ماہ شعبان ،شب برأت اورشرعی ہدایات

ماہِ شعبان قمری سال کاآٹھواں مہینہ ہے،شعبان کامعنی’’جمع کرنا‘‘اور’’جداکرنادونوں آتے ہیں،چونکہ اہل عرب ماہ رجب میں آرام وسکون کے بعدماہ شعبان میں کمائی ودیگرامورکے لیے متفرق ہوجایاکرتے تھے اس لیے اسے ’’شعبان ‘‘کہاجانے لگا۔درِجاہلیت میں اس مہینے کو’’عاذل‘‘اور’’موھب‘‘بھی کہاجاتاتھا،ہمارے ہاں شعبان المعظم کالفظ بولاجاتاہے۔

ماہ شعبان ،شب برأت اورشرعی ہدایات

ماہِ شعبان قمری سال کاآٹھواں مہینہ ہے،شعبان کامعنی’’جمع کرنا‘‘اور’’جداکرنادونوں آتے ہیں،چونکہ اہل عرب ماہ رجب میں آرام وسکون کے بعدماہ شعبان میں کمائی ودیگرامورکے لیے متفرق ہوجایاکرتے تھے اس لیے اسے ’’شعبان ‘‘کہاجانے لگا۔درِجاہلیت میں اس مہینے کو’’عاذل‘‘اور’’موھب‘‘بھی کہاجاتاتھا،ہمارے ہاں شعبان المعظم کالفظ بولاجاتاہے۔احادیث میں آتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے بعد دیگرمہینوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ،کثرت سے روزے اسی ماہ مبارک میں رکھاکرتے تھے۔چنانچہ ابوداؤد شریف میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے منقول ہے کہ :’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سال میں کسی مہینے کے پورے روزے نہ رکھتے تھے ،سوائے شعبان کے ، اسے رمضان کے ساتھ ملادیتے تھے‘‘۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے بخاری شریف میں روایت منقول ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزہ رکھنے لگتے توہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھناچھوڑیں گے نہیں،اورجب روزہ چھوڑتے توہم کہتے کہ اب آپ رزہ رکھیں گے ہیں نہیں،میں نے رمضان کے علاوہ آپ کوکبھی پورے روزے رکھتے نہیں دیکھا،اورجتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے ،میں نے کسی اورمہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کونہیں دیکھا‘‘۔

ان احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مبارک میں اس ماہ کی اہمیت وعظمت صاف ظاہرہوتی ہے۔سنن نسائی میں حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ کی یہ حدیث موجودہے کہ رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے اس ماہ میں کثرت صیام کی حکمت دریافت کی گئی توآپ نے ارشادفرمایا:’’شعبان وہ مہینہ ہے جس میں لوگ رجب اوررمضان کے درمیان رزے سے غافل ہوجاتے ہیں،حالانکہ یہ ایسامہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں،اورمیں پسندکرتاہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اوپراٹھائے جائیں‘‘۔نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک کی تاریخوں کی خوب نگہداشت کرتے،انہیں شمارکرتےاورصحابہ کرام کوبھی اس کاحکم دیتے تاکہ شعبان اوررمضان کے رزے باہم خلط نہ ہوجائیں۔

ماہ شعبان کی اس عمومی فضیلت کے بعداس ماہ کی ایک مخصوص رات کاذکرکرتے ہیں۔شعبان کی پندرہویں شب کوعام بول چال میں’’شب برأت‘‘کہاجاتاہے،یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔اس رات کے بعض فضائل وبرکات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔علماء کی تصریح کے مطابق تقریبًادس صحابہ کرامؓ اس رات کے متعلق احادیث نقل کرنے والے ہیں۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں،مجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہ گاروں کی بخشش فرماتاہے “۔دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے “۔اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے،سوائے سات اشخاص کے ،وہ سات اشخاص یہ ہیں:مشرک آد می،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور۔

ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی ،جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابن ماجہ کی ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟ان میں سے بعض احادیث پراگرچہ کلام کیاگیاہے مگرمختلف طرق سے منقول ہونے کی بناپرعلماء نے ا ن کے ذکرکودرست قراردیاہے۔لہذا ان احادیث کریمہ نیزصحابہ کرام ؓوبزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں کرنے کے تین کام ہیں:
۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا ۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے،اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے توسنت پوری ہوجائے گی اوراجروثواب حاصل ہوگا۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے،جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔
۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام ۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے،یہ خلوت کی عبادت ہے،اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانناچاہیے۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپناناثابت نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں،ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔
۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(یعنی ۱۳،۱۴،۵۱تاریخ) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے، لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔لہذاشیطان کی اتباع کی بجائے سنت کے مطابق اللہ کی عبادت کرکے اللہ کی رضامندی کوحاصل کریں اوران بندوں میںشامل ہوجائیں جن کی اللہ تعالیٰ اس رات میں مغفرت وبخشش فرمادیتے ہیں۔
غلام مصطفی رفیق
About the Author: غلام مصطفی رفیق Read More Articles by غلام مصطفی رفیق: 15 Articles with 20338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.