تفصیلات طلب!

 تین برس قبل بلدیاتی الیکشن میں کامیابیاں سمیٹنے والے ممبران کو نئے سال کے آغاز میں ہی خوشی کی خبر مل گئی تھی، ان کے حلف ہو گئے، حسبِ توفیق جس کی قسمت میں تھا دفتر دستیاب ہو گیا۔ چلیں ڈیرہ تو سرکاری خرچ پر میسر آیا، ورنہ کھاتے تو پہلے بھی گھر سے تھے ۔ الیکشن ہونے سے دفاتر میں بیٹھنے تک تین سال لگ گئے، اب اختیارات یا تنخواہ وغیرہ بھی دو چار سال میں مل ہی جائے گی۔ اگر تنخواہ ملنے میں تین سال اور بھی لگ گئے تو بھی دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ تمام بقایا جات کے ساتھ ملے گی، یوں جانئے کہ کوئی بانڈ نکل آئے گا۔ بانڈ تو جب نکلے گا، تب تک اپنے گھر سے کھائیں اور موج اڑائیں۔ منتخب میئرز، ڈپٹی میئرز اور چیئرمینوں کے لئے حکومت نے ایک نیا مراسلہ جاری کیا ہے، جس میں تمام مذکورہ لوگوں کی عمر، پیشہ، تعلیمی قابلیت اور سیاسی وابستگی کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ ویسے تو اپنے ہاں کوئی پروفارما بھی آجائے ، اسے پُر کروانے کے لئے کسی وکیل یا خاص ماہر کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ معاملات کو الجھا کر ہی پیش کیا جاتا ہے، لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کر کے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ مگر مذکورہ بالا مراسلہ میں بظاہر چار باتوں کا ہی ذکر ہے، ممکن ہے پروفارما سامنے آنے پر کچھ مزید تفصیلات بھی منظر پر آجائیں۔

کسی بھی سروے یا کسی معاملے کے بارے میں تفصیلات جاننے سے حکومت کے لئے بہت سے قدم اٹھانا آسان ہو جاتا ہے، کسی میئر یا چیئرمین وغیرہ کو راہ راست پر لانے کے لئے اس کے متعلق جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔ کس کو گردن سے دبوچنا ہے، کس کو دھکا دینا ہے، کس کو دبانا ہے اور کس کو اٹھانا ہے، سب باتوں کا فیصلہ ان کے کوائف جاننے سے بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ قومی الیکشن بھی زیادہ دور نہیں ہیں، حکومتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ قومی الیکشن میں بلدیاتی نمائندے بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں، گلی گلی سے واقفیت رکھنے کی وجہ سے ووٹ بینک کے بارے میں انہیں معلومات ہوتی ہیں، کس کو اہمیت دینی ہے اور کس کو پریشان رکھنا ہے؟ کیونکہ اپنے ہاں حکومت مخالف کو فنڈ دینے کا رواج نہیں ہوتا۔ حکومت یہ فیصلہ انہی نمائندوں کی رپورٹس پر کرے گی۔ بلدیاتی الیکشن میں اختیارات نہ بھی ملیں تو یہ نمائندے حکومت سے ناراض نہیں، کیونکہ انہوں نے بڑی مشکلوں سے حکومتی پارٹی کی ٹکٹ حاصل کی تھی۔ اب بھی ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ حکومتی ممبر ہیں، کبھی کسی ایم این اے یا کسی ایم پی اے سے کچھ فنڈ نچوڑ کر اپنے گلی محلے میں لگا دیں گے اور اگلے الیکشن تک اسی کام کو اپنے گلے کا ہار اور ماتھے کا جھومر بنا کر رکھیں گے کہ فلاں گلی کی نالی ہم نے پختہ کروائی تھی۔ خیر کام کیا ہو تو کریڈٹ بھی لینا چاہیے، سیاست میں خود نمائی اور کریڈٹ کی کہانی نہ ہو تو ساری خدمت ہی رائیگاں چلی جاتی ہے۔
 
حکومت نے بلدیاتی نمائندوں کے مختصر کوائف طلب کئے ہیں، اس سے ممکن ہے یہ اندازہ لگانا بھی مقصود ہو کہ کس عمر کے لوگ، یا کتنے تعلیم یافتہ نمائندے یا کس پارٹی کے افراد یا کس پیشے سے وابستہ لوگوں کی استعدادِ کار کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ یہ اندازے محض خوش گمانی کے زمرے میں آتے ہیں، کیونکہ اپنے ہاں حکمرانوں کو اتنی گہرائی میں جاکر لوگوں کے معاملات کا جائزہ لینے کا ہنر نہیں آتا، یا یوں کہیے کہ وہ اس قسم کے جھنجھٹ میں پڑتے ہی نہیں۔ تاہم یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ حکومت کا مقصد کیا ہے؟ حالانکہ یہ تمام تر تفصیلات ان کی دستاویزات میں موجود ہونگی، جو انہوں نے امیدوار بنتے وقت جمع کروائی ہونگی۔ مگر اب تازہ مراسلے میں ان تمام منتخب لوگوں کے اثاثوں، ان کی مالی حالت وغیرہ کا جائزہ نہ لینے میں نہ جانے کیا حکمت کار فرما ہے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ان کے تمام مالی معاملات کی ایک فہرست بن جاتی اور جب ان کا دور اپنے انجام کو پہنچتا تو دوبارہ ان کے اثاثوں وغیرہ کا جائزہ لیا جاتا، پھر یہ معلوم کرنے میں مزید آسانی ہو جاتی کہ کتنی عمر کے ، کتنے تعلیم یافتہ، کس پیشے کے اور کس پارٹی کے لوگ اختیار وغیرہ ملنے کے باوجود مالی طور پر زیادہ ’مستحکم‘ نہیں ہوتے، ان کے پیٹ کا سائز اور ان کا وزن چار سال تک برابر ہی رہتا ہے؟ مگر بدقسمتی سے اپنے ہاں ان باتوں کا جائزہ نہیں لیا جاتا، بلکہ جو لوگ ایسے میں اپنے اندر’’ صحتمندانہ‘‘ تبدیلیاں نہیں لاتے انہیں اختیار بانٹنے والے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428871 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.