پاکستان برائے فروخت ۔ ۔

ہمارا پاکستان پیارا پاکستان ہم اور ہمارے بزرگوں نے بڑی چاہت سے بڑی کاوشوں سے اس وطن کو حاصل کیا ہے ہماری بدقسمتی کہ پاکستان کو اب تک کوئی مخلص حکمراں نصیب ہوا قائد اعظم نے تو اسی وقت کہہ دیا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ زمانہ قریب میں ایک حکمران جن کا نام پرویز مشرف ہے انہوں نے پاکستان کا سودا ایک رات میں صرف ایک ٹیلی فون پر کر ڈالا مشرف کی اس پالیسی نے پاکستان کو اس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے کہ اگر موجودہ حکومت چاہے بھی تو مشرف کی ان پاکستان دشمن پالیسیوں سے منحرف نہیں ہو سکتی یعنی مشرف نے وہ گھٹی پلائی ہے جو نہ اگلی جائے اور نہ نگلی جائے وہ مشرف وہ۔

افغانستان کہنے کو تو ایک الگ ملک تھا لیکن عملی طور پر وہ پاکستان کا حصہ تھا ایک پاکستانی آزادانہ طور پر افغانستان جا اور آ سکتا تھا اور پاکستانیوں کے افغان میں کاروبار بھی اچھے چل رہے تھے۔ مشرف کی پاکستان برائے فروخت کی پالیسی نے ہمیں اس مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ ہمیں اب پاک افغان سرحد پر فوج لگانی پڑی جس کی وجہ سے پاکستانی فوج کی طاقت کم ہو کر رہ گئی۔ مشرف نے ہمارے بائیں بازو یعنی افغانستان کا سودا کر کے سمجھا کہ اب پاکستان محفوظ ہو گیا ہے مشرف نے یہ نہ سوچا کہ اگر آگ برابر والے گھر میں لگے تو اس کے شعلے میرے گھر کو بھی جلا سکتے ہیں جبکہ نائین الیون اور افغانستان پر حملے کے وقت بغلیں بجانے اور ویل کم امریکہ ویلکم کے نعرہ لگانے والی جماعت ایم کیو ایم کے پیر صاحب نے عمران فاروق کے معاملے میں امریکہ سے مدد نہ ملنے پر کیا سیاسی اور انٹرنیشنل قلابازی لگائی ہے اس کا جواب نہیں۔ سیاست دانوں اب تو کچھ سیکھ لو۔ ۔ ۔

پاکستان کے مسلمان سیاست دانوں اللہ اور اس کے رسول کی بات یاد رکھو کہ یہود اور نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ اگر پاکستان بھارت، چین اور ایران سے دوستی کر لیتا تو اس کے حق میں وہ زیادہ بہتر ہوتا۔

انہیں مشرف صاحب کے دور حکومت میں جب نیٹو نے ڈرون حملے شروع کیے تھے تو وہ سرے سے ہی انکاری تھے کہ کوئی ڈرون حملہ ہوا ہے وہ بڑی دلیری سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اس سودے میں امریکہ سے ڈالر تو ملتے رہے لیکن آج تک ڈرون حملوں میں معصوم جانیں جا رہی ہیں۔ میں مشرف صاحب سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ نے وہ ڈالر کہاں چھپا کر رکھے ہیں ان کا حساب دیجیئے وہ ڈالر جن کے بدلے افغانستان، وانا اور وزیرستان دیا تھا۔

میں لال مسجد، ایمل کانسی، عافیہ صدیقی اور بہت سارے پاکستانیوں کی تو بات ہی نہیں کر رہا، اللہ ہمیں معاف فرمائے کہ ہمارے سامنے کراچی میں ایم کیو ایم نے طالبان کے خلاف اور آنٹی شمیم کے حق میں ریلیاں نکالی ہیں۔ سنا ہے کہ اگر کسی کے سامنے کوئی غلط کام ہو رہا ہو اور اس نے اس کہ خلاف آواز نہ اٹھائی ہو تو وہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ الطاف صاحب اب تو امریکہ کی دوغلی پالیسی کو سمجھو ایک طرف تو وہ طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے اور دوسری طرف آپ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار بنے ہوئے ہو۔

موجودہ ہونے والے نیٹو کے حملے جو کہ پاکستانی حدود میں ہوئے ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس کی شدید الفاظوں میں مذمت کرے۔ خدارا اس پر بھی امریکہ سے ڈالر نہیں لے لینا یہ پاکستان کی سالمیت کا سوال ہے۔ اس وقت ایک قوم ایک ملت اور ایک آواز ہو کر امریکہ سے اپنے مطالبات منوانے کی ضرورت ہے نہ ہی کہ پاکستان برائے فروخت کا بورڈ لگا دو۔