انقلاب کیوں نہیں آتا؟

ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے دو بہت اچھے کام کیئے جو کہ آج تک پاکستان کا پلر سمجھے جاتے ہیں۔
١۔ ایٹمی صلاحیت کے حصول کا آغاز۔
٢۔ ١٩٧٣ کا آئین۔

پاکستان میں ١٩٧٣ کا آئین ایک انقلابی آئین ہے جو کہ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا متفقہ آئین ہے۔ اس آئین میں آرٹیکل ٦٢ اور ٦٣ جیسے دفعات موجود ہیں جس کی آجکل مثالیں دی جاتی ہیں جس میں قرآن کو سپریم لاء قرار دیا گیا ہے۔

ہمارے اس آئین کی مثال اس طرح ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس قرآن تو موجود ہے لیکن اس پر عمل پیرا کوئی نہیں ہے، ہمارے پاس آئین تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد مفقود ہو گیا ہے۔ آئین کے تحت انتخابات کا انعقاد اب ناممکن سا ہو گیا ہے۔ ہم اپنے آئین کے پہلے سبق سے ہی منحرف ہیں، ہماری سیاسی پارٹیاں جو امیدوار سامنے لاتی ہیں ان کا کردار کہیں نہ کہیں آئین سے متصادم نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کو این آر او جیسا کالا قانون لانا پڑا اور جعلی ڈگری کے کیس میں کئی ممبر پارلیمنٹ گھرے ہوئے ہیں۔

جب ہم انتخابات کی بات کرتے ہیں تو انتخابات میں عوام کی ووٹننگ کی شرح ٣٠ فیصد سے زیادہ نہیں رہتی۔ عوام کی اس عدم دلچسپی کی وجہ سے ٣٠ فیصد لوگوں کی رائے باقی کے ٧٠ فیصد لوگوں پر مسلط ہو جاتی ہے، عوام کے اس نیوٹرل ازم کی وجہ سے خود عوام پر سالہ سال سے کیا بیت رہی ہے اس سے ہم خود ہی واقف ہیں۔

عوام کے اس نیوٹرل ازم کے بارے میں اللہ کا قانون ہے کہ جب حضرت صالح علیہ سلام سے عوام نے کہا کہ اگر تو نے اس پہاڑ میں سے اونٹنی نکال دی تو ہم تیرے خدا پر ایمان لے آئینگے پھر انہوں نے دعا کی تو اللہ نے پہاڑ سے اونٹنی نکال دی، اس کے بعد اللہ کا حکم ہوا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے اس کو تنگ نہ کرو تو بھر کچھ شر پسندوں نے اس اللہ کی اونٹنی کو قتل کر دیا اور پھر اللہ کا عذاب اس ساری بستی پر نازل ہوا۔ اس سارے معاملات میں، میں آپ کو یہ سمجھانا چاہ رہا ہو کہ اونٹنی کا قتل تو صرف چند شر پسندوں نے کیا تھا لیکن اللہ کا عذاب اس پوری بستی پر کیوں نازل ہوا؟ اللہ چاہتا تو صرف ان گنہگاروں کو سزا دیتا لیکن ایسا اس لیے ہوا کہ باقی لوگ تماشائی بنے دیکھ رہے تھے کسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہی کی۔ یہ تھا عوام کا نیوٹرل ازم۔ ۔

ہمارے سیاست دانوں نے تو الیکشن میں دھاندلی کی حد ہی کر دی ہے وہاں گاؤں دیہات میں چوہدری اور وڈیرے اور شہروں میں ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں، کراچی میں پچھلے الیکشن میں جب میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ووٹ ڈالنے گیا اس وقت ایم کیو ایم کی طرف سے اسرار العباد خان امیدوار تھے وہاں پولنگ اسٹیشن پر کھڑے ایم کیو ایم کے جانثاروں نے کہا کہ راشد صاحب آپ کا ووٹ کاسٹ ہو گیا ہے میں نے یہ سن کر حیرت کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ آپ چاہیں تو کسی اور کی جگہ ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔

کیا بنے گا پاکستان کا جب پڑھے لکھے مڈل طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ دھاندلی کریں گے تو کیا چودھری اور وڈیرے پیچھے رہیں گے؟؟؟؟؟

بقول ہمارے صدر صاحب کے کہ سیاسی اداکار ہی تبدیلی لا سکتا ہے۔ انہوں نے سچ کہا کہ یہ سب کے سب سیاسی اداکار ہی ہیں اور اداکار فلم کے شروع سے آخر تک صرف جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اس کا مقصد لوگوں کا ٹائم پاس کرنا اور ڈائریکٹر صاحب سے بھاری فیس لینی ہوتی ہے اور یہ سیاسی ڈائریکٹر کیا ہوتے ہیں اس کے بارے میں بعد میں بیان کیا جائے گا۔