دسواں حصہ اور بیٹوں کی روش

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ یمن کے علاقے میں ایک مردِ صالح رہتا تھا۔ وہ سخی مرد تھا اور سخاوت کی حقیقت کو سمجھتا تھا۔

وہ فصل کی پیداوار کے وقت دسواں حصہ خیرات کرتا۔ پھر گندم کی پسائی پر دسواں حصہ خیرات کرتا ، پھر آٹا گوندھنے پر دسواں حصہ خیرات کرتا اور پھر روٹی پکنے پر دسواں حصہ خیرات کرتا۔ یہ اُس کا طریقہ تھا۔ اور اس کی وجہ سے اُس کی گلی فقیروں کا قبلہ وکعبہ تھی۔ اُس کے دروازے پر مساکین کا ہجوم رہتا اور اُس کے اس عمل کی وجہ سے اُس کی فصل ، پیداوار ، کھیتی اور کاروبار میں برکت تھی۔

وہ اس سخا کے نتائج اور برکت سے واقف تھا۔ اور اِس پر یقینِ کامل رکھتا تھا۔ اُس نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹوں کو بھی اس روش اور طریق کو اپنانے کی نصیحت کی۔

مگر بیٹوں نے جب دیکھا کہ اس طرح زیادہ حصہ پیداوار تو فقیروں اور مسکینوں کو چلا جاتا ہے۔ اُنہوں نے بوجہ حسد اور بخل اس روش کو ترک کر دیا اور سخا کی برکے سے محروم ہو گئے۔ اُن کے کاروبار ، کھیتی اور پیداوار میں کمی واقع ہو گئی۔ کیونکہ پہلے وہ کھیتی بے شمار لوگوں کی پرورش کی ضمانت تھی۔

جب اُنہوں نے اسے روک دیا تو صرف چند لوگ اس سے استفادہ کرنے لگے اور قدرت کے فیاض ہاتھوں نے بھی اضافی پیداوار بند کر دی۔ امام رومیؒ اس حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں مال و دولت خرچ کرنے میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔

YOU MAY ALSO LIKE: