افغانستان سے محبت۔ پاکستان کی تباہی؟

دین اسلام ہمیں بھائی چارہ و اخوت کا درس دیتا ہے جس کی مثال پاکستان نے 1980میں سوویت وار کے دوران افغانیوں کی مدد کر کے دنیا کو دی۔ ریکارڈ کیمطابق تقریباتیس لاکھ سے ذائد افغان رفیوجیوں کو پناہ دی گئی ، پاک افغان سرحد پر 340افغان رفیوجی کیمپ لگائے گئے ۔جب پاکستان معر ض وجود میں آیا تو سب سے پہلے افغانستان نے ہی پاکستان کے وجود سے انکار کیا تھالیکن پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی اس وجہ سے پاکستان کی حکومت ، پاک آرمی اوریہاں بسنے والے کروڑوں پاکستانیوں نے مشکل وقت میں افغانیوں کے ساتھ بھائی چارہ کی مثال قائم کر کے پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا ، بلکہ ا فغانستان کے سابقہ صدر حامد کرزئی سمیت دیگر بڑے بڑے عہداراں کو بھی پناہ دی جنھوں نے بعد ازاں پاکستانی کاغذات لے کر امریکہ اور دوسرے ممالک میں جا کر پاکستان کی ہی ساخت کو نقصان پہنچایا اور یہ لوگ انٹرنیشنل میڈیا پر پاکستان کے خلاف غلط بیانات دیتے آئے ہیں اور ابھی بھی دے رہے ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے نا صرف 1980میں بلکہ 2001میں بھی جب امریکہ اور الائیڈ فورسسز نے افغانستان میں دوبارہ آپریشن شروع کیا تو ایک مرتبہ پھر حکومت ، آرمی اور پاکستانیوں نے بھائی چارہ محبت و اخوت سے جذبہ سے سر شاد ہو کر ناصرف افغان رفیوجیوں کی مدد کی ۔ 2001کے بعد پاکستان میں افغان رفیوجیوں کی تعداد 50لاکھ سے تجاویز کر گئی ۔ یہ افغان پناہ گزیر نا صرف پاکستان میں رہائش پذیر ہوئے بلکہ پاکستانی حکومت اور عوام نے انہیں کاروبار کرنے کے مواقع بھی فراہم کئے صر ف پشاور میں افغان ٹریڈرز نے اربوں روپے کا کا روبار کیا لیکن آج تک ایک پھوٹی کوڑی بھی ٹیکس کی شکل میں پاکستان حکومت کو ادا نہیں کی۔ اسی طرح 2005کے زلزلہ کے دوران بھی پاکستانیوں نے خدمت خلق کے جذبہ کے تحت بھر پور طریقہ سے امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا ۔

اب میں پاکستانیوں کی نظر اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں کہ ان سب رفاہی ، فلاحی، اخلاقی اور بھائی چارہ کے جذبہ سے سر شار کاموں کا ہمیں بھاری خمیازہ بھی بھگتنا پڑرہا ہے ۔ سب سے بڑاخمیازہ دہشتگردی کی شکل میں ملا،ہمارا ملک عرصہ کئی سالوں سے دہشتگردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے ، حساس اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پا کستان میں ہونے والی دہشتگردی میں 90فیصد افغان رفیوجی شامل پائے گئے ہیں جو بظاہر تو اپنے اپنے کاروبار کررہے ہیں لیکن اندر ہی اندر وہ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں لگے ہیں جو انشاء اﷲ قیامت تک ممکن نہیں۔ 2014 میں APS آرمی پبلک سکول پشاور میں دھماکہ سے 144 طالب علم شہید ہوئے تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ اس واقعہ میں 6 افغان آرمی افسران شامل تھے جنہیں بعد میں افغانستان ایجنسی نے گرفتار کرلیا تھا۔ 2015ء میں طورخم بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہوکر چند افغان دہشتگردوں نے باشا خان یونیورسٹی میں دھماکہ کیا۔ مون مارکیٹ دھماکہ میں بھی افغانی شامل تھے۔ گلشن اقبال پارک لاہور میں عوام کے خون کی ہولی کھیلی گئی اور ابھی چند روز قبل چیرنگ کراس مال روڈ پر میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے دھرنے کے دوران خودکش دھماکہ کیا گیا جس میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ایک اورخمیارہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو منشیات جیسی خطرناک بیماری میں لاحق پا کر ملا ۔حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق صرف افغانستان سے سالانہ 90 فیصد ہیروئن سمگل ہوکر سینٹرل ایشیاء تک جاتی ہے۔ افغانی نا صرف منشیات بلکہ ہر طرح کے غیر قانونی کاموں میں ملوث پائے گئے ہیں جو کہ نہ صرف پاکستان کی عوام کیلئے خطرہ ہیں بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب کررہے ہیں اب تک 150000 سے زائد پاکستانی افغان رفیوجیوں کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی جا ملے ہیں ۔ یہ افغان مہاجرین رہ تو پاکستان میں رہے ہیں لیکن وہ پاکستان کی جڑوں کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔اور اب جب پاک آرمی نے افغانیوں کیخلاف آپریشن شروع کیاہے تو پاکستان میں شدت پسند عناصر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ، ناصرف افغانستان بلکہ پاکستان کے دیگر مخالف ممالک جس میں بھارت سرفہرست ہے پاکستان کا امن تباہ کرنے کی کوشش میں ہیں اورافغانیوں اور بھارتیوں نے پاک آرمی اور حکومت کے اس اقدام پر پاکستانی پرچم کو نظر آتش کر رہے ہیں ۔ اور اب پاکستان کی تقدیر سی پیک منصوبہ کی وجہ سے بدلنے لگی ہے جو کہ کسی کو بھی ہضم نہیں ہورہی کیونکہ پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کی نظر اب پاکستان کی طرف ہے۔ اس وجہ سے بھارت، امریکہ ، دبئی، افغانستان اور دیگر ممالک پاکستان کو کبھی بھی پھولتا پھلتا نہیں دیکھنا چاہتے جو ہم سب کو پتہ ہے ، افغانستان نے ہر موقعہ پر پاکستانیوں کے خلاف ہی اقدامات میں حصہ لیا ہے۔ بھارت کے ساتھ افغانستان کے تعلقات بھی بہت استوار ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ افغانستان پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ہمیشہ ہی بھارت کا ساتھ دیتا آرہا ہے جس کے بدلہ میں بھارت افغانستان کی ہر لحاظ سے امداد کرتا چلا آرہا ہے۔ ابھی بھی بھارت نے 300 ملین امریکی ڈالر کی امداد افغانستان کو دی ہے جس کا پوری دنیا کو علم ہے۔ اس کے علاوہ پس پردہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے جو امداد کی جاتی ہے اُس کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان ان فنڈز کو پاکستان میں تخریب کاری، دہشتگردی اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کیلئے استعمال کررہا ہے۔ افغانستان اور بھارت کی بارڈر لائن پر 70 کے قریب صرف بھارتی سفارت خانے موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشتگردی کی فضاء کو ہوا دینے کے لئے احکامات جاری ہوتے ہیں۔
اب ان سب معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان اور پاک آرمی نے مشترکہ طور پر افغان رفیوجیوں کو دوبارہ اپنے ملک واپس بھیجنے کیلئے آپریشن کافیصلہ کرکے آغاز کردیا ہے جس کو مکمل کرنے کیلئے پاکستان میں پناہ گزیر افغانیوں کی لسٹیں تیار کی جارہی ہیں۔ ایسے افغانی جن کے پاس کوئی کاغذات نہیں ہیں ان کی الگ لسٹیں تیار کی جارہی ہیں۔ ایسے افغان جنہوں نے پاکستانیوں کے ساتھ رشتہ داریاں کرلی ہیں اُن کی الگ لسٹیں تیار ہورہی ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی لسٹیں تیار کی جارہی ہی جو پاکستان کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں کیونکہ جب افغان مہاجرین پاکستان آئے تھے تو بغیر کاغذات کے یہاں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ ایسے افغانیوں کی لسٹیں بھی تیار کی جارہی ہیں جنہوں نے پختونوں کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے پختون پاکستان ہیں جنہوں نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن بظاہر خدوخال ایک جیسے ہونے کی سے اکثر اوقات ہم افغان اور پختون میں فرق نہیں کرپاتے ہاں لیکن پختونوں میں بھی چند ایسے بھی ہیں جو افغانستان کیلئے کام کررہے ہیں۔گذشتہ روز سکیورٹی اور حساس اداروں نے پشاور میں مختلف مقدمات دہشتگردی، اقدام قتل، قتل و غارت، چوری اور منشیات فروشی جیسے مقدمات میں مطلوب ہزاروں افغانیوں اور پختونوں کی لسٹیں تیار کی ہیں جن میں سے 18000 سے زائد افغانیوں کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔

(گھرکا بہتی لنکا ڈھائے ) ایسی ہی حالت ہماری ہے آج سے کچھ عرصہ پہلے بھی افغان رفیوجیوں کے خلاف آپریشن شروع ہوا تھا لیکن اُس دوران بہت سے افغانیوں نے ہمارے ہی ملک کے لوگوں سے مل کر اپنے شناختی کارڈ بنوائے۔ جائیدادیں خریدیں، رشتہ داریاں کرلیں، ہمارے کچھ پاکستانی بھائیوں نے پیسوں کی خاطر اپنے ہی ملک کے دشمنوں کو پاکستان میں رہ کر تخریب کاری، دہشتگردی کا لائسنس دلا دیا تھا۔ جس پر بعد میں وزارت داخلہ نے نوٹس لے کر لاکھوں کی تعداد میں افغانیوں کے پاکستانی شناختی کارڈ منسوخ کردیئے تھے کیونکہ ان افغان رفیوجیوں نے ان شناختی کارڈوں پر سمیں رجسٹرڈ کرواکر پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ افسوس کہ جن ناموں سے شناختی کارڈ بنے عجیب و غریب تھے مثلاََ وزیر اعظم، اسلام آباد، پاگل خان، افغانستان خان، بوتل خان، چڑیا خان جیسے ناموں سے بنے جو منسوخ کردیئے گئے ہیں اور اب ایک دفعہ پھر پاک آرمی نے افغانیوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے جو کہ پاکستان مخالف ممالک کو راس نہیں آرہا ہے۔ اس کیلئے انہوں نے ہمیشہ کی طرح ہمارے ہی سیاستدانوں کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ معذرت کے ساتھ یہاں کہنا چلوں کہ ہمارے کچھ پاکستان اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے پاکستان کے مخالفوں کی مدد کرتے چلے آرہے ہیں اقتدار کے بھوکے لوگ ووٹوں کے حصول کے لئے پاکستانی مخالف عناصر کی بھی آؤ بھگت میں لگے رہتے ہیں اور اب جبکہ افغانیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا جا رہا ہے وہاں اس آپریشن کے اثرات کوذائل کرنے کیلئے پاکستان مخالف عناصر پاکستان کے چاروں صوبوں کی عوام میں اختلافات بڑھانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں ، جس کی مثال میں گذشتہ دنوں سے مختلف شہروں میں چلنے والے کنونشن کی دوں گا جن میں آنے والے پختون تو ہیں ہی لیکن ساتھ ایسے افراد کی تعداد بھی آتی ہے جن کا تعلق کادہشتگردتنظیموں کے ساتھ ڈکلیئر ہو چکا ہے یاں ان کے خلاف انوسٹ یگیشن چل رہی ہے ۔کچھ افغانیوں نے تو پختونوں کا لبادہ کچھ نے صحافیوں کالبادہ اوڑھ رکھا ہے اورحکومتی سپورٹ سے ہونے والے ان کنونشن میں آرہے ہیں جس کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ مختلف مقامات پر افغانیوں کی جانب سے عام شہریوں پر تشدد کرنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں گذشتہ روز پنجاب کے ایک صنعتی شہر میں افغان رہائشی پذیروں نے کوائف مانگنے پر ایک تاجر کو بُری طرح تشدد کرکے زخمی کردیا تھا اور بعد ازاں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے موقعہ سے فرار ہوگئے تھے۔

خدا را! پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے پاکستان کو کسی غیر سے مدد مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انشاء اﷲ اب وہ وقت دور نہیں جب یورپ کی طرح پاکستان میں بھی عوام کے بنیادی حقوق اُن کو اُن کی دہلیز پر میسر آئیں گے۔ پاکستان ضرور ترقی کرے گا لیکن اُس کے لئے ہمیں مل کر پاکستان دشمن عناصر کا مقابلہ کرنا ہوگا اور پاک آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر پاکستان کو دہشتگردی جیسے گھناؤنے مسئلے کو حل کرکے پاکستان کو روشنیوں کا ملک ثابت کرنا ہوگا جو کہ عوام کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔
Arslan Mughal
About the Author: Arslan Mughal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.