کیا عام بجٹ غریبوں کو راس آئے گا

اگر بجٹ میں پیش کئے گئے تمام چیزوں کو دیکھا جائے تو کہیں خوشی کہیں غم ہے،کچھ چیزوں پر حکومت نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے جیسے کہ سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کا معاملہ ہے،یہ ایسا قدم ہے جس سے سیاسی پارٹی کی آمدنی بھی اور سر گرمی بھی عوام کے سامنے آئے گی،الیکشن کے موقع سے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بے حساب اور بے دریغ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے،الیکشن کمیشن کے ذریعہ متعین کردہ رقم سے کئی گنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو کہا جاتا ہے وہ کیا نہیں جاتا اور جو کیا جاتا ہے اسے بولا نہیں جاتا ہے۔
اب ہمارے ملک میں سب کچھ غير متوقع ہورہا ہے، اسی سلسلہ کی ایک کڑی موجودہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ذریعہ پیش کیا گیا حالیہ بجٹ ہے جو اپنے مقررہ وقت سے قبل ہی پیش کردیا گیا ہے،اس بجٹ کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ ہندوستان کا آزاد ادارہ ریلوے بھی اس میں ضم کردیا گیا ہے،اور اسی کے ساتھ ریلوے کی خود مختاری بھی ختم ہوگئی ہے ۔اس بجٹ میں مرکزی حکومت کے ذریعہ پیدا کئے گئے نوٹ بندی سے پریشان عوام کو کچھ حد تک راحت دینے کا کام کیا گیا ہے،ٹیکس میں کمی کردی گئی ہے،3 لاکھ سے 5 لاکھ والوں کیلئے اب دس فیصد سے پانچ فیصد کردیا گیا ہے،وہیں اس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کیلئے پچاس لاکھ سے ایک کروڑ والوں پر دس فیصد ٹیکس کاجزوی طورپر اضافہ کردیاگیا ہے۔ اس قدم سے چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو تو ضرور راحت ملی ہے،اور انہوں نے سکھ وچین کی سانس لی ہے وہیں حکومت نے کسانوں کیلئے دس لاکھ کروڑ کا بجٹ پیش کیا ہے،تاکہ کسان بوقت ضرورت قرض لیکر اپنی ضروریات پوری کرسکیں،اس سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ ملک میں ہورہی کسانوں کی پے در پے اور مسلسل خودکشی پر روک لگے گی،اور کھیتی باڑی میں لوگ دلچسپی بھی لیں گے،اور آئے دن کسانوں کے موت کی خبر سے اور اس غم سے نجات ملے گی لیکن اس سلسلہ میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا حکومت کسانوں کے تئیں اتنی مخلص ہے، کیا کسانوں میں امید کی کرن جاگے گی،کیا وہ اس قدم سے خوش ہیں ؟۔

حکومت نے اقلیتوں کی جانب بھی اس مرتبہ خاطر خواہ توجہ دی ہے اوراقلیتوں کے بجٹ میں 395 کروڑ کا اضافہ کردیا ہے،جس کی بنا پر مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے حکومت کے اس قدم کو اقلیتوں کیلئے ایک خاص تحفہ اور حکومت کی اقلیتوں کے تئیں دلچسپی کا باعث قرار دیا ہے۔ حکومت کے بجٹ میں زیادہ توجہ کے قابل 2000 سے زائد کیش میں چندہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اور اسی طرح ایک دن میں 3 لاکھ سے زائد کا ٹرانزیکشن نہیں کیا جاسکتا ہے،جس سے بدعنوانی پرقابوپانے کی امید ہے۔ اس عام بجٹ میں وزیر مالیات نے دیہی علاقوں کی ترقی کیلئے حکومت نے اچھا قدم اٹھایا ہے، دیہی علاقوں کو مدنظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔اس ترقی کے زمانہ میں بھی آج ہندوستان کی بڑی آبادی دیہی علاقہ میں بستی ہے جو بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، بجلی اور پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے، برسات کے موسم میں سیلاب کے خطرات ہمیشہ منڈ لاتے رہتے ہیں ۔ایسے میں دیہی علاقوں پر نظرکرم کرنا مرکزی حکومت کا ایک خوش آئند قدم ہے۔ عام بجٹ میں اس بات کا بھی دعوی کیا گیا ہے کہ 2019 تک بے گھروں کیلئے حکومت ایک کروڑ گھر بنائے گی،تاکہ جو لوگ بھی بے گھر ہیں انہیں حکومت مسکن فراہم کر سکے۔اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ ایک دن میں حکومت 133 کلو میٹرسڑک بنا رہی ہےاگر بجٹ میں پیش کئے گئے تمام چیزوں کو دیکھا جائے تو کہیں خوشی کہیں غم ہے،کچھ چیزوں پر حکومت نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے جیسے کہ سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کا معاملہ ہے،یہ ایسا قدم ہے جس سے سیاسی پارٹی کی آمدنی بھی اور سر گرمی بھی عوام کے سامنے آئے گی،الیکشن کے موقع سے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بے حساب اور بے دریغ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے،الیکشن کمیشن کے ذریعہ متعین کردہ رقم سے کئی گنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو کہا جاتا ہے وہ کیا نہیں جاتا اور جو کیا جاتا ہے اسے بولا نہیں جاتا ہے۔ جس طرح حکومت نے نوٹ بندی کی تھی اور جس طرح اپنے فیصلہ پر قائم رہی، لوگوں کی اموات اور دیگر پریشانیاں بھی حکومت کے قدم کو ڈگمگا نہیں سکی ۔اگر اسی طرح بجٹ میں پیش کئے گئے تمام وعدوں کو پورا کردیا جائے تو ہندوستان عالمی ترقی کیلئے صرف انجن ثابت نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا خود چاہے گی کہ ہم اس انجن کا ڈبہ بنیں،تاکہ ہمارے ملک میں بھی ہندوستان کی طرح ترقی ہو، پر ایسا کچھ ہوتا نہیں ہے اور نہ ہی تمام چیزوں عملدرآمد کیا جاتا ہے۔اقلیتوں کیلئے پیش کئے گئے بجٹ میں 395 کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے،جس پر مختار عباس نقوی نے خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی پیٹھ تھپتھپائی ہے لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ سال جو رقم مختص کی گئی تھی اس میں سے کتنا خرچ ہوا ہے اور کتنا دوبارہ حکومت کے فنڈ میں واپس کردیا گیا ہے۔یہی حال کسانوں کا ہے ان کیلئے بڑے بڑے وعدے توضرورہوتے ہیں لیکن عمل میں کچھ نہیں آتا ،اگر کسانوں کے مفادات کاخیال رکھاجاتا اور ان کے ساتھ رعایت برتی جاتی تو اس طرح ہزاروں کی تعداد میں کسان خود کشی نہیں کرتے۔صرف مہاراشٹر میں کسان اتنی بڑی تعداد میں اپنی جان دے بیٹھتے ہیں کہ ان کا صحیح حساب لگایا نہیں جاسکتا ہے،ان غریبوں کی آواز تک کوئی سننے والا نہیں ہوتا ہے، ان کی نعش کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے اور وہ بیچارہ غریب خاموشی کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کو اس دنیا میں روتا بلکتا چھوڑ جاتا ہے۔بجٹ پیش ہونے کے بعدسے ہی برسراقتدارپارٹی کے اعلیٰ عہدیداران سے لے کرادنیٰ کارکنان تک نے بغلیں بجانی شروع کردی ہیں اورسبھوں نے خودہی اپنی پیٹھ تھپتھپانی شروع کردی ہیں لیکن یہاں پرپیٹھ تھپتھپانے سے زیادہ اشدضرورت ہے کہ اس بجٹ کوعملی طورپرنافذکرانے کی مکمل اورایماندارانہ کوشش کی جائے تبھی ہندوستان عالمی سطح پرترقی کی ٹرین کاانجن بن پائے گاورنہ شیخ چلی کے خواب کی طرح جوانڈے ہاتھ میں ہیں وہ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
 
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.