زرداری کی واپسی۔۔۔ ریل یا جیل

 ٓاب تک کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق سابق صدر پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری 23دسمبر کو وطن واپس آرہے ہیں۔ میں نے اب تک اطلاعات کے مطابق اس لئے لکھا کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست میں عین وقت پر بڑی بڑی تبدیلیاں اور فیصلے رو پزیر ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو معالج زرداری صاحب کو ہوائی سفر کی اجازت دے سکتا ہے وہ اچانک زرداری صاحب کی صحت دیکھ کر انھیں ہوائی سفر خاص طور پر پاکستان کے سفر سے منع بھی کر سکتا ہے۔ بہر حال پیپلز پارٹی والے زرداری صاحب کی واپسی کی خبر پر مبارک مبارک، سلامت سلامت کی گونج میں ان کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جمعہ 23دسمبر کے لئے شہرکا متبادل ٹریفک پلان بھی دے دیا گیا ہے۔ تقریباً 950پولیس اہلکاروں اور افسران کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ زرداری صاحب کی واپسی پر سکیورٹی فراہم کریں۔قائداعظم انٹرنیشنل ائر پورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر پی پی پی کی طرف سے جلسے کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔زرداری صاحب نے جب سے کسی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی اس وقت سے وہ شدید مشکلات کا شکار رہے ہیں۔اگرچہ انھیں نے بین السطور کئی بار اپنے اس بیان کی معافی بھی مانگی لیکن ’’بڑے لوگ‘‘ نہ تو اتنے جلدی کسی بات کو بھولتے ہیں اور نہ ہی آسانی سے معاف کرتے ہیں۔ ان ’’بڑے لوگوں‘‘ کا کام کرنے کا اور معاملات کو پرکھنے کا اپنا ہی انداز ہے جو دنیا بھر میں بڑی حد تک انوکھا بھی ہے۔ پاکستان کی فیصلہ ساز قوتوں نے زرداری صاحب کے بارے میں کیا فیصلہ کر رکھا ہے یہ تو خدا جانے، وہ قوتیں جانیں یا زرداری صاحب جانے لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے فوج کی کمان تبدیل ہونے کے بعد زرداری صاحب کو یا تو کوئی واپسی کا اشارہ ملا ہے یا پھر واپسی کا یہ ناٹک پیپلزپارٹی کے کارکنوں، رہنماؤں اور سندھ کے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔عین وقت پر کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر انھیں کہیں سے واپسی کا کوئی اشارہ ملا ہے تو یہ مجموعی طور پر پاکستان کی سیاست اور پی پی پی کے لئے خوش آئندہے۔ پاکستان میں سیاست دان ہر دور مشکل سے دو چار رہے ہیں ۔ ایک تو ان کے کارنامے کچھ اس طرح کے ہیں دوسرے ہمارے ملک کی اسٹبلشمنٹ ملکی معاملات پر اپنا مکمل کنٹرول رکھنا چاہتی ہے اور خاص طور پر سیاستدانوں اپنا دست نگر رکھنے کے لئے ہر دور میں کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں خود سیاست دان بھی ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں اور وہ ہر حکمراں جماعت کو گرانے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہر قسم کی ساز باز کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا 2014 کا عالمی ریکارڈ یافتہ دھرنا اور رواں سال میں اسی طرح کی ایک اور کوشش اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ایک دوسرے کے خلاف اسی طرف کے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہیں تاہم اب وزریراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں آصف علی زراری کی واپسی کا خیر مقدم کیا ہے۔انھوں نے کہا’’ آصف علی زرداری سے اچھا تعلق ہے ، یہ تعلق برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ خوشی ہے کہ زرداری صاحب واپس آ رہے ہیں‘‘۔نواز شریف نے زرداری صاحب سے امید ظاہر کی کہ وہ پیپلزپارٹی کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے گے۔ نوازشریف کی طر ف سے کی جانے والی آخری بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔’’امید ہے کہ زرداری صاحب پیپلزپارٹی کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھیں گے‘‘ نواز شریف صاحب کا یہ جملہ بڑی حد تک بلاول بھٹو زرداری سے بے زاری کا اعلان بھی ہے۔بلاول بھٹو جس طرز کی سیاست کررہے ہیں اور جس طرح کی زبان نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لئے استعمال کر رہے ہیں وہ میاں نواز شریف کے لئے بڑی حد تک تضحیک کاباعث بن ر ہا ہے بلکہ مسلسل ان کی برداشت کا بھی امتحان لے رہی ہے۔میاں نواز شریف کی طرف سے زرداری صاحب کی واپسی کی خبر کا خیر مقدم کرنا بہر حال اس طرف تو اشارہ کر رہا ہے کہ ماضی کی سیاست نے انھوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور اب وہ سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زرداری صاحب کی واپسی کا خیر مقدم کررہے ہیں اور اپنی سطح پر ملک کی فیصلہ ساز قوتوں کو کوئی پیغام دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بار زرداری صاحب پر کرپشن کا براہ راست کوئی الزام نہیں ہے لہذا ان کی واپسی میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں لہذا اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کرپشن کی بنیاد پر ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو۔ ماضی میں بھی انھیں گیارہ برس جیل میں رکھا گیا اور ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہوئی لیکن کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا ۔ اب بھی اگر اس طرح کی کوئی کوشش کی گئی تو کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکے گا اور مخالفین کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ ہمارے ملک کا عجیب المیہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی کیخلاف کرپشن ثابت ہو، مثال کے طور پر مشتاق رئیسانی یا ان جیسے اور سرکاری افسران کہ جو اپنی کرپشن کے ثبوت اپنی جیب میں لے کر گھومتے ہیں لیکن کرپشن کے بیشتر مقدمات میں عدالت کے سامنے کرپشن ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم اس کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ جس پر کرپشن کا الزام ہے وہ بالکل بے گناہ ہے اور اس نے کرپشن کی ہی نہیں لہذا سلیقے سے کرپشن کرنے والا زیادہ تر جیل کے بجائے ریل میں رہتا ہے اور اگر کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے محض کرپشن کے الزام کی بنیاد پر جیل میں ڈال بھی دیا جائے توپھر اسے ملک کی کرسی صدارت تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 17757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.