ٹیڑھی قطار میں کھڑے لوگ

 بچپن میں سکول اسمبلی کے دوران بڑی پابندی سے لائن حاضر مطلب سکول گراؤنڈسے کلاس تک قطار میں چل کر آتے جا تے تھے،اس وقت دماغ میں چھوٹے پرزے فٹ تھے اس لیٔے ان کی رینج بھی کم تھی سو ٹیچر کے ڈنڈے کے سائے میں بننے والی لائن کو فقط یہ سمجھتے تھے کہ یہ سکول اسمبلی کا اصول ہے کہ بچے گراؤنڈسے کلاس روم تک لائن میں سفر کریں اور کبھی جو سر بھولے سے ٹیڑھا ہوتا تومیڈم پیچھے سے نام پکارتی تو جسم میں خوف کی لہر سرایٔت کر جاتی تھی۔پھر جب گرلز کالج گئے وہاں اسمبلی تو نہ ہوتی تھی البتہ فیس جمع کروانے کے لیٔے قطار میں کھڑے ہونے کا موقع ضرور ملتا تھا۔تب وقت نے کچھ ہوشیاری اور چالاکی سکھا دی تھی سواگر تھوڑے بہت دھکے سے ایک دو نمبر کراس کر کے آگے بڑھ جاتے تو اسے بھی اپنی ایک اچیومنٹ سمجھتے تھے۔ جب دنیا کے نصاب سے اور سبق پڑھا تو پتہ چلا کہ قطار بنانا تو چیونٹیوں اور ریگستان کے اونٹوں کا کام ہے۔ ہم تو باشعور انسان ہیں،ہماری ایک عزتِ نفس اور انا ہے ۔ ہم لائنوں کے چکر میں سر کیو ں کر کھپائیں اور اگر کبھی کھڑا ہونے بھی پڑے تو زمانے سے سیکھی گئی چالاکی کب کام آے گی جو ہم دھکم پیل کا فائدہ اٹھا کر اپنا کام جلد نہ کروا سکیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات کی کتاب سے یہ سبق پڑھنے کو ملا کہ لائن بنانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ دوسرے کو کھڈے لائن لگانا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔کم سے کم ہمارے معاشرے کا تو یہی مزاج بن چکا ہے۔ اس مزاج کی آزمائش گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس افتخار چو ہدری کے بیٹے ارسلان چوہدری نے جدہ ایرپورٹ پر بھی کی وہ اپنے والد کے ہمراہ قطار میں کھڑے تھے کہ انہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش میں لائن توڑ دی جس پر مسافر سے اُن کی ہلکی سی تو تکرار بھی ہوئی پھر والد کے کہنے پر وہ قطار میں آگئے ۔ ارسلان چوہدری پر یہ محاورہ صادق آ تا ہے کہ ماں کے لاڈلے کے ناز چاچی کیونکر اُٹھاے گی ۔وہ غلط جگہ پر وطن کی دی ہوئی ڈھیل کا فائدہ اٹھانے لگے تھے۔وہ سمجھ رہے تھے کہ جیسے وطن میں وہ اور ان جیسے لوگوں پر کوئی قانون اور اصول لاگو نہیں ہوتا ایسے ہی جدہ میں وہ اس آزادی کا فائدہ اٹھا سکیں گے لیکن جدہ میں انہیں پھر سے ’’ؒ ؒؒلائن حاضرـــ‘‘ ہونا پڑ گیاکیونکہ افتخار چوہدری نے اس بات کی بُو محسوس کر لی کہ اگر بات مزید بگڑ گئی تو اس خبر سے ان کی تربیت پر سوال اُٹھے گا۔بظاہر تو یہ معمولی واقعہ ہے لیکن ہائی کلاس کے اس مزاج کی وجہ سے قوم کو بہت خساروں سے گزرنا پڑا ہے۔ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں چوڑے، موچی اور گامے مستری سے لے کر ایک مڈل کلاس کے سفید پوش اور درمیانے درجے کے کاروباری آدمی کے لیٔے تو قانون کی پکڑ بہت مضبوط ہے وہ چار پیسے کی ہیرا پھیری بھی کرے تو اس پر قانون کا شکنجہ ایسا کھینچا جا تا ہے اس کے جسم کی ہڈیاں چٹخ جاتیں ہیں اور کروڑوں اور اربوں کا ڈاکہ ڈالنے والوں کے لیٔے قانون کی بیڑیاں ناپایٔدار ہو جاتی ہیں اسے بچانے کے لیٔے مزید لٹیرے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہاں لوٹا لوٹے کا تحفظ کرتا ہے،چور چور کا اور ڈاکو ڈاکو کا کیونکہ ان سب کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ایک کی پکڑ دوسرے کے لیٔے خطرے کا الارم ہوتی ہے ہمارے ہاں کوئی ایسی سنہری مثال موجود نہیں ہے کہ جس پر سب ایک قطار میں کھڑے ہوں اسی لیٔے ہم مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں اگر ہم اتحاد کی قطار میں کھڑے ہوتے تو بدامنی کے بیج ہماری زمین میں جڑیں نہ پکڑتے،اگر ہم باہمی اتفاقِ رائے کی لائن میں موجود ہوتے تو ہمارے بڑے منصوبے فائلوں میں دب جانے کی بجائے ا پنے پورے ثمرات کے ساتھ کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچتے۔ہمارے سیاستدان غریبوں کوکوٹ کچہری کی راہ دکھا کر خو ش ہوتے ہیں کہ ملک میں انصاف ہے۔یہ تیتر اور بٹیر کے شکاری ہیں اژدہوں اور مگر مچھوں پر قابوپانے والا دل نہیں رکھتے۔ان کی چوہدراہٹ کے سائے میں موجود ہم سب ٹیڑھی لائن میں کھڑے ہیں جہاں ہر شخص دوسرے کے لیٔے اجنبی ہے بلکہ دوسرے کی ضد ہے وہ اسے اپنا سایہ بھی دینے کا روادار نہیں یہ ہمارے سیاستدانوں کا مزاج ہے لیکن ان کی دیکھا دیکھی قوم کاانداز بنتا جا رہا ہے۔
ختم شد

NUSRAT JABEEN MALIK
About the Author: NUSRAT JABEEN MALIK Read More Articles by NUSRAT JABEEN MALIK: 12 Articles with 7982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.