انہوں نے کہا

چوہدری نثارکونفسیاتی علاج کی ضرورت ہے ۔سینیٹرسعیدغنی:۔
جناب سعیدغنی صاحب پیپلزپارٹی کے ان اکابرین میں شمارہوتے ہیں جن کے بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں اورانٹرویوزنیوزچینلزپہ نشرہوتی ہیں انہوں نے مختصرعرصے میں خودکواپنی پارٹی کیلئے ’’ضروری شخص‘‘ منوایاہے وہ اکثروبیشتر’’حد‘‘سے نکل جانے میں بھی عارنہیں سمجھتے چوہدری نثارجوکہ ایک اہم اسلامی ملک کے وزیرداخلہ ہیں یادرہے کہ یہ اسلامی ملک دنیاکی ایک بڑی فوجی طاقت بھی ہے اورعالمی برادری میں اسکی بات کواہمیت بھی دی جاتی ہے انکے بارے میں ’’پاگل‘‘ یانفسیاتی مریض کے الفاظ استعمال کرناکسی طورجائزنہیں کیونکہ انکا شماران وزرائے داخلہ میں ہوتاہے جنہوں نے ملک کیلئے ’’کچھ‘‘ کیاہے انہوں نے غیرقانونی اورتھوک کے حساب سے بکتی موبائل سموں کوقانونی کرانے میں اہم کرداراداکیا، شناختی کارڈکے حصول کوسہل بنایا، ہرضلعے تک پاسپورٹ آفس پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں اورنیشنل ایکشن پلان سمیت ضرب غضب جیسے آپریشن کی نگرانی کی اب ان تمام امورمیں نقائص کاباقی رہنابعیدازقیاس نہیں مگرمجموعی طورپہ چوہدری صاحب کی کارکردگی پیپلزپارٹی سمیت متعددسابق وزرائے داخلہ سے بدرجہابہترہے ایسے شخص کونفسیاتی مریض قراردیناسیاسی بھڑک ہی کہلائی جاسکتی ہے سعیدغنی صاحب اورانکی پارٹی اگرچوہدری صاحب کوناکردہ گناہوں پرمطعون کرناچھوڑدیں تو چوہدری صاحب بھی ایک وضعدارسیاستدان ہیں وہ بھی یقیناً پیپلزپارٹی کاکچھاچھٹاکھولنے میں احتیاط برتیں گے پی پی اورچوہدری صاحب کے درمیان اختلاف کوئی خاص نہیں بس بیان بازی کی بناپریہ اختلاف شدت اختیارکرچکاہے جس میں دونوں جانب سے آئے روزبے سروپاالزامات کاتبادلہ ہوتا ہے پی پی اگرچوہدری صاحب کاپیچھاچھوڑکرسندھ حکومت اورصوبے کے مسائل پرتوجہ دے تویقیناًاس بے بنیاداختلاف کاخاتمہ سرعت سے ہوجائیگاچوہدری صاحب کونفسیاتی علاج کی نہیں پیپلزپارٹی کوآنکھوں کے علاج کی ضرورت ہے تاکہ اس کوسندھی عوام کی محرومی نظرآنی شروع ہوجائے۔

ہم پرتنقیدکرنیوالے اپناداغدارماضی آئینے میں دیکھیں۔پرویزخٹک:۔
ہمارے پیارے وزیراعلیٰ صاحب جب بھی گفتگوفرماتے ہیں کسی نہ کسی کواس کاماضی یاددلانے کی کوشش انکے پیش نظرہوتی ہے ایک جانب تووہ تنقیدسے سیخ پاہوجاتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ اورانکے وزراصبح اٹھکرنہارمنہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف بیان داغتے ہیں بلکہ انہیں بے جاتنقیدکانشانہ بھی بناتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ تنقیدان کاجمہوری حق ہے مقام حیرت ہے کہ جو’’حق‘‘ وہ اپنا’’حق‘‘ سمجھتے ہیں وہی ’’حق‘‘ دوسروں کودینے کیلئے تیارنہیں وہ خودتووزیراعظم کی بیماری کوبھی تنقیدکانشانہ بناتے ہیں مگرجب انکی اپوزیشن سی پیک کے حوالے سے وضاحت مانگتی ہے تواسے داغدارماضی کے طعنوں سے نوازاجاتاہے جوش خطابت میں خٹک صاحب یہ تک بھول جاتے ہیں کہ تقریباًان سب ’’داغدار‘‘ ماضی والوں کے ساتھ ان کاکسی نہ کسی طرح کاتعلق رہاہے کسی کے کابینہ میں خٹک صاحب وزیررہے ہیں اور کسی کی پارٹی میں عہدیدار،اب اگران سب سیاستدانوں کاماضی اس قدرہی داغدارہے جس قدرخٹک صاحب ان کومطعون فرمارہے ہیں تواس کاواضح مطلب یہی ہے کہ خٹک صاحب بھی ان داغوں سے اپنادامن نہیں بچاپائے ہونگے اسی لئے توخٹک صاحب کے جواب میں دوسری جانب سے بھی ’’سنگباری‘‘ کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے سنگباری اورجوابی سنگباری کے اس سلسلے میں اصل کام کہیں بہت پیچھے رہ جاتاہے اورسطحی کام یعنی الزامات اورجوابی الزامات کے کھیل کوفروغ ملتاہے یہ وہی کھیل ہے جوانکے مرکزی چئیرمین وفاقی حکومت کے ساتھ گزشتہ پونے چارسال سے کھیل رہے ہیں اس کھیل کاکوئی پھل ناتومرکزی سطح پہ ملااورناہی صوبائی سطح پہ،وزیراعلیٰ کواپنے مقام ومرتبے کاخیال کرکے بات کرنی چاہئے اب اسفندیارولی کوپٹاخے سے ڈرنے کاطعنہ کسی وزیراعلیٰ کوزیب نہیں دیتاکیونکہ یہ بات وزیراعلیٰ سمیت پورے ملک کومعلوم ہے کہ اس ’’پٹاخے‘‘ سے نصف درجن افرادلقمہء اجل بنے تھے اسی طرح کے ’’پٹاخوں ‘‘ سے بشیربلوراوردیگرلاتعدادلوگ شہیدہوئے شکرکیجئے آپکے دورمیں پاک فوج کی آپریشنزسے امن آیاورنہ ایسے ہی کسی’’پٹاخے‘‘کاآپکوبھی سامناکرناپڑسکتاتھاخٹک صاحب صوبے کے سب سے اعلیٰ آئینی منصب پربراجمان ہیں انہیں سطحی اور’’فیس بکی‘‘ گفتگوسے اغراض کی ضرورت ہے رہے اگلے الیکشن میں آپکے کلین سویپ کے دعوے تواسی طرح کے دعوے گزشتہ کے تمام وزرائے اعلیٰ کرچکے ہیں آپ تاریخ کادھارا بدلنے میں کامیاب ہونگے اسکاعلم توجولائی 2018میں ہونے کاامکان ہے آپکی اب تک کی ’’کارکردگی‘‘ سے تونہیں لگتاکہ آپ تاریخ کارخ موڑدیں گے ابھی توآپ ’’ہوگیا‘‘ کرلیا‘‘ آگئی ‘‘ ہوگئی‘‘ تبدیل کردیا‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ سے کام چلارہے ہیں جبکہ عزائم کی تکمیل کیلئے ’’عمل‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔

(ن)لیگ دورکی بدحالی نے عوام کوہمارے فلاحی کام یاددلادئیے۔پرویزالٰہی:۔
نجانے چوہدری صاحب اپنے کس ’’سنہرے‘‘ دورکاذکرفرمارہے ہیں جب یہاں دودھ اورشہدکی نہریں بس جاری ہونے کوتھیں کہ شریف خاندان نے ان سے تخت لاہورچھینااورترقی کے سفرکوبریک لگ گئے چوہدری صاحب نجانے کس ’’عوام‘‘ کی بات کررہے ہیں اسی عوام نے ہی تو انکی ٹرین جتنی پارٹی کوتانگے اورپھر’’سائیکل‘‘ تک محدودکردیاجناب عوام کاحافظہ بے حدکمزورہے اسی لئے ہی توآپکے فلاحی کام بہت دیربعدیادآئے اتنی دیربعدکہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر،وزیراعلیٰ یاڈپٹی وزیراعظم بننے کاموقع آپ کے ہاتھ سے نکل چکاہے۔

الیکشن رواں سال 17مئی کوہونگے، خونی دھرنادینے کی دھمکی۔شیخ رشید:۔
جناب عالی توالیکشن کی تاریخ ایسے دے رہے ہیں جیسے وہی چیف الیکشن کمشنرہوں ہماری اطلاع کے مطابق تواس اسمبلی کی مدت جون 2018میں پوری ہوگی اوراس حساب سے اگست یاجولائی2018میں ہی الیکشنزہوسکتے ہیں بہرحال شیخ صاحب کاکیاہے ان کاکام ہے پیشنگوئی کرنااب درست یاغلط ثابت ہوناپیشنگوئیوں کامسئلہ ہے شیخ صاحب کانہیں رہی بات خونی دھرنے کی توشیخ صاحب نے یہ نہیں بتایاکہ اس خونی دھرنے میں وہ کس کاخون بہائیں گے؟ شیخ صاحب خداکیلئے جلاؤگھیراؤاورخون کی باتوں کوجانے دیں آپ اپنے ایک سیٹ کیلئے عوام کاخون بہانے پہ اترآئے ہیں آپ نے گزشتہ پونے چاربرسوں میں جتنی ’’محنت ‘‘ کی ہے اسکے صلے کے طورپہ آپ کی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ اب پکی ہوچکی ہے اسکے لئے خون بہانے کی کیاضرورت ہے؟
 
Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 52005 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.