ریاستی سرپرستی میں پنچائیت سسٹم کا قیام

جوں جوں الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں مرکزی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تواتر کیساتھ اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں ۔ پنجاب اور کے پی کے کی دونوں حکومتوں کی جانب سے نما زکے اوقات میں وقفے کا اعلان ، کے پی کے حکومت کی طرف سے سکولوں میں قرآن پاک پڑھنے کو لازمی قرار دینا، عوامی شکایات کے بروقت تدارک کیلئے سٹیزن پورٹل کا قیام، سود کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف قانون کی منظوری وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے ایسے اقدامات سننے او ردیکھنے میں آرہے ہیں جو سیاسی جماعتوں کیلئے آنے والے الیکشن میں مددگار ثابت ہوں گے۔ عوام کی توقعات بھی حکمرانوں سے ایسی ہوتی ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کریں ، اقدامات اٹھائیں جو عوام کے مسائل میں کمی کا باعث ہوں نا کہ ایسے اقدامات جو مزید پریشانی کا باعث ہوں۔ صوبہ کے پی کے میں گذشتہ اڑھائی برسوں سے آئی جی پولیس کی سرپرستی میں ڈی آر سی کا نظام جسے ہم پنچانیت کا سسٹم بھی کہہ سکتے ہیں ۔ بڑے موثر انداز سے کام کرہاہے۔ اس نظام کے باعث اب تک اڑھائی سالوں میں دس ہزار کے قریب ایسے خاندانی، موروثی، اراضی، رقوم و دیگر مسائل حل ہوچکے ہیں جنہیں اگر عدالت میں لے جایاجاتا تو تاحال معرض التواء میں ہوتے۔ اب کے پی کے میں موثر انداز میں اس سسٹم کی کامیابی کے بعد وفاق نے بھی ریاستی سرپرستی میں پنچائیت سسٹم کو شروع کرنے کا ایک اہم فیصلہ تاخیر سے مگر کرلیاہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق ہم اس اچھے قدم کی تعریف کرتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان میں عدل و انصاف کے متبادل تنازعہ جاتی تصفیہ کیلئے احکام وضع کرنے کا بل 2017ء میں پیش کردیا اس بل کو اتفاق رائے سے منظو ربھی کرلیا گیا ہے جسکے مطابق فوجداری اور دیوانی تنازعات جلد اور سستے حل کیلئے مصالحتی کمیٹی و پنچائیت قائم ہو ں گی جو ہر ضلع میں قائم کی جائیں گی۔ ہائی کورٹس کی مشاورت سے اے ڈی آر سنٹرز بنیں گے جن کے پینل غیر جانبدار ہوں گے جن میں سماجی کارکنوں کے علاوہ علماء کرام کو بھی شامل کیا جائیگا۔ جبکہ سبکدوش ججز بھی شامل کئے جائیں گے۔ مذکورہ بل کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اﷲ کرے کہ حکومت نے ممبران کو سیاست سے پاک رکھنے کا جو اعلان کیا ہے وہ اس پر قائم رہیں کیونکہ میں خود بھی اسی مصالحتی کمیٹی ڈی آر سی کا کے پی کے میں قائم ہونے کے دن سے ممبر چلا آرہاہوں ۔ میرا تجربہ ہے کہ جب شروع میں ممبران میں سیاسی پنڈتوں کو بھی شامل کیا گیا تو ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کے علاوہ سیاسی شخص اپنی سیاست کو فیصلوں میں ضرور شامل کرتا ہے۔ اچھی شہرت کے حامل افراد کو ایسی کمیٹیوں کو ممبر بناناچاہئے جنکا کوئی Criminal ریکارڈ نہ ہو۔ ابتدائی سال کے بعد کے پی کے کی کمیٹیوں کو سیاسی افراد سے بالکل پاک کردیا گیا جسکے اچھے نتائج برآمد ہونا شروع ہورہے ہیں۔ مرکزی حکمران ان کمیٹیوں میں بھی اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ موثر اور بہتر انداز میں کام کرسکیں گے۔ نواز شریف نے اپنے گذشتہ دور حکمرانی میں بھی احتسابی کمیٹیاں بنائیں تھیں جن میں سیاسی لوگ شروع میں شامل نہ کئے گئے تھے راقم بھی احتسابی کمیٹی کا ممبر تھاجن کے پاس بے پناہ اختیارات تھے جو کمشنر سے لے کر نچلے تمام افسران کا احتساب کرنے کا اختیاررکھتے تھے ۔ تمام احتسابی کمیٹیوں کی حلف برداری کی تقریب شاہ فیصل مسجد اسلام آباد میں منعقد ہونے کے کارڈ تک ہمیں مل گئے تھے لیکن پھر وہی ہوا جسکا خدشہ تھا۔ نواز شریف اپنی جماعت کے نمائندوں اور کارکنوں کا دباؤ برداشت نہ کرسکے اور تمام پروگرام کو ختم کرکے مسلم لیگی کارکنوں کے حوالے کردیا گیا۔ خدمت کمیٹیوں کے نام سے بننے والی ان کمیٹیوں نے وہ نتائج نہ دکھائے جس کی ان سے امید تھی اﷲ کرے کہ اب ایسا نہ ہو۔ ان کمیٹیوں کے افراد کا ماضی و حال چیک کرنے کیلئے تمام خفیہ اداروں سے کلیئرنس لینا انتہائی ضروری ہے جبکہ تمام ضلعی کمیٹیوں میں خواتین کے مسائل، تنازعات کے حل کیلئے خواتین ممبران کو بھی شامل کیا جائے۔ ان کمیٹیوں کیلئے دفتر ، عملہ کے علاوہ ٹیلی فون، انٹرنیٹ و دیگر سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔ راقم نے ان کمیٹیوں میں اڑھائی سال گزارا ہے ممبران کے دفتر کا رعب و دبدبہ سائلان کو متاثر کرتاہے۔ سائلان کی دادرسی کرکے جو روحانی خوشی ہوتی ہے اس کی مثال دینے سے قاصر ہوں۔ ہماری عدالتوں او رتھانوں میں جس قسم کا رویہ او رمقدمات کے فیصلوں میں طوالت نے عوام کو ذہنی بیما رکردیاہے ، تھانوں کے رویہ کے بارے میں تو شکایات عام ہیں۔ عدالتوں میں معمولی نوعیت کے مقدمات کے فیصلوں میں بھی برس ہا برس لگ جاتے ہیں۔ وراثت، اراضیات، کرایہ داری، معمولی رقوم کی لین دین کے فیصلے ڈی آر سی میں چند سماعتوں میں ہوجاتے ہیں لیکن ہماری عدالتوں پر بے پناہ رش اور کرپشن کے باعث عوام دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہتی ہیں۔ اب تو لوگ عدالت میں مقدمہ لے جانے کی دھمکی اس طعنے کے ساتھ دیتے ہیں کہ عدالت میں لے جاؤں گا۔ دس سال بھی فیصلہ نہ ہوسکے گا۔ لوگوں کا اعتماد اب ہماری عدالتوں سے ختم ہوتا جارہاہے ۔کم از کم ایسے تنازعات کو انتظامی سطح پر کمیٹیوں کے قیام سے فوری اور مفت حل کرکے عدالتوں ، انتظامیہ اور تھانوں کے بوجھ کو کم کیا جاسکتاہے۔ ایساکرنے سے انتظامیہ بھی بوجھ کم ہونے سے دیگر مسائل جن میں اقرباء پروری، گرانفروشی، ملاوٹ، رشوت، سمگلنگ، قما ربازی، جوا، عریانی، صفائی کی ناگفتہ بہ حالت، صحت، تعلیم، بجلی و پانی کے مسائل کی طرف مبذول کرسکتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مذکورہ بل کی تائید اکثریت نے کی ماسوائے پی ٹی آئی کے رکن کے جنہوں نے سیاسی عمل دخل کا خدشہ ظاہر کیا۔ جو بالکل درست ہے اگر حکومت ان کمیٹیوں کے ممبران کے چناؤ میں سیاست کے عمل دخل کو روک کر معزز افراد جن میں اچھی شہرت کے لوگ شامل ہیں کو لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کمیٹیوں کی افادیت اور اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ ان کمیٹیو ں کے ممبران کو ملک میں سودکا لین دین کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیا رملنا چاہئے کیونکہ سودکی لعنت نے ہمارے معاشرے کو آکٹوپس کی طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہو اہے۔ اس سلسلے میں صوبہ کے پی کے میں قانون سازی ہوچکی ہے۔ دیگر صوبے اور وفاق بھی ملک سے اس نحوست کو ختم کرنے کیلئے خلوص کیساتھ قانون سازی کرکے اﷲ کے ساتھ جنگ سے اپنے آپ کو اور عوام کو محفوظ بنائیں۔

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.