اسلامی ہے مگر پھر بھی یہ " سب سے پہلے پاکستان" کے نعرے لگاتے ہیں. ان پر جب تنقید کی جاتی ہے تو یہ اپنے جماعتی اور سیاسی نظریہ کو بھول کر یک زبان یک جان اسے اپنے خلاف سازش کا نام دیتے ہیں. جرنیل بننے کے بعد صدر بننے والے اور ملک سے باہر نکالے جانے والے کرپٹ حکمران ہر دفعہ پاکستان کے عوام اور اسکی نظریاتی سرحدوں کا مذاق اڑانے لوٹے– عدلیہ، انتظامیہ اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو وائرس کی صورت کرپٹ کیا اتنا جھوٹ بولا کہ ابلیس بھی ان کی درسگاہ کا طلب علم لگا.

یہ عظیم حکمران اگر کسی قحبہ خانے میں مجرا دیکھتے پکڑے گئے تو انہوں نے میڈیا کوریج کو سازش قرار دیا اگر ان کے گھروں سے منشیات اور شراب پکڑی گئی تو انہوں نے اسے ذاتی عمل کا نام دیا اور جب ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں پاکستان کا پیسہ موجود پایا گیا تو انہوں نے تمام عالمی اور قومی قدروں کا خیال کیے بغیر اپنی کرپشن کے ثبوت مٹانے کے لیے وہ وہ حرکتیں کیں جو اکثر فلموں میں ایک ولن کرتا نظر آتا ہے. آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں جہاں احساس نام کی چڑیا لوگوں کے گھروں کے چھتوں پہ بیٹھا کرتی تھی. ہر ادارہ کرپشن کا شکار ہے اور ہر کوئی اپنے وجود کی حفاظت کے لیے پریشان ہے. پاکستان پہ پاکستانی حملہ آور ہیں کیونکہ انکے حکمرانوں کو عیش و عشرت پیاری ہے ان کے لیے دشمن کی قید عظمت کو زندگی سے اہم ہے– سیلاب میں وہ اپنی زمینیں بچاتے ہیں تو ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں. الیکشن میں ووٹ لینے کے لیے وہ دو چار تقریریں کرتے ہیں تو شہر کے شہر آگ اور خون کا منظر پیش کرتے ہیں.

انکی مرضی کا جب فیصلہ نہیں ہوتا تو وہ عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں اور انکی اولادوں سے تعلیم یا پھر کھیل کے میدان میں کوئی سبقت لے جائے تو ان نوجوانوں کو نہ صرف گرفتار کرواتے ہیں بلکہ ان پہ دہشت گردی کے مقدامات چلاتے ہیں. اپنی بیٹی کو بیاہتے ہیں تو کروڑوں خرچ کرتے ہیں جبکہ قوم کی بیٹیاں پیچ کر لندن میں گھر خریدتے ہیں. اونچے ہوٹلوں کے کھلے کمروں میں بڑی بڑی بوتلوں کے کھلتے ہی ان کی سماجی، سیاسی اور ملکی قدروں کا سارا وقار مٹی میں مل جاتا ہے. اگر ان سیاسی بھیڑیوں کے خلاف کوئی اخبار خبر چھاپ دے تو وہ اخبار تو اخبار ہے پریس ہی جلا دیتے ہیں اور اگر عدلیہ سچ پر ان کا مواخذہ کرے تو ملک میں ایسا سیاسی فساد شروع ہوتا ہے کہ مایوسی سے عوام مرتی اور جیتی ہے.

راشد منہاس کا کاک پٹ کھلا نہیں تھا بلکہ اس کا جہاز کریش ہوا تھا اس نے اپنی مٹی میں شہادت پائی تھی. آج پاکستان نامی طیارہ ہائی جیک ہو چکا ہے اسے بے حس اور کرپٹ پائلٹ اڑا رہے ہیں اور وہ کسی بھی وقت اسے سرحد پار لے جا سکتے ہیں. یہ لوگ کبھی بھی عظمت پاکستان کی خاطر اپنی ذاتی قربانی نہیں دیں گے. انھیں پرچم پاکستان کے سامنے جھکی ہوئی گردن کی کوئی شرمندگی نہیں ہے ان کی نظر سے دیکھا جائے تو ان کے لیے انکی کرسی اور حکمرانی ہی وجہ عظمت ہے – اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کا کیا بنے گا عافیہ صدیقی کی بہن نے عافیہ صدیقی کے معاملے میں جب قمر زمان کائرہ کو ایک نجی ٹی وی چینل پہ یہ کہا کہ اگر عافیہ کی جگہ انکی بیٹی ہوتی تو وہ کیا کرتے اس پر وزیر با تدبیر نے اسے ذاتی حملہ قرار دیا اور انھیں عافیہ صدیقی کی بہن کی ذہنی صحت پہ افسوس ہوا. میری دانست کے مطابق حکمران، سپاہی اور منصف کی اپنی ذات کچھ نہیں ہوتی ان کے لیے قوم کا مفاد پہلا اور حتمی ہوتا ہے ان کے پاس اختیار خدا کی امانت ہوتا ہے اور وہ فیصلے کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ خود کا کیا نقصان ہو گا. حکمرانوں کے لیے قوم اولاد جیسی ہوتی ہے اور جب انکو جوابدہ ہونا ہوتا ہے تو وہ اپنا مواخذہ خود کرواتے ہیں اگر بات سالمیت پاکستان کی ہو تو وہ ملک کی سرحدوں میں موت کو بیرونی اسیری پہ ترجیح دیتے ہیں. آصف زرداری پاکستان کے صدر ضرور ہیں مگر پاکستان کے وجود سے بڑے نہیں ہیں، یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم صرف اس لیے ہیں کیونکہ پاکستان ہے. جناب، قبلہ، محترم، عزت مآب کا خطاب بزور طاقت نہیں بلحاظ کردار ملتا ہے اور اگر آج میڈیا اور عدلیہ وہ کردار ان حکمرانوں کو سکھا رہا ہے تو انھیں سیکھنا چاہیے اگر یونہی چلتا رہا تو یہ جہاز ملک کی سرحدیں عبور کر جائے گا.

فیصل رضا عابدی اور فوزیہ وہاب کی بیان بازی، نواز شریف اور آصف زرداری کی پاکستان اور عوام دوستی، حکمرانوں کی شان میں لکھنے اور بات کرنے والے لوگوں کے سچ، علما کے مباحثوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے فارمولوں کی گہرائی سے سب واقف ہیں. مارگلہ میں کریش ہونے والے جہاز کے مسافروں کا غم اور سیلاب اور دہشت گردی کے شکار عوام کے کرب کو دیکھ کر یہ لوگ خوش ہوتے ہیں. انھیں شاید علم نہیں کہ انکے فارمولے فیل ہو جائیں گے. پاکستان ایک سرد جنگ کا شکار ہے پاکستان کی فوج آج مختلف محاذوں پر دشمن سے نبرد آزما ہے اور اس صورت حال میں اگر ملک کسی اور بحران کا شکار ہوتا ہے تو چوراہوں اور سڑکوں پہ جلنے والے پوسٹروں پہ چھپی حکمرانوں کی تصویروں کی جگہ وہ خود ان شعلوں کی نظر ہو جائیں گے تب نہ انکی شعلہ بیانی کام آئے گی اور نہ انکے بیرونی دوست انکی مدد کو آئیں گے. پرویز مشرف کی جماعت کا برطانیہ سے آغاز ہی غلط ہے یہ پرویز مشرف کی ناکام پالیسی کا غماز ہے قومی جماعتیں قوم کے سامنے انکے درمیان اپنی شناخت بناتی ہیں وہ باہر سے نہ تو تقاریر کرتی ہیں اور نہ ہی سیاست. جمہوریت اور سیاست ایک سلیقے کا نام ہے اب کون ان نو دولتیوں کو یہ سلیقے سکھائے گا. حکمران کی سکیورٹی عوام کی سیکیورٹی ہوتی ہے حکمرانی طاقت سے نہیں کردار سے کی جاتی ہے اور پھر جسے عوام سے پیار ہوتا ہے وہ کبھی بھی ملک کی خاطر جان دینے والوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتے.

سالمیت کا رستہ عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کا مثبت کردار ہے اگر سیاست دانوں کی مرضی ہے تو اس میں حصہ لیں ورنہ دنیا کو ابھی بھی وہ حکمران یاد ہیں کہ جو جب عوامی عدالت میں آئے تو انکا ٹرائل نہیں ہوا بلکہ سیدھے تختے پے لٹکائے گئے اور عبرت کا نشان بنے– کاش ان سیاسی سوچ سے نابلد سیاست دانوں کو اس بات کا علم ہو جائے اور یہ سلامتی پاکستان اور حفاظت پاکستان کو اپنا مقصد بنا سکیں ورنہ کہانی بڑی سنگین ہوگی اور آنے والے وقتوں میں اس کو بیان کرنے والے اسے بھی عبرت کی داستان کہیں گے.
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 69528 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More