نفسِ ذکیہ - قسط نمبر ۔ 10

’’ہونہہ……‘‘۔’’مسلمان ہو جاؤں……‘‘ ۔ مجدی کو میری باتوں پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ ایک تو ویسے ہی آج کل اس کا چرچ میں آنا جانا ذیادہ تھا۔ اوپر سے بے روزگاری…… اور چڑچڑا پن …… ایسے حالات میں ویسے ہی بندہ آدھا پاگل ہو جا تا ہے۔
’’بڑے کارنامے کئے ہیں نا ان مسلمانوں نے……‘‘ ۔ وہ پیدل ہی میرے آفس سے نکل کر ایک طرف کو چل پڑا۔ یہ بھی نہیں کہا کہ میں اسے گھر چھوڑ دوں۔
’’ہونہہ……! بے شرم !بد اخلاق لوگ……!ساری تاریخ ان کی آپس میں لڑتے بھڑتے گزری ہے…… اور کہتے ہیں کہ مسلمان ہو جاؤ……‘‘۔
’’ جگہ جگہ حملے کر کے لوگوں کو زبردستی مسلمان بنا دیا…… جہاں دیکھوں بم پھاڑتے رہتے ہیں…… دہشت گردی پھیلاتے ہے…… معصوم لوگوں کی جانیں لیتے ہیں …… اور کہتے ہیں کہ مسلمان ہو جاؤ…… مائی فٹ…… آآآآ……‘‘۔ اس کا پیر کسی پتھر سے ٹکرایا اور وہ نیچے گِر گیا۔
’’اُف……! گاڈ ڈیم اِٹ!‘‘ ۔ دماغ تو اس کا ویسے ہی خراب ہوا ہوا تھا اوپر سے وہ گِر بھی گیا۔
وہ فوراََ سنبھل کر کھڑا ہوا۔ اس نے ایک طرف کو سر گھما کر دیکھا تو وہ ایک مسجد کا دروازہ تھا۔ اندر سے ایک نمازی نے نکل کر فوراََاسے سنبھالا ۔
’’ارے بھائی…… ٹھیک ہو نا……؟‘‘ ۔
’’ذیادہ چوٹ تو نہیں لگی؟؟؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں……‘‘ ۔ مجدی کا سر چکرا رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں پر بھی خراشیں پڑ گئیں تھیں۔
’’ارے ! آپ کے ہاتھوں پر تو خراشیں آ گئیں ہیں۔ اندر جا کر ہاتھ پاؤ دھو لیں‘‘ ۔ اس شخص نے مجدی کو مشورہ دیا۔ مجدی دھیمے دھیمے قدم بھرتا مسجد کے اندر وضو کرنے کی جگہ پہنچ گیا۔

’’عجیب بات ہے‘‘۔ وہ ہاتھ پاؤ دھو کر کچھ دیر وہیں بیٹھ گیا۔
’’ ابھی میں ان ہی لوگوں کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور اب ان ہی کی عبادت گاہ میں بیٹھا ہوں!!!‘‘۔ مجدی دل کا تو اچھا تھا ہی۔ فوراََ اس چھوٹے سے واقعے کے بارے میں سوچنے لگا۔
کچھ دیر کے لئے اس کا ذہن تمام خیالات سے پاک ہو گیا ۔ وہ سْن ہو کر وہیں مسجد میں بیٹھ گیا تھا۔ مسجد کی لائیٹیں آف تھیں اور وہ اکیلا ہی تھا ۔ کیونکہ عشاء کی نماز کو ختم ہوئے بھی کافی وقت بیت چکا تھا۔ اس نے مراقبے کی سی حالت میں ایک دیوار سے ٹیک لگا لی۔پھر کب وہ وہیں سو گیا اسے پتا ہی نہ چلا۔

رات کو بارہ بجے اس کی آنکھ کھلی۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ مگر یہ اس کا گھر نہیں تھا۔ یک دم رات کو لگی ٹھوکر اسے یاد آ گئی۔
’’اوہ……‘‘ ۔ مجدی کے منہ سے نکلا۔’’ میں ابھی تک مسجد میں ہی ہوں‘‘۔ اس نے اپنے آپ سے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جلدی جلدی مسجد کے مین گیٹ کی طرف بڑھا کہ کہیں بند نہ ہو گیا ہو۔
دروازہ بند تھا۔
’’اوہ مائی گاڈ……‘‘۔ اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اب وہ مسجد سے کیسے نکلے گا؟؟؟ گھر کیسے جائے گا؟؟؟
’’شیٹ یار!‘‘ ۔ وہ پریشان ہو گیا۔
’’اب کیا کروں‘‘۔
اب اس کے ذہن میں نت نئے وسوسے آنیلگے۔ََ وہ اور گھبرا گیا۔ وہ تو غیر مسلم تھا۔ اس کا مسجد میں کیا کام۔ اگر کوئی آ گیا اور اسے اس وقت مسجد میں پایا تو ضرور حوالات کی سیر کرنی پڑے گی۔ آئے دن مسجدوں میں بم پھٹتے رہتے ہیں۔ اگر کسی نے اس پر دہشت گردی کا الزام لگا دیاتو کیا ہو گا!!!
’’لوگ تو ویسے ہی مجھے پلید اور نا پاک کہتے ہیں۔ میں ان کی عبادت گاہ میں رات کے اس وقت کیا کررہا ہوں؟؟؟‘‘ ۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔
’’ اوہ جیزز! میری مدد کر……‘‘

مجدی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ دروازہ پھلانگتا اور کوئی دیکھ لیتا تب بھی اس پر کوئی چوری کا الزام لگا دیتا اور بات پھر وہی ہوتی۔ مجھ سے تو وہ ناراض ہو کر نکلا تھااور ویسے بھی اس ٹائم ان حالات میں وہ مجھے کبھی فون نہ کرتا۔ چار و نا چار وہ مسجد کے ایک کونے میں گھس کر بیٹھ گیا اور اپنے گھر میں کال کر کے ایک بہانہ بنا دیا کہ رات گھر نہیں آ پائے گا۔

نیند تو اسے کیا آنی تھی ۔ اس نے وقت گزارنے کے لئے ایک ترجمے والا قرآن پاک اٹھا لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

فوزیہ نے بہت پیار سے اپنے ہاتھ میں پکڑے رومال کو دیکھا۔ابھی ابھی اس نے اسے استری کیا تھا۔ کوئی ہلکی سی سلوٹ بھی نہ چھوڑی…… کیسے چھوڑتی…… یہ پہلا تحفہ تھا اس کی طرف سے میرے لئے……صاف شفاف سفید رنگ کا ململ کا رومال …… جس کے ایک کونے پہ چھوٹے چھوٹے ریڈ کلر کے دل فوزیہ نے اپنے ہاتھوں سے کاڑے تھے۔ بہت خوبصورت لگ رہا تھا وہ رومال……

فوزیہ نے الماری سے وہی پرفیوم نکالا جو وہ ہمیشہ لگایا کرتی تھی۔ جس کی خوشبو مجھے بہت پسند تھی۔ یہ خوشبو اس کی پہچان تھی۔ اسی لئے اس نے بہت سارا وہ پرفیوم اس رومال پر چھڑک دیا۔ تاکہ جب وہ میرے ساتھ نہ ہو اس رومال کی خوشبو مجھے اس کے ہونے کا احساس دلائے……یا مجھے اس کی یاد اور شدت سے آئے……

فوزیہ نے ایک پیارے سے بوکس میں اس رومال کو احتیاط سے لپیٹ کر رکھ دیا اور گھر سے باہر نکلی۔

آج ہم کچھ دنوں کے بعد مل رہے تھے۔ وہ بھی کچھ مصروف تھی اور میں بھی …… بس فون پر ہی بات ہو جایا کرتی تھی۔ یعنی دن میں کم از کم تین چار بار فون اور ان گنت میسجز…… پر جو مزہ ملاقات کا ہے وہ فون اور میسجز کا کہاں!!!

ہم دونوں ہی ملنے کو بیتاب تھے۔ کچھ دنوں کے اس وقفے نے تڑپا کر رکھ دیا تھا۔ اور جب آج ملنے کا ارادہ کیا تو یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی شادی ہو…… ہم دونوں ہی ضرورت سے ذیادہ تیار ہو کر گھر سے نکلے …… خوب بن ٹھن کر…… اتنا حق تو ہمار ایک دوسرے پر تھا ہی کہ خوب سے خوب تر ہو کر ہمیشہ ایک دوسرے کا سامناکرتے۔

خیر اس دن کی ملاقات کوئی اتنی نارمل بھی نہ تھی۔ آج میری جیب میں ایک انگوٹھی جو تھی۔
مجدی اور میں نے مل کر یہ انگوٹھی خریدی تھی۔ خوب دکانیں چھانٹ چھانٹ کر……ایک پانچ پتیوں والا لال رنگ کا چھوٹا سا پھول ابھرا ہوا سونے کی انگوٹھی پر بنا ہوا تھا۔

میں ہمیشہ کی طرح پہلے ہی ریسٹورینٹ میں پہنچ چکا تھا۔ تاکہ انتظار کا مز ہ بھی چکھ سکوں……یہ بے چینی بھی محسوس کروں…… ویسے بھی مجھے یہ بہت غیر مناسب لگتا اگر وہ میرا انتظار کرتی اور میں دیر سے پہنچتا…… یہ تو رسمِ محبت کے خلاف ہوتا نا…… سنا تو یہی تھا کہ عاشق کا کام ہی یہ ہے کو تڑپ تڑپ کر مر جائے…… یا یا جل جل کر بھسم ہو جائے…… اس پروانے کے طرح جو شمع کے عشق میں دیوانہ وار اپنی ذات کو شعلوں میں فنا کر دیتا ہے……

شمع پروانے سے کہتی ہے یہ رو کر شبِ ہجر
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے

میں ریسٹورینٹ کے ایک کونے میں جہاں ہماری پراؤسی کو کوئی ڈسٹرب نہ کرے، ہاتھ میں موبائیل لئے بیٹھا تھا۔ بے چینی میں دو بار تو اسے کال کر ہی چکا تھا او تین چار پیار بھرے میسجز بھی ڈلیور ہو چکے تھے۔

آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور فوزیہ کا دیدار نصیب ہوا۔ وہ سفید رنگ کے پلین جارجٹ کے سوٹ میں ملبوس زرد رنگ کا دوپٹہ لئے ریسٹورینٹ میں داخل ہوئی۔ چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی…… ہم اس ریسٹورنٹ میں ہمیشہ اسی ٹیبل پر بیٹھا کرتے تھے۔ وہ سیدھی اسی طرف آئی۔ مجھے دور سے ہی وہاں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا اور مسکرا دی۔
میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور مسکرا کر موبائیل پر الٹے سیدھے بٹن دبانے لگا۔ میرا دل کی دھڑکنے بڑھ گئیں تھیں۔آج میں نے اسے انگوٹھی جو پہنانی تھی…… یعنی قسم کھانی تھی کہ زندگی کا اکیلا پن اس کی ہستی میں ڈوب کر دور کرنا ہے…… مگر ایک انجانہ خوف بھی دل میں تھا کہ اگر فوزیہ نے اس سے انگوٹھی لینے سے انکار کر دیا تو!!!

’’یہ میں آپ کے لئے لائیں ہوں‘‘۔ رسمی علیک سلیک کے بعد فوزیہ نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا اور ایک خوبصورت سا بوکس نکال لیا۔
’’یہ کیا ہے؟؟‘‘ ۔ میری تو بانجھیں کھل گئیں۔
’’دیکھیں!‘‘ ۔فوزیہ نے کہا کے بوکس کو کھول کر دیکھ لوں کے کیا رکھا ہے۔
’’او و و…… کتنا خوبصورت ہے یہ…… ما شاء اﷲ!‘‘ ۔ میری کھل کر مسکرا رہا تھا ۔ فوزیہ بھی خوش ہو گئی۔ میں نے رومال بوکس میں سے نکال کر کھولا۔ فوزیہ کی خوشبو کا ایک جھونکا پورے ماحول کو مست کر گیا۔ میں نے رومال کو اپنی ناک کے قریب کر کے ایک گہری سانس لی۔ اور پھر اسے چوم لیا۔

اب انتظار کس بات کا تھا۔ میں نے بھی اپنے کوٹ میں ہاتھ ڈال کر انگوٹھی کی ڈبیہ نکالی اور کھول کر فوزیہ کے آگے رکھ دی۔
خوشی کے مارے فوزیہ نے اپنے چہرے پرہاتھ رکھ دیا۔
’’اتنی خوبصورت……‘‘۔ بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا۔ میں ٹکٹکی باندھے اس کے چہرے کے تاثرات سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
فوزیہ سے رہا نہیں گیا۔ اس نے ڈبیہ اپنے ہاتھوں میں اٹھا لی اور غور سے انگوٹھی پر بنے لال رنگ کے پھول کو تکنے لگی۔ کالے رنگ کی مخمل کی ڈبیہ میں سونے کی انگوٹھی دمک رہی تھی۔

’’مے آئے؟؟؟‘‘ ۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر فوزیہ سے اسے انگوٹھی پہنانے کی اجازت مانگی۔

فوزیہ نے شرما کر اپناہاتھ آگے بڑھا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

کئی دن ہو گئے تھے۔ فہد کام پر نہیں آیا تھا۔ ایک دو بار میں نے اسے کال کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب نہیں آیا ۔ میں اکثر اس کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ اس کی کٹی ہوئی کلائی اکثر میری سوچوں پر حاوی ہو جاتی تھی۔ البتہ اس کے دوست سے حالات کا کچھ اتا پتا لگ جاتا تھا ۔

ظاہر ہے فہد ذہنی طور پر ایسی حالت میں نہیں تھا کہ نارمل ہو کر کام کر سکے۔ عشق کا بھوت سوار تھا۔ اور بڑا جان لیوا تھا۔ میں بھی چاہتا تھا کہ کچھ عرصے وہ چھٹی پر ہی رہے اور اپنے معاملات درست کر لے۔

میں نے فون اٹھایا اور فہد کا نمبر ایک بار پھر ملایا۔ کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
میں نے دلاور کا نمبر ملایا کیونکہ اس سے بھی کئی رز سے بات نہیں ہوئی تھی ۔ وہاں نمبر لگا ہی نہیں۔
پھر میں میں نے مجدی کا نمبر ڈائل کیا۔ اس نے تو کال اٹھا ہی لینی تھی۔ سو اٹھا لی۔

’’ہیلو…… یار! یہ دلاور کہاں غائب ہے اتنے دنوں سے؟؟؟‘‘ ۔ میں نے ہیلو کہتے ہی مجدی سے دریافت کیا۔
’’ہیلو…… ہاں…… بھئی وہ صاحب تو تھائی لینڈ گئے ہوئے ہیں…… ‘‘۔ مجدی نے جلدی سے سوال سمجھ کر جواب دیا۔
’’تھائی لینڈ!!!‘‘
’’رئیلی؟؟؟‘‘ ۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ عجیب سا لگا۔
’’ہاں …… کیوں؟‘‘ ۔ ’’ ایسے کیوں حیران ہو رہے؟‘‘
’’تمہیں تو پتا ہی ہے اس کا……‘‘۔ ’’ عیاشیوں کے سوا اس کا اور کام کیا ہے……‘‘۔ مجدی نے بڑے نارمل انداز میں جواب دیا۔
بات تو ٹھیک تھی۔ وہ تو مزے میں ہی رہتا تھا ہمیشہ…… مگر ابھی کچھ دن پہلے ہی اس نے مجھ سے ادھار لیا تھا۔ اس لئے مجھے لگا کہ شاید کوئی ضرورت یا مالی مشکل پیش آ گئی ہو گی۔ کیونکہ میرے خیال کے مطابق تو بندہ ایسی صورت میں ہی ادھار لیتا ہے۔ گو کہ اس کا کسی سے ادھار منگنا از خود ایک حیرت انگیز بات تھی کیونکہ ہم سب جانتے تھے کہ دلاور کو کوئی معاشی تنگی نہیں ہے مگر پھر بھی……

’’عجیب بات ہے؟؟؟‘‘ ۔ میں نے پھر کہا۔
’’اس میں عجیب بات کیا ہے!‘‘ ۔ مجدی ہلکا سا ہنس کر بولا۔
’’تم ملو پھر بتاتا ہوں……‘‘۔ میں نے سوچا کہ مجدی سے مل کر اس بات کا تذکرہ کروں گا کہ دلاور صاحب تھائی لینڈ ایسے ہی نہیں گئے …… بلکہ اس کے دئیے ہوئے مال پر مزے کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

دلاور نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔ سبین آج رات اس کے ساتھ نہیں تھی۔ لہذا وہ کھل کر وہ تمام کام سر انجاک دے سکتا تھا جو سبین کی موجودگی میں ممکن نہ تھے۔

تھائی لینڈ کی مشہورِ زمانہ یا بد نامِ زمانہ بھی کہہ سکتے ہیں…… بانگلہ اسٹریٹ پر وہ ایک بیئر بار میں اسٹرپ ڈانسز دیکھنے میں مشغول تھا۔ دوسری طرف سبین کی نیند بھی پوری ہو چکی تھی۔ اٹھتے ساتھ ہی اسے دلاور کا خیال آیا …… اس نے بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی اس کے روم کا نمبر ملایا…… فون نہیں لگا……پھر اس نے اس کا موبائیل ٹرائی کیا…… وہ بھی ناٹ ریسپانڈنگ رہا…… آخر کار وہ اٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر ، چینج کر کے دلاور کے کمرے کے دروازے پر پہنچی…… اندر سے کسی کی آواز نہیں آئی……

سبین نے منہ بنایا…… ’’یا تو وہ سو رہا ہو گا…… یا پھر کہیں وہ اکیلا ہی باہر تو نہیں چلا گیا……‘‘ یہ خیال آتے ہی سبین کے ماتھے پر سلوٹیں پڑ گئی۔
اس نے نیچے ریسیپشن سے معلوم کیا تو دلاور کے کمرے کی چابی وہیں موجود پائی۔ سبین کو بہت برا لگا کہ وہ اسے چھوڑ کر کیسے چلا گیا…… اور وہ کیا کچھ کر رہا ہو گا باہر اس کا اندازہ تو اسے تھا ہی……

وہ غصے کی شکل بنا کر ادھر ادھر ہوٹل میں بھٹکنے لگی۔ پھر کچھ دیر باہر نکل گئی اور یوں ہی چہل قدمی کرتی رہی اور دل ہی دل میں دلاور کو کوستی رہی……
اس نے موبائیل پر ایک بار پھر دلاور کا نمبر لگایا۔ بیل جاتی رہی پر اس نے فون نہیں اٹھایا…… وہ اکتا کر ہوٹل واپس آئی اور اپنے کمرے میں گھس کر بیٹھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔

صبح کے چار بجے دلاور واپس ہوٹل پہنچا۔ ساری رات عیاشی ہوئی تھی، پینا پلانا ہوا تھا، ناچ گانا ہوا تھا…… اور جب و ہ تھک گیا تو ایک تھائی لڑکی سے باڈی ٹو باڈی مساج کروایا …… مساج کا تو بس نام ہی تھا…… باڈی ٹو باڈی مساج حقیقتاََ کیا ہے یہ تو نام سے ہی ظاہر ہے……

ہوٹل واپس پہنچتے ہی وہ اپنے بیڈ پر گرا اور یوں سو گیا جیسے بے ہوش ہو گیا ہو۔

ہوٹل میں بنے ریسٹورینٹ میں ناشتے کا ٹائم ختم ہو چکا تھا۔ دلاور کی آنکھ دوپہر کے ایک بجے جو کھلی۔
’’اوہ……‘‘ ۔ دلاور کے منہ سے نکلا۔اب جا کے اسے سبین کا خیال آیا۔ اس نے اپنا موبائیل چیک کیا تو اس پر سبین کی دو تین مس کالیں موجود تھیں۔
اس نے دانت صاف کئے اور سب سے پہلے ہوٹل سے نکل کر باہر ایک گفٹ شاپ پر گیا ۔ ایک نازک سا پرل لاکٹ اسے پسند آ گیا۔ دلاور تو پرانا کھلاڑی تھا۔ سب پتا تھا کہ سبین ناراض ہو کر بیٹھی ہو گی اور ایک اچھا سا تحفہ اس کی ساری ناراضگی کو ختم کر دے گا۔ ایسی سچویشن میں تو وہ کئی بار پھنس چکا تھا…… اور با آسانی نکل بھی چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

 
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78771 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More