کس نے کہا تھا کہ ارکان اسمبلی کی ڈگریاں چیک کریں

لیں اب کر لیں گل، کردیا نہ حقہ پانی بند، بڑے چوڑے ہوئے پھر رہے تھے۔ تھوڑی سی سستی شہرت کیا مل گئی، سمجھے تھے کہ سیدی حکومت گرا دیں گے۔ اتنی ہمت کہ ان کم ظرف، کم ذات عابد شیر علی اور جاوید لغاری کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے۔ دے دھڑا دھڑ دن رات سب کام روک کر نکلے تھے پیران پیر کے بیٹوں کا منہ کالا کرنے۔ آگیا نہ آسمان سے عذاب، ہوگئے نہ پائی پائی کے محتاج اور پڑگئے نہ تنخواہوں کے لالے۔ آخر کس نے کہا تھا کہ ارکان اسمبلی کی ڈگریاں چیک کریں۔

اب ذرا سن لیں وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے فنڈ کا اجراء جامعات کی کاکردگی پر منحصر ہے۔ سو چلئے اب اچھے بچوں کی انہیں اپنی کارکردگی دیکھائیں اور جس رفتار سے ان معزز و محترم ارکان اسمبلی کی ڈگریاں جعلی قرار دینے کی جرات کی تھی اب اس سے دگنی رفتار سے ناصرف انہیں بلکہ انکے پورے خاندان، اہل وعیال، آس پڑوس، دوستوں یاروں اور پیروں مریدوں کو من پسند ڈگریاں جاری کریں اصلی اور پکے کام کے ساتھ۔ اور یہ کلاسیں ولاسیں بند کریں اور ان سب چھوکرے چھوکریوں بھی لگا دیں اسی کام پر۔ پھر دیکھیں کیسے ہوتے ہیں آپ مالا مال، کیسے آتا ہے غوث اعظم کی مدد کا ہاتھ اور کس طرح سے ہوتی ہے نوٹوں کی بارش۔

اور کان کھول کے سن لیں یہ ہڑتالوں وڑتالوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کلاسیں لیں یا نہ لیں کاروبار حکومت کا کیا اکھاڑ لیں گے۔ بلکہ ہمارا مشورہ ہے کہ یہ جامعات وامعات خالی کر کے ہمیشہ کے لئے ہی گھر چلے جائیں کہ اتنی بڑی بڑی قیمتی زمینیں اور عمارتیں بے کار کے دھندے میں ضائع ہورہی ہیں۔ اصل میں تو ان پر سید زادوں کا حق بنتا ہے، ناجانے کتنی شوگر ملیں بن جائیں انکی وگر نہ اپنے زرداری صاحب کیلئے ایک ایک فارم ہاؤس ہی بن جائیں گے کہ اہلیہ یاد آئیں تو جاکر جی بہلا آئیں۔ خدا کے لئے اب ہمیں تعلیم والیم کی افادیت کا لیکچر مت دیجئے گا اصل چیز پیسہ ہوتی ہے۔ پیسے سے چیزیں خریدیں اور بیچی جاتی ہیں، کروائی اور رکوائی جاتی ہیں، بنوائی اور بگاڑی جاتی ہیں، چھپائی اور پھلائی جاتی ہیں اور گوائی اور نچوائی جاتی ہیں۔ پیسہ سب کچھ ہے، سب کچھ پیسہ ہے۔ ایمان، علم، کردار محبت اور راحت سب پیسہ ہے۔ صاحب بغیر پیسے کہ تو مزارعات بھی نہیں چلتے۔

اگر آپ حضرات کو اتنا شوق ہے جامعات چلانے کا تو فنڈ بھی خود اکھٹا کیا کریں۔ یہ ہزاروں چھوکرے چھوکریاں کس کام کے لئے پالے ہیں انہیں ہی لگائے اس ڈھنگ کے کام پر، نکالیں انہیں باہر اور منگوائیں ان سے کچھ بھیک اور ہاں کچھ فنڈ ونڈ جمع ہوجائے تو حصول برکت و عافیت کے لئے سید صاحب کی درگاہ پر نظرانے کے طور بھجوانا مت بھولئے گا ورنہ مت بولئے گا کہ پہلے کچھ بتایا نہیں۔ اور ہاں آپ حضرات کی یہ بات کیونکرسمجھ نہیں آتی کہ سرکاری خرچ پر باہر بھیجوا کر پی ایچ ڈی کروانے سے بہتر نہیں کہ یہ رقم مستقبل کے وزیر اعظم کی دستار بندی پر خرچ کردیا جائے۔ ارے کیا ان کیلئے اس ملک میں ہی تحقیقی اور علمی کام نہیں ہوسکتے۔ اتنی کیا عقل ماری گئی کہ قومی خزانے پر اس قد شدید بوجھ ڈالتے ہیں۔ دے فٹے منہ آپ حضرات بابر اعوان اور عامر لیاقت بھائی کو بھول گئے کہ جب چند سو یورو میں آن لائن ڈگریاں مل جاتی ہیں تو لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت۔ اتنے پیسوں میں ہمارے صدر محترم اور غوثِ زمانہ وزیر اعظم اور انکے تمام سیدی رفیق ناجانے لندن شریف اور امریکہ کے کتنے مقدس و بابرکت دورے کر آئیں۔

22 ارب روپے! باپ رے باپ، اتنا پیسہ اور وہ بھی آپ جامعات والوں پر، ایک بات بتائیں فروغ علم کے لئے وسائل کی کیا ضرورت ہے بلکہ فروغ علم ہی کی کیا ضرورت ہے۔ اور ویسے بھی آج کل تعلیم سے انتہاپسندی اور بنیاد پرستی بھی پھیل رہی ہے۔ انتہاپسند جامعات سے پڑھ لکھ کر طاقتور ہورہے ہیں اور انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ابھی فنڈ روکے ہیں کل کہیں ڈورون حملے نہ ہونے لگیں۔ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جامعات بند کر کے چابیاں حکومت کو دے دیں اور آپ تمام حضرات کوئی دوسرا دھندا شروع کردیں۔ ہاں بچت کا ایک راستہ مگر ہے۔ وہ ایک تو زرداری صاحب کا در کھلا ہے، نہیں تو سید صاحب کی درگاہ تو ہر خاص و عام کو میسر ہے۔ انکے پاس جائیں اور انہیں یقین دلائیں کہ ایسی سنگین گستاخی آئندہ نہیں ہوگی اور گڑگڑائیں کہ یہ دو ابلیسی برادران تھے عابد شیر علی اور جاوید لغاری جنہوں نے ہمیں بہکایا، اکسایا اور یہ گناہ عظیم سرزد کروایا وگرنہ ہم حضرات تو پیران پیر کے پرانے اور خاص عقیدت مندوں اور فقیروں میں سے ہیں بس خدارا کچھ نظر کرم کردیں۔ پھر قسم سے فنڈ بھی ملیں گے اور تنخواہوں میں اضافہ بھی ہوگا بچاس ساٹھ فیصد نہیں ایک سو نوے فیصد۔

یہ ایچ ایس ای کس بلا کام نام ہے، اچھا خاصہ وزارت تعلیم کے زیر اثر یونیورسٹی گرانڈ کمیشن ہوا کرتا تھا جو مالیات سے لے کر تمام معاملات کو دیکھتا تھا۔ کمبختوں کو شرم نہیں آتی کہ ایچ ای سی بناکر وزیر تعلیم کو مکھیاں مارنے کے لئے چھوڑ دیا۔ صاحب مال پانی کا کام تو عوام کے منتخب وزیر تعلیم کا حق ہے ناکہ ایچ ای سی کا۔ اور ہاں اب خدا کیلئے یہ رونا دھونا بند کریں۔ آہ ہا تین مہینہ ہی تنخواہیں نہیں ملیں تو پیمانہ لبریز ہوگیا اور اتنا ہنگامہ برپہ کردیا۔ وہ بھول گئے دے دھڑا دھڑ دن رات سب کام روک کر نکلے تھے پیران پیر کے بیٹوں کا منہ کالا کرنے۔ آگیا نہ آسمان سے عذاب، ہوگئے نہ پائی ہائی کے محتاج اور پڑگئے نہ تنخواہوں کے لالے۔آخر کس نے کہا تھا کہ ارکان اسمبلی کی ڈگریاں چیک کریں!
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14385 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.