فوجی عدالتوں کی توسیع وقت کی اہم ضرورت ؟

ایک طبقہ فوجی عدالتوں کے حق میں اور دوسرا اس کے قیام کو حکومت کی ناکامی تصور کر رہا ہے
 2017ء کے ترمیم شدہ بل میں کسی بھی مشتبہ شخص کو حراست میں لئے جانے کے وقت، اسے اپنے اوپر عائد الزامات کو جاننے اور پڑھنے کی اجازت ہوگی، اسے 24گھنٹے کے اندر فوجی عدالت کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے،اب ملزم کو اپنا وکیل منتخب کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا

اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ وطن عزیز پچھلے کئی سالوں سے حالتِ جنگ میں ہے،آئے روز دہشتگردانہ واقعات ملک میں انارکی پھیلانے میں کامیاب ہو رہے تھے ۔متعدد دہشت گردانہ واقعات رونما ہونے سے بے شمار جانی و مالی نقصان ہوا۔ہر طرف خوف اور بے یقینی کا عالم تھا کہ یہ دہشت گرد کون ہیں،جوماؤں کی گود اجاڑنے،گھروں کا چراغ گل کرنے،بہنوں کے لاڈلے بھائی اورسہاگنوں کا سہاگ چھیننے،معصوم پھولوں کو یتیم و بے آسرا کرنے کے لیے کہاں سے آئے ہیں؟ایک دہشتگردانہ لہر تھی جس کی لپیٹ میں ہر کوئی تھا ،پھر سانحہ اے پی ایس رونما ہوئے اس حملے میں 150سے زائد طلبہ اورعملے کے ارکان شہید ہوئے تھے ،اس حملے نے پتھر دلوں کو بھی موم بنا دیا اور پورے ملک کو سوگ میں مبتلا کر دیا ،اسی حملے نے برداشت کی تمام حدوں کو ختم کر کے پوری قوم کو متحد کیا اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم اٹھایا ۔جس کے نتیجے میں فوجی عدالتیں قائم ہوئی واضح رہے کہ 16دسمبر2014کوآرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردانہ حملہ ہوا اور جنوری2015میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔اور اب ایک بار پھرقومی اسمبلی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں 2سال کی توسیع سے متعلق 28ویں آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ میں مزید توسیع کا بل 2تہائی اکثریت سے منظور کیا ہے۔ گزشتہ2سال کے عرصے میں فوجی عدالتوں نے160 مجرموں کو موت کی سزائیں سنائیں جبکہ ان میں سے صرف 20 پر عملدرآمد ہوسکا۔ 2015ء کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر عائد پابندی ختم کردی گئی جس کے نتیجے میں عام عدالتوں سے سزا پانے والے 400سے زائد مجرموں کو تختہ دار تک پہنچایا گیا۔فوجی عدالتوں کے قیام کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ملک میں جاری دہشت گردی کے باعث عدالتی عملے کو جان کے شدید خطرات لاحق تھے اس لئے فوجی عدالتوں کا قیام ضروری خیال کیا گیااس کے علاوہ بیرونی دنیا پاکستانی عدالتوں بالخصوص فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزاؤں میں عدم شفافیت کی شکایت کرتی ہے لیکن دہشت گردی کو روکنے اور موت کی سزا بحال ہونے میں فوجی عدالتوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تحسین ہے کیونکہ قاتلوں اور دہشت گردوں کو عبرتناک سزاؤں سے دوچار کئے بغیر معاشرے میں امن و انصاف کا قیام ممکن نہیں ہے۔

ملک کا ایک طبقہ جہاں فوجی عدالتوں کے حق میں ہے تو دوسرا طبقہ اس کے قیام کو حکومت کی ناکامی ثابت کرنے پر تلاہوا ہے۔ان کا موقف یہ ہے کہ اگر حکومت سنجیدگی سے دہشتگردی کے خاتمہ کا سوچ لے تو سویلین عدالتوں کے ذریعے بھی یہ کام ہو سکتا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے ارکان پالیمان آئینی و قانونی ذمہ داریاں فوجی عدالتوں کے سپرد کر کے خود 2سال کے لیے آرام فرمائیں گئی کہ کم از کم مزید 2سال سویلین عدالتی نظام اور تفتیش کاری کو انصاف کے جدید تقاضوں میں ڈھالنے سے جان چھوٹ جائے گی۔حیرانگی کی بات یہ بھی ہے کہ جب بھی نواز شریف کی حکومت آتی ہے تو حکومت کو یا تو سڑکیں بنانا یاد آتی ہیں یا پھر عدالتیں۔ پہلے حکومت نے تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت خصوصی عدالتیں بنائیں اور اب فوجی عدالتیں۔اس میں کسی کو شک نہیں کہ آج عدلیہ جو آزاد اور غیر جانبدار ہے اس میں بھی مسلم لیگ نواز کا ہاتھ ہے۔

فوجی عدالتوں کے سامنے دو طرح کے ملزم لائے جاتے تھے۔ ایک وہ جن کے مقدمات سویلین انتظامیہ نے’ جیٹ بلیک ‘قرار دے کر عام عدالتوں سے ادھر منتقل کیے۔واضح رہے کہ خود کش جیکٹس یا بارودی مواد کیساتھ پکڑے جانے والے دہشتگردوں کے ساتھیوں اور سہولت کاروں کو ’’جیٹ بلیک ‘‘ قرار دیا جاتاہے۔ دوسرے وہ

جو پہلے سے زیرِ حراست یا ایجنسیوں کی تحویل میں تھے۔ گزشتہ فوجی عدالتوں نے اپنی معیاد کے دوران274 افراد کو سزائیں سنائیں۔ ان میں161 کو سزائے موت سنائی گئی۔17 کی سزا پر عمل درآمد ہوا۔ باقی اعلیٰ سول عدالتوں میں اپیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ جبکہ 113کو مختلف المعیاد قید کی سزائیں سنائی گئیں۔حالانکہ مقدمات کی سماعت خفیہ طریقے سے ہوئی، دلائل، ثبوت، فردِ جرم اور فیصلے کی تفصیلات بھی عام ملاحظے کے لیے سامنے نہیں آئیں۔ ملزموں کو اپنی پیروی کے لیے سول وکلا کی خدمات بھی میسر نہ ہو سکیں۔

فوجی عدالتوں کی مدت7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے اور حکومت اس میں مزید دو سال کی توسیع کی خواہش مند ہے۔28 ویں آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ میں مزید توسیع کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ قومی اسمبلی کے255 ارکان نے حمایت اور 4 ارکان نے بل کی مخالفت کی۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت253 اور4 نے مخالفت کی۔ ان میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی شامل تھے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے بل میں ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے تمام ترامیم کو مسترد کردیا۔ جے یو آئی (ف) کے ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا، مخالفت کرنے والے ارکان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنمامحمود اچکزئی، عبدالقہار خان، نسیمہ حفیظ پائنزئی اور آزاد رکن جمشید دستی شامل تھے۔ 28ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کیے، اسپیکرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے دونوں بل پر شق وارمنظوری لی جبکہ ایوان کی جانب سے پیش کی گئی چار ترامیم پر بھی ووٹنگ کرائی گئی جسکی ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دی۔ فوجی عدالتوں میں توسیع کے قانون میں پارلیمانی رہنما ؤ ں کی مشاورت اور اتفاق سے چار ترامیم کوبھی قانون کا حصہ بنایا گیا ہے جنکے تحت گرفتار ملزم کا24 گھنٹے کے اندرریمانڈ اور گرفتاری کی وجوہات بتانا ہونگی ، قانون شہادت کے تحت ملزم کو مراعات حاصل ہونگی اور قانون شہادت 1984کااطلاق ہوگا، مذہب اور عقیدے کے غلط استعمال کو بھی دہشت گردی تصور کیا جائیگا اور ملزم اپنے مقدمے کی پیروی کیلئے پرائیویٹ وکیل کی خدمات حاصل کر سکے گا یا ریاست اسے قانونی دفاع میں مدد کریگی۔ آئینی ترامیم کے بل میں نعیمہ کشور ، صاحبزادہ طارق اﷲ ، جمشید دستی اور ایس اے اقبال قادری کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم بھاری اکثریت سے مسترد کردی گئیں۔ بلوں پر ووٹنگ کے وقت وزیراعظم نوازشریف بھی ایوان میں موجود تھے۔ بلز پر ووٹنگ کیلئے ارکان اسمبلی کے ارکان کو کھڑا ہونے کیلئے کہا گیا،سوائے 4 ارکان کے ایوان میں موجود تمام ارکان نے کھڑے ہوکر بلز کی حمایت کی۔ بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ’’ سلامتی چیلنجز کے باعث بل پیش کیاکہ جنوری2015ء میں دہشت گردوں سے موثر طورپر نمٹنے کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی تھی اور فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ آرمی ایکٹ پہلی مرتبہ 1952ء میں منظور کیا گیا تھا۔2015کے ترمیم بل میں اب جو مزید ترمیم کی گئی ہے اس کے نکات میں چار اضافے کئے گئے ہیں‘‘
28ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1:یہ ترمیم 7 جنوری 2017 سے لاگو ہوگی
2:ایکٹ کے تمام احکامات تاریخ آغاز سے اگلے 2 سال تک نافذ العمل ہوں گے
3:مدت کے اختتام کے بعد ترمیم کے تمام احکامات از خود منسوخ تصور ہوں گے
4:ریاست مخالف اقدامات کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے
5:سنگین اور دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے
6:مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے مقدمات بھی فوجی عدالتیں دیکھیں گی
آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترامیم:
اول ترمیم: دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزم کو اس کا جرم بتایا جائے گا
دوم ترمیم: ملزم کو 24 گھنٹے کے دوران فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا
سوم ترمیم: ملزم کو مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہوگی
چہارم ترمیم: قانون شہادت کا اطلاق ہوگا
فوجی عدالتوں کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی قرارداد منظور

اس ضمن میں فوجی عدالتوں کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی قرارداد منظورکرلی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک منظورکی گئی جس کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اسپیکر ایاز صادق ہوں گے،کمیٹی فوجی عدالتوں کی کارکردگی سے متعلق امور کی نگرانی کرے گی۔اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی جانب سے فوجی عدالتوں کے بل میں ترمیم کے لیے تجاویز پیش کی گئیں تاہم انہیں مسترد کردیا گیا۔

فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ’’ 2015میں آئین میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی تھی جنوری 2017میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت ختم ہو گئی تھی۔اسوقت ملک جس صورتحال سے دوچار ہے مفاہمت اہم ضرورت ہے۔پارلیمانی کمیٹی میں سینیٹ کے پارلیمانی رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا اور فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کی مفاہمت ہوئی جبکہ آرمی ایکٹ میں ترمیم پر بھی اتفاق ہوا۔ دونوں قوانین کے اصل مسودے کو بنیادی دستاویز قرار دی کر مزید چار ترامیم تجویز کی گئیں جنہیں بلز کا حصہ بنایا گیا ہے۔ملک میں جوڈیشل اصلاحات ہونی چاہئیں تاکہ ہمارا عدالتی نظام اس کو خود ہی اپنا لے اس حوالے سے فیصلہ ہوا تھا کہ نیشنل سکیورٹی پر پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائیگی اوراس کیلئے قرارداد تیار کر لی گئی ہے۔ فوجی عدالتوں میں توسیع نظریہ ضرورت کے تحت نہیں کر رہے بلکہ یہ قومی ضرورت ہے۔ امریکا جیسے ملک میں بھی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قانون میں تبدیلیاں کی گئیں، ضرب عضب آپریشن کی کامیابیوں، کراچی میں امن اور آپریشن ردالفساد کے ساتھ فوجی عدالتوں کی ضرورت موجود ہے۔ اﷲ کرے دوسال بعد اسکی ضرورت نہ رہے۔
‘‘
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس عرصے میں عدالتی نظام کو بہتر نہیں بنایا جس کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنا پڑ رہی ہے‘‘۔جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطاء الرحمن نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ’’ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب، فرقے یا گروپ سے جوڑنا درست نہیں ‘‘لیکن سینٹ کی اکثریت نے ان کے اعتراض کو مسترد کردیا۔ آئین میں 28 ویں ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت نے منظورکر لیا ہے ۔ قومی اسمبلی سے اس بل کی منظوری کے بعد سینٹ میں بھی منظور ہونے کی پوری امید ہے جس کے بعد فوجی عدالتوں کی مدت میں2 سال کی توسیع کردی جائے گی۔بلاشبہ فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد دہشتگردوں کو واصل جہنم کرنا ہے اس لیے اس کا قیام وطن عزیز کے لیے بے شمار فوائد لئے ہوئے ہے کیونکہ ان دو سالوں میں بھی متعدد بڑے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں بڈابیرکے رہائشی کمپلیکس، چارسدہ یونیورسٹی، چار سدہ کچہری، گلشنِ اقبال پارک لاہور، واہگہ بارڈر، شکار پور امام بارگاہ، کوئٹہ سول اسپتال، شاہ نورانی درگاہ،چیئرانگ کراس اور سیہون شریف وغیرہ۔ان واقعات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ابھی بھی دہشت گردایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کے خاتمے میں ہی ملکی سلامتی ہے اس لیے آپریشن ردالفساد کے باوجود فوجی عدالتوں کی موجودگی موجود وقت کی اہم ضرورت ہے۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 69 Articles with 83167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.