تحریک انصاف کا بائیکاٹ ختم……پارلیمنٹ میں واپسی خوش آیند

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پانامہ پیپرز کیس کا عدالت عظمیٰ سے فیصلہ آنے تک پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیا اور بدھ کے روز تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف نے پانامہ پیپرز کیس پر پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا جس کے خلاف ہمارے ارکان قومی اسمبلی تحریک التواء اور تحریک استحقاق پیش کررہے ہیں۔ اب پارلیمان کا امتحان ہے کہ وہ اپنے آزاد اور بااختیار ہونے کا ثبوت فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پارلیمنٹ جانے کا مقصد وزیراعظم کا احتساب کرانے کا ہے، کیونکہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے اندر جھوٹ بولا ہے۔ ان کے بقول اب اگر میں سڑکوں پر نکلوں گا تو کم از کم کوئی یہ تو نہیں کہے گا کہ عمران فوج کو بلا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کی طرف سے پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کو ختم کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ میں نے تحریک انصاف کے یوٹرن پر سب سے پہلے تنقید کی، لیکن اب تحریک انصاف کو پارلیمنٹ واپس آنے پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ وزیراعظم نواز شریف ایوان کا اعتمادکھو چکے ہیں۔ وزیراعظم کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا پارلیمنٹ پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ بلاول نے کہا کہ کوئی اچھا فیصلہ کرے تو تعریف کرنی چاہیے۔جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں واپس آنے پر خوش آمدید کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ بھٹو کو پھانسی دینے والوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھنے میں کیا برائی ہے۔ جن لوگوں نے ہمیں جیلوں میں ڈالا ہم ان کے ساتھ بھی بیٹھے اور ان کو بچانے کے لیے کردار بھی ادا کیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بائیکاٹ ختم کرنے کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف پر دباؤ بڑھانا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو معلوم ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم پر پاناما لیکس کے حوالے سے دباؤ بڑھانے کے لیے ہر فورم اور ہر پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ سپریم کورٹ ہو یا پارلیمان۔ ایک تو پی ٹی آئی کو اس کے ارکان پارلیمان کے صرف اسمبلی کی کمیٹیوں میں جانے، لیکن پارلیمان سے دور رہنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا تھا، دوسرا جماعت کے اندر یہ بات کی جا رہی تھی کہ پارٹی کو اسمبلی جیسے فورم سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔ اب پی ٹی آئی کے لیے پارلیمان کا بائیکاٹ فائدہ مند نہیں رہ گیا تھا، کیونکہ جو ان کو سپریم کورٹ سے امید تھی، وہ پوری نہیں ہوئی اور اب وہ معاملہ لٹک گیا ہے، اس لیے انہوں نے پارلیمنٹ کا دوبارہ رخ کیا ہے، جبکہ مخالفین کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر ’’یو ٹرن‘‘ لینے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان خود پر یوٹرن کا الزام لگانے کا موقع خود دیتے ہیں۔ جب فیصلے کا اعلان کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کا آخری فیصلہ ہوگا، لیکن جلدی میں کیے جانے والے ان فیصلوں کو وہ جلد ہی واپس بھی لے لیتے ہیں۔ عمران خان نے 2014ء میں دھرنے کو پشاور سکول میں حملے کے بعد ختم کرنے کا اعلان کیا۔ وہ اس فیصلے پر کنفیوژن کا شکار تھے، اس سے چند ماہ قبل ہی فوج کو شمالی وزیرستان میں بھجوانے کے حق میں نہیں تھے، لیکن بعد میں انہیں فیصلہ واپس لینا پڑا۔ پاناما لیکس کے بعد دھرنے اور اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کرنے کے بعد عمران خان کا کال واپس لے کر یوم تشکر منانا ایک بہت بڑی ناکامی تھی۔ عمران خان کے یو ٹرنز کی ایک لمبی فہرست ہے۔ سیاست دان واپسی کا راستہ رکھتے ہیں، لیکن عمران خود کو بند گلی میں کھڑا کرلیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مخالفین ان پر یوٹرن کا الزام لگاتے ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی نے پاناما لیکس کا فیصلہ ہوجانے تک پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اب ایک بار پھر اپنے فیصلے سے رجوع کرلیا ہے۔ اس دوران رواں برس اکتوبر میں بھارتی جارحیت اور کشمیر کے معاملے پر ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی پی ٹی آئی نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد نومبر میں ترک صدر رجب طیب اردگان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی پی ٹی آئی نے شرکت نہیں کی تھی۔چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جب تک سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کا کیس چل رہا ہے، تب تک وہ پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مجرم ملک کا وزیراعظم نہیں ہوسکتا۔ اگر وزیراعظم خود کو سپریم کورٹ کے سامنے بے قصور ثابت کردیتے ہیں تو اسمبلی میں چلے جائیں گے، اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی احتجاج کیے، اپنی جماعت کے کارکنوں کو اس حوالے سے یقین دلائے رکھا کہ جب تک پاناما لیکس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ بائیکاٹ کریں گے، لیکن اب ان کے اس فیصلے سے کارکنوں کے جذبات بھی مجروح ہوں گے، عمران خان کو فیصلہ کرنے سے پہلے ایسے معاملات پر بھی غور کرنا چاہیے۔بار بار یوٹرن لینے سے نہ صرف ان کی جگن ہنسائی ہوتی ہے، بلکہ ان کی جماعت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

عمران خان کا پارلیمنٹ بائیکاٹ کا فیصلہ مخالفین کی نظر میں تو یوٹرن ہے، لیکن ملکی جمہوریت کے لیے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے، کیونکہ پارلیمان ہی ملک کا وہ اعلیٰ ترین ادارہ ہے جس کی آئین سازی خود پارلیمان کی صورت گری، عدلیہ کی تشکیل، احتسابی اداروں کے وجود اور دیگر ریاستی اداروں کے خدو خال ابھارنے کا موجب بنتی ہے۔ عوام کی جانب سے جن نمائندوں کو اپنی نیابت کے لیے پارلیمانی ہاؤسز یا ایوانوں میں بھیجا جاتا ہے، ان کا کام گھر بیٹھ کر سیاست چلانا نہیں، بلکہ پارلیمان میں عوام کی آواز اٹھانا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں اور مخالف بنچوں پر بیٹھنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سوالات، مختلف تحریکوں، پرائیویٹ بلوں، تجاویز، قانونی ترامیم اور تجزیاتی تبصروں کی صورت میں حکومت کو احتساب کا احساس دلاتے رہیں اور درست فیصلے کرنے میں اس کی مدد کریں۔ اس باب میں دباؤ ڈالنے کے لیے واک آؤٹ، بائیکاٹ، سڑکوں پر احتجاج کرنا بھی کئی جمہوری ممالک کی روایت ہے، لیکن ایوان سے طویل غیرحاضری اور مسلسل سڑکوں پر رہنے کا کلچر پارلیمانی ایوانوں کی اہمیت و افادیت گھٹانے اور بسا اوقات غیرجمہوری اقدامات کا راستہ ہموار کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارلیمنٹ کے منتخب ایوان ہی جمہوریت کی بنیاد ہیں، جبکہ پارلیمنٹ سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کا مجموعہ ہوتی ہے، جنہوں نے عوامی مینڈیٹ کے تقاضوں کے مطابق پارلیمنٹ کے اندر اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس ناطے سے اپوزیشن کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس کے تعمیری کردار سے حکمرانوں کا قبلہ بھی درست رہتا ہے اور وہ من مانیوں اور اختیارات سے متجاوز اقدامات سے پہلے اس بات کو بہرصورت پیش نظر رکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ان کا احتساب کرنے والی اپوزیشن موجود ہے۔ بے شک اپوزیشن کا کردار حکومت کی کٹھ پتلی بننا نہیں ہے، تاہم عوامی مینڈیٹ کے مطابق جو اپوزیشن کی ذمہ داری ہے، وہ تو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اسے ادا کرنی چاہیے۔ اس تناظر میں عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی کی اب تک کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپوزیشن بنچوں پر اپنا پارلیمانی کردار ادا کرنے پر کبھی آمادہ نظر نہیں آئی، بلکہ اس نے لانگ مارچ، دھرنوں اور دھمکیوں کی سیاست اختیار کرکے جمہوریت اور اس کے تابع پارلیمنٹ کو ہمیشہ خطرات سے دوچار کرنے کی ہی کوشش کی ہے۔اب انہوں نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرکے پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی ہے، لیکن خود اسمبلی میں جانا اب بھی اپنی شان کے منافی سمجھ رہے ہیں، حالانکہ جو بات وہ کورکمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کے روبرو کہہ چکے ہیں، وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر کرتے تو اس کے ان کی سیاست پر زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوتے۔ وہ ساڑھے تین سال کے دوران صرف پانچ بار قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے ہیں اور اب بھی وہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کے باوجود خود پارلیمنٹ میں جانے کو تیار نہیں، حالانکہاگر وہ پارلیمنٹ کو اپنی سیاست کا مرکز بناتے تو اس سے پارلیمنٹ بھی مضبوط ہوتی اور ان کی اپنی سیاست کا سکہ بھی چل جاتا، مگر وہ پارلیمانی سیاست کے قائل ہی نظر نہیں آتے۔

اپوزیشن بنچوں پر پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی دونوں بنیادی ایشوز بشمول پانامہ کیس پر متفق ہو کر اپنا پارلیمانی کردار ادا کریں تو وہ سرکاری بنچوں کو راہ راست پر آنے پر مجبور کرسکتے ہیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیر اعظم خود کو بچانے کے لیے ہر طریقہ اختیار کر رہے ہیں، ان کا احتساب ہونا ضروری ہے، کیونکہ وہ ملک کے سربراہ ہیں اور سربراہ کا احتساب پہلے ہونا چاہیے۔ پانامالیکس کا معاملہ کوئی چھوٹا نہیں ہے، کئی ممالک کے وزرا اوع اہم عہدیدار استعفے بھی پیش کرچکے ہیں، لیکن میاں نوازشریف معاملے کو لٹکائے ہوئے ہیں، طرح طر ح کے حیلوں بہانوں سے معاملے کو طوالت دے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں عمران خان کی وزیر اعظم کے احتساب کا مطالبہ بالکل حق بجانب ہے، لیکن ان کا طریقہ کچھ درست نہیں ہے۔اگر پیپلزپارٹی اور عمران خان مل کر وزیر اعظم کو کٹہرے میں کھڑے کریں تو وزیر اعظم کے لیے خود کو بچانا مشکل ہوجائے گا۔ عمران خان اور پی پی نے تحریک استحقاق بھی اسی لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ، جس کو سپیکر نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے، اس لیے پارلیمنٹ میں اس پر بات نہیں ہوسکتی، حالانکہ اسپیکر کا اپوزیشن کی تحریک استحقاق مسترد کرنے کا فیصلہ درست نہیں، کیونکہ پارلیمنٹ وہ فورم ہے جہاں ہر بات ہوتی ہے یہاں تک کہ ججز کے فیصلوں پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ اگر میڈیا پر پاناما سے متعلق بات ہوسکتی ہے تو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں ہوسکتی ہے۔اگرچہ عمران خان نے پارلیمنٹ میں واپسی کا مقصد تحریک استحقاق پیش کرنا ہی بتلایا گیا، لیکن اسپیکر نے یہ کہہ کر وزیراعظم نوازشریف کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے سے روک دیا کہ معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے یہ تحریک پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ استحقاق متعارف کروانے کی اپنی نوعیت کی پہلی کوشش نہیں۔ اِس سے قبل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی تحریکِ استحقاق جمع کرائی گی تھی، لیکن اْسے بھی اس وقت کی حکمراں جماعت کی اکثریت کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اِس طرح کی تحریکیں حکومتی جماعت کی پارلیمان میں اکثریت کی وجہ سے پیش کرنے سے پہلے یا بعد میں بحث یا ووٹنگ کے دوران مسترد ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا عمران خان کو پاناما لیکس کے معاملے میں وزیر اعظم کے احتساب کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، وہ پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے دیگر جماعتوں کے ساپنے ساتھ ملاکر اپنی کوشش جاری رکھیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633090 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.