باطل تو جانے کیلئے ہی آیا ہے

اس سے قبل کہ کوئی نئی حکمت عملی اپنائی جائے اور فرقہ پرستوں سے نمٹنے کیلئے سرجوڑکے بیٹھا جائے یہ ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق سے کچھ ان بنیادی عوامل پر گفتگو کرلی جائے جس کے بغیر ہماری کوئی بھی پیش قدمی نہ تو نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے اور نہ ہم اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔اس کے برعکس شدید تر نقصانات کا احتمال مزید بڑھ جاتا ہے ۔ سب سے پہلے تو مسلمان یہ ذہن نشین کرلیں کہ یہ انتخابی جنگ ہے اور یہ مسلمانوں اور بی جے پی کی لڑائی نہیں ہے جیسا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سوچ رہی ہے ۔

۱۹۵۶ءمیں کیرالا میں جب کمیونسٹوں کی طاقت پورے شباب پر تھی وہاں کانگریس کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی موجود تھے ، مقررین سارا زور کمیونسٹوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت کو کمزور کرنےکی حکمت عملی پر صرف کررہے تھے ،سبھی کا موضوع سخن یہ تھا کہ کمیونسٹوں کونہ صرف کیرالا بلکہ ملک کی ہر ریاست سے اکھاڑ پھینکا جائے ، تبھی پنڈت جی کھڑے ہوئے اور بڑی حد تک برہم ہوتے ہوئے کہنے لگے کمیونسٹ ، کمیونسٹ ، کمیونسٹ ،آخر آپ لوگوں کو کمیونسٹوں سے اس قدر خوف کیوں ہے مجھے تو بائیں بازو کی اس کٹر ہندو فرقہ پرستی سے خوف ہے جس کا زوربڑی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ فرقہ پرستی کا یہ عفریت کہیں ملک کو ہی نہ نگل جائے ۔اس واقعے کو تقریبا ً ۶۱ برس گزر چکے ہیں اب وہی ہندوفرقہ پرستی پوری طرح جوان اور خطرناک ہوچکی ہے ، اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں جو جماعت محض دو پارلیمانی نشستوں تک محدو د رہا کرتی تھی آج نہ صرف وہ مرکزی اقتدار پر قابض ہے بلکہ ریاستی سطح پر بھی وہ بتدریج اپنا شکنجہ کستی جارہی ہے ۔حالیہ ۵؍ریاستوں بشمول ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابی نتائج ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اب بھی اگر عقل و فراست سے کام نہیں لیا گیا تو آئندہ انتخابات میں اس سے بھی بدترین اور مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔

اس سے قبل کہ کوئی نئی حکمت عملی اپنائی جائے اور فرقہ پرستوں سے نمٹنے کیلئے سرجوڑکے بیٹھا جائے یہ ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق سے کچھ ان بنیادی عوامل پر گفتگو کرلی جائے جس کے بغیر ہماری کوئی بھی پیش قدمی نہ تو نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے اور نہ ہم اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔اس کے برعکس شدید تر نقصانات کا احتمال مزید بڑھ جاتا ہے ۔ سب سے پہلے تو مسلمان یہ ذہن نشین کرلیں کہ یہ انتخابی جنگ ہے اور یہ مسلمانوں اور بی جے پی کی لڑائی نہیں ہے جیسا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سوچ رہی ہے ۔ یہ جنگ سیکولر اور کمیونل نظریات کی ہے اور آج بھی سیکولر نظریات کے حامل افراد کی تعداد کمیونل ذہن رکھنے والو ں سے زیادہ ہے ۔آپ کسی بھی علاقے یا ریاست کا جائزہ لیں جہاں انتخابات ہوئے ہیں وہاں ووٹنگ کا تناسب یہی بتاتا ہے کہ کمیونل جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں سے کئی گنا زائد ووٹ سیکولر جماعتوں کو حاصل ہوئے ہیں لیکن انتشار کے سبب ان کی وقعت ختم ہوگئی اور باوجود اکثریت کے ہمارے یہ سارے نمائندے منھ کے بل گرپڑے ۔

اس نازک موڑ پر جب فرقہ پرستی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترآئی ہے اور پے درپے انتخابات جیت رہی ہے ہمیں ذرا ٹھہر کر اور سنجیدگی سے سوچنا ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور ا ن کمزوریوں اور خامیوں کو شمار کرنا ہوگا جو ہم سے دانستہ یا غیر دانستہ طو ر پر ہوئی ہیں یا ہورہی ہیں ۔سردست ہم یہاں اس کمزوری کا ذکر کریں گے جو ہم سے دانستہ ہوئی ہے ۔کمیونل جماعتو ں کی کوششوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین دوریاں بڑھتی جارہی ہیں اور یہ عمل آج سے نہیں برسوں سے جاری ہے اور یہ جماعتیں پوری قوت اور سنجیدگی سے اس کام میں مصروف ہیں ، ان کی شدت کا یہ عالم ہے کہ پڑھے لکھے اور سیکولر مزاج ہندوؤں کی اچھی خاصی تعداد بھی ان سے متاثر ہوتی جارہی ہے جس کا نتیجہ الیکشن کے نتائج کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔اس کے برعکس ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ان فاصلوں کو کم کرنے کے بجائے اپنے عمل و کردار سے ان دوریوں میں مسلسل اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں ۔حکمت عملی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم کسی بھی طرح ان فاصلوں کو مٹانے کیلئے کمربستہ ہوجائیں اسی میںہماری کامیابی مضمر ہے ۔ اب ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ جو جماعتیں صرف اور صرف مسلمانوں کی بات کرتی ہیں وہ ہماری وفا دار نہیں دشمن ہیں ۔ان کا ہر عمل ہندو فرقہ پرستی کو ہی تقویت پہنچاتا ہے جو پورے ملک کی سالمیت اور تحفظ کیلئے زبردست خطرہ ہے ۔مسلم مسلم کھیل سے ہندوہندو کھیل کی ہی نفسیات ابھرتی ہے ان جماعتوں نے یہی کام کرکے ہندوؤں کو متحد کردیا ہے ۔تازہ انتخابات کے نتائج یہی بتاتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارے لئے یہ مثال مفید ثابت ہوگی ۔ہماچل پردیش کے مسرووالا علاقے میں مولانا فاران مظاہری نے ایک دینی مدرسے کی بنیاد ڈالی جہاں زیادہ تر ہندوآباد ہیں اس مدرسے کو لے کر ان میں بے چینی تھی اور اس ادارے سے انہیں نقصان کا خدشہ تھا لیکن مدرسے کے ذمہ داران نے خالص اسلامی نہج پر اپنا کام شروع کیا ۔مدرسے سے ملحق ایک زمین تھی جس کے مالکین دوسرے شہر میں رہتے تھے ،طلباء سردیوں میں دھوپ کیلئے اکثر وہاں بیٹھ جاتے ، کچھ متعصب ہندؤں نے مالکین کو سمجھایا کہ مدرسے کے لوگ زمین پر قبضہ کرسکتے ہیں ، مالکین گھبرائے اور منتظمین سے ملے ، فاران صاحب نے ان سے کہا کہ اسلام میں قبضہ کی کوئی اہمیت نہیں اصل چیز ملکیت ہوتی ہے یہ زمین آپ کی ہے اور آپ کی ہی رہے گی جب تک کہ آپ اسے فروخت نہ کردیں ۔وہ مطمئن ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ زمین فروخت کرنا ہے اگر آپ لوگ اسے خریدنا چاہیں تو ہم نہ صرف آ پ کو ترجیح دیں گے بلکہ دوسروں کے مقابلے کم نرخ میں دے دیں گے ۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں بلکہ کھلی ہوئی حقیقت ہے ، ہم حق کی طرفداری کریں گے تو بلا شبہ لوگوں کی محبت ہمارے ساتھ ہوگی کیونکہ حق انتہائی پرکشش اور طاقت ور ہوتاہے اور یہ ایسی طاقت ہے جس کا کوئی بدل اللہ کی اس زمین پر ہوہی نہیں سکتا کیونکہ حق ہی ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور باطل تو جانے کیلئے ہی آیا ہے اور اس کو جانا ہی ہوگا ۔اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہر قسم کی فتح کی ضمانت ہے ۔آپ سن رہے ہیں نا ؟

 

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 95196 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.